ایک ادھوری کہانی ۔۔۔۔طاہر حسین

یہ وردی مجھ پر بہت سجتی ہے بالکل کوئی فلمی ہیرو  نظر آتا  ہوں۔ میرے بوٹ کی چمچماہٹ ایسی ہے کہ جیسے آئینہ ہو۔ کتنا اچھا لگتا ہے جب سارے گاؤں کے بچے صرف مجھ سے ہاتھ ملانے کو دوڑتے ہیں۔ اور وہ ہم عمر نوجوان، ان کی آنکھوں سے تو جیسے حسد امڈتا پھرتا ہے اور میں دل ہی دل میں کہتا ہوں کہ جلتے رہو۔۔ اور جلو۔۔۔ میں ایک بے نیازی سے اپنا سینہ کچھ اور چوڑا کرتا ہوں اور سگریٹ سلگا  کر انتہائی نخوت سے منہ دوسری طرف پھیر لیتا ہوں۔

ہوا کچھ یوں کہ بدین اور ٹھٹہ کے علاقوں میں شدید سمندری طوفان آیا جس نے ہر طرف تباہی پھیلا دی۔ کھوسکی، نندو اور گولومندرو سب سے زیادہ متاثر تھے جہاں کئی گاؤں تو ایسے بھی تھے جہاں ایک دیوار بھی سلامت نہیں بچی تھی۔ میری سروس   کو دو تین ماہ پہلے  ہوئی تھی اور مجھے متاثرین کی امداد اور بحالی کا کام دے کر ایک دوسری یونٹ کے ساتھ اٹیچ کیا گیا تھا۔

میری ٹیم میں ایک ڈاکٹر، ایک تحصیلدار، پٹواری اور سرکاری سکول کے دو استاد تھے۔ ہمیں علاقے کے تمام گوٹھوں کے تقریباًًً  ہر گھر میں جانا تھا جہاں گھر کے افراد کی تعداد کے حساب سے راشن تقسیم ہوتا، کہیں کسی مریض کو علاج کی ضرورت ہے تو اسکا موقع پر معائنہ کر کے دوا دی جاتی اور طوفاں کی وجہ سے گھروں کو پہنچے نقصانات کا تخمینہ لگا کر سرکاری معاوضہ ادا ہوتا اور سربراہ خانہ سے دستخط یا انگوٹھا لگوا کر فارم اپنے ریکارڈ کے لئے رکھ لیتے۔

ہماری یہ ٹیم جب بھی کسی گاوں کے پاس پہنچتی تو ایک جم غفیر اکھٹا ہو جاتا۔ ہر کسی کی یہ کوشش کہ سب سے پہلے اس کے گھر کا معائنہ ہو، سب سے زیادہ راشن کی اس کو ضرورت ہے اور اسی کے گھر میں پڑا کوئی مریض جیسے ابھی دم توڑنے کو ہے اس دھکم پیل میں مجھے یوں لگتا کہ جیسے میں اکیلا ہی مرکز نگاہ ہوں۔ بچے محبت سے میرے ساتھ ساتھ چلنے لگتے اور بڑے بوڑھے اس خیال سے خوشامدی لہجہ بنا لیتے کہ ان پر زیادہ سے زیادہ ترس کھایا جاسکے۔

نقصانات کا تخمینہ لگانے کیلئے چونکہ ہر گھر میں جانا ضروری تھا تو ضابطہ کچھ یوں طے کیا گیا کہ مقامی روایات کے مطابق خواتین کو پردہ کروا کر گھر کے ایک مرد کی موجودگی میں ہی گھر میں داخل ہوا جائے گا۔

چڑھتی جوانی، نوآموز افسری، کھڑکھڑاتی کلف لگی وردی  اور پھر مصیبت کے مارے ضرورت مندوں کی خوشامدیں تو اس میں میرا کیا قصور کہ گردن میں کچھ اکڑ آجاتی ہے اور چھاتی کچھ اور بھی پھول جاتی ہے۔

گھروں کے معائنے کے دوران ایسے میں میری آوارہ نگاہ اس طرف چلی ہی جاتی جہاں اس گھر کی خواتین چہرے چھپائے ٹیم کو اپنا کام کرتے متجسس نظروں سے دیکھا کرتیں اور کسی بڑی بوڑھی کی اپنے گھر کے مردوں کو تاکید کہ سارا گھر دکھا دیں مبادہ کوئی کونا کھدرا رہ گیا تو معاوضے میں کمی ہو جائے گی۔ وہیں نوجوان لڑکیوں کی دبی دبی ہنسی سن کر مجھے بالکل یوں لگتا کہ جیسے سب اپنے دل ہتھیلیوں پر رکھے مجھ پر مر مٹنے کو تیار ہوں۔ ایسے میں اگرچہ طلب نہیں لیکن میں ایک سگریٹ سلگا کر چہرے پر سنجیدگی کا ڈرامہ کرنے لگتا لیکن دل و نگاہ انہیں پردہ نشینوں کے تعاقب میں رہتے۔

ایک روز ہم بدین کی تحصیل کھوسکی کے ایک نواحی گاؤں میں گئے۔ معمول کے مطابق ایک ایک گھر کا سروے شروع ہوا۔ شام ڈھلنے کو تھی اور میں اسی اسٹائل کے چکر میں تقریباًًً  ڈیڑھ ڈبی سگریٹ پہلے ہی پھونک چکا تھا۔

گاوں کے ایک گھر میں داخل ہوئے جہاں شائد مردوں نے خواتین کو پہلے سے پردہ کرنے کا نہیں کہا تھا۔ ہمارے داخل ہوتے ہی ایک ہلچل سی مچ گئی۔ خواتین دوپٹے، چادر اور پلو جلدی سے سنبھالتے صحن کے کونے میں نیم کے ایک درخت کے نیچے کھڑی ہوگئیں لیکن ان میں سے ایک لڑکی وہیں پیڑھی پر بیٹھی رہی جو اس گھر کا اوپن ائیر باورچی خانہ تھا۔

میری نگاہ اس کی طرف اٹھی تو جیسے میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ ایسا حسن کہ جو نگاہ کو جکڑ لے۔ عمر اسکی یہی کوئی بیس بائیس برس ہوگی۔ سنہری بال، روشن سبز آنکھیں، سرخ انگارہ سے ہونٹ اور رنگت ایسی کہ اسکی کلائیوں کی رگیں بھی واضح تھیں۔ اور وہ جھجکتے مسکراتے میری ہی طرف دیکھے جارہی تھی۔ میں نے پھر گولڈلیف کا ایک سگریٹ نکالا اور اپنی دانست میں اسکو متاثر کرنے لگا۔ نخوت سے بھرے دماغ میں یہی گدگدی کہ “لے بھائی بچی تیرے ساتھ سیٹ ہوگئی”

میری شدت سے خواہش تھی کہ اس سے باتیں کروں۔ اور اتنے میں اس کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی ! آپ کا کیا نام ہے؟ اور یہ سننا تھا کہ میرے دل میں جیسے گھنٹیاں سی بجنے لگیں۔ وہ کچے فرش پر دھری پیڑھی پر ہی بیٹھی رہی اور مجھ سے ادھر ادھر کے سوال پوچھنے لگی جن کا جواب میں اس کو اپنی دانست میں انتہائی متاثر کرنے والے انداز سے دیتا رہا۔ ہماری اس گفتگو کو تھوڑا ہی وقت گزرا ہو گا کہ نیم کے درخت کے نیچے کھڑی عورتوں میں سے ایک نے سندھی زبان میں اس سے کچھ کہا جس کی مجھے یہی سمجھ آئی کہ وہ اسے اپنے پاس بلا رہی ہے۔ اس نے میری طرف ایک بار پھر دیکھا، مسکرائی، تھوڑا سا جھجکی اور اپنے ہاتھوں کے بل پر گھسٹتی ہوئی نیم کے درخت کی طرف حرکت کرنے لگی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ دیکھ کر کہ اس کی دونوں ٹانگیں سرے سے موجود ہی نہیں ہیں میرا سارا نشہ اور غرور اس سڑتے ہوئے جوہڑ میں غرق ہوگیا جو اس کے گھر کے بالکل ساتھ تھا۔ میں نے سلگتے ہوئے سگریٹ کا ٹکڑا بوٹ کے نیچے کچلا اور اس مکان کی دہلیز سے باہر نکل گیا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply