مکالمہ کی سالگرہ پر پیغام۔۔۔ اجمل ملک

میں روایت پرست ہوں،اورقدامت پرست بھی۔ میرا یقین ہےکہ’’رانے‘‘ شراب ،شباب اورکباب کے رسیا ہوتے ہیں۔وہ آئین کےآرٹیکل 62 اور63پر کبھی پورا نہیں اترتے۔میرے تخیل کے راجپوت تو ’’باجی راؤ مستانی‘‘ جیسے ہیں۔یہی تخیل میری قدامت پرستی کی بنیادہے۔میں نےزندگی میں پہلی بار۔ راناسانگھاکو پڑھا تھااورآخری بارانعام راناکو۔لیکن۔ کوئی ٹینشن نہیں ہوئی۔فکر مجھے تب بھی نہ ہوئی جب پتہ چلا کہ سانگھا چتوڑسےتھےاورانعام لاہورسے۔

مجھے کیا غرض کہ رانا سانگھا ایک بہادرسردارتھا اور انعام رانا عام آدمی ہے۔لوگ کہتےہیں کہ چھوٹے شہروں میں رانے، وکیل ہوتے ہیں یا ڈاکو۔۔مجھے اس مفروضے پر کچھ نیا نہیں لگا۔۔الٹا پریشانی یہ ہوئی کہ ، بڑے شہروں میں بھی رانے ایسے ہی ہوتے ہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ رانے اگر ’’اندر‘‘نہ ہو ں تو ’’باہر‘‘ ہوتے ہیں۔ انعام رانا وکیل بھی ہیں اور’’ باہر‘‘ بھی۔ میں یہ سوچ سوچ کر ہار چکا ہوں کہ ایک راجپوت ،ایسٹ انڈیا کمپنی سے بدلہ لینے کے لئے برطانیہ میں نہ بیٹھا ہو۔ لیکن یہ کیسا ’’بدلہ خواہ‘‘ ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

جس نے تلوار اور جام کے بجائے۔محبت  اورامن عالم کا علم اٹھا رکھا ہے۔یہ کیسا رانا ہے، جو مکالمے کے ذریعے قائل کرنے یا قائل ہوجانے پر یقین رکھتا ہے۔۔جو کہتا ہے ’’مباحثہ نہیں مکالمہ ‘‘کریں۔۔ انعام رانا نے میری قدامت پرستی کو توڑا ہے۔ میں اُن سے بدلہ لے کر رہوں گا۔خواہ مجھے بحث ہی کرنی پڑے۔ میری طرف سےانعام رانا اورپوری مکالمہ فیملی کوپہلی سالگرہ کی ڈھیروں مبارک باد۔ ژاں سارتر،۔ احمد رضوان، حافظ صفوان،۔ طاہر یاسین طاہر، اسمامغل ، ایڈمن ٹیم سمیت سب کو مبارک باد ۔خوش رہیں۔ ترقی کا سفر جاری رکھیں۔ آمین

Facebook Comments

اجمل ملک
مجھے پاکستانی ہونے پر فخر ہے۔ بیورو چیف ایکسپریس نیوز۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply