دل سے ہمسائے کے نام ایک خط۔۔۔۔عبدالحنان ارشد

پیارے ہمسائے!

نہایت عزت و احترام کے قابل اور میرے پیارے پڑوسی میں آپ کو بہت پہلے یہ خط لکھنا چاہتا تھا، لیکن وقت کی کاری ضرب نے کبھی اس کا موقع ہی نہیں دیا۔ ابھی بھی آپ کے لیے یہ مراسلہ لکھتے ہوئے میری انگلیاں  فگار ہیں لیکن کیا کروں اسے لکھنے سے بھی باز نہیں رہا جا رہا۔ کیونکہ میں بھی انگلی کٹوا کر ہی سہی، حریت پسندوں کی قبیل میں اپنا نام تو لکھوا لوں گا۔

پیارے ہمسائے میں بالکل خیریت سے ہوں، اور آپ کی خیریت مطلوب ہے ، لیکن یہ لکھتے ہوئے نہایت انہماک سے سوچ رہا ہوں، مجھے اُدھر سے کون سر پھرا خط لکھ کر اپنی خیریت سے مجھے آگاہ کرے گا۔ یہ شکوہ نہیں ہے آپ اسے شکوہ ہی سمجھ لیں، کیونکہ شکوے بھی تو اپنوں سے ہی ہوتے ہیں۔ آپ دل ہی دل میں خوش ہورہے ہوں گے کسی طرح آپ کو اپنا تو کہا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ ہمارا  اصل ہیں، یہ الگ بات اصل سے کٹ ضرور چکا ہوں لیکن بھولا نہیں ہوں۔

محترم پڑوسی ہمارے ملک میں تو الیکشن ہو چکے ہیں، جس کے سبب نئی حکومت بھی وجود میں آ چکی ہے۔ اور اُس نے آتے ہی آپ کی طرف دوستی کا ہاتھ بھی بڑھایا ہے۔ میں جانتا ہوں آپ کی اپنی مصلحتیں ہیں آپ مئی تک اپنے الیکشنوں کا انتطار کرنا چاہتے ہیں۔ شوق سے انتظار کیجئے لیکن خدارا اس دوستی کے نادر موقع کو ہاتھ سے مت جانے دیجئے گا اور اپنی آنے والی قیادت کو  اس طرف رجوع کرنے پر مجبور ضرور کیجئے گا۔  باقی ماننا نہ ماننا صاحب اقتدار کے ہاتھ میں لیکن دل میں قلق نہ رہ جائے  گا ، اگر تھوڑا زور اور لگا لیتے تو شاید آپ صبح کا ناشتہ لاہور میں کرنے آتے اور ہم شام کی چائے دہلی میں مل کر پیتے ہوتے۔

پیارے پڑوسی میں نے آپ کو واہگہ بارڈر، حسینی والا اور سیلمانکی بارڈر پر بیٹھ کر دیکھا ہے آپ بالکل ہمارے جیسے ہی ہیں، بلکہ جب میں نے آپ کی طرف فرطِ جذبات میں ہاتھ ہلایا تھا تو مجھے دوسری طرف سے بھی بہت سے ہاتھ اٹھتے ہوئے نظر آئے تھے۔ مانتا ہوں ہم ایک دوسرے کے دشمن ہیں یہی بتایا جاتا ہے لکیر کے دونوں طرف مجھے پتا ہے۔ لیکن دشمنی کا معیار طے کون کرتا ہے۔میں آج تک یہ جاننے سے قاصر ہوں۔ یہ سیاستدان جو اپنے مفادات کے لیے تو عوام کو لڑواتے ہیں لیکن پھر اپنی ہی غرض کی خاطر ایک دوسرے کی شادیوں  میں بھی شریک ہوتے ہیں۔ چند فوجی جو اکھٹے روس میں ٹریننگ کے دوران ڈانس کرتے نظر آتے ہیں۔ ISI اور RAW جن کے چیف بعد میں مل کر بغل میں ہاتھ ڈال کر تصویر کھنچواتے ہیں اور مل کر کتابیں لکھتے ہیں اور بتاتے ہیں کیسے ہم نے ایک دوسرے کی مدد کی تھی۔ یہ شوبز سٹار جو عوام کے جذبات کو بھڑکانے کے لیے ایک دوسرے کے خلاف فلمیں اور ڈرامے تو بناتے ہیں لیکن پھر خود ہی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ کبھی دبئی، کبھی نیویارک میں سگریٹوں کے دھوئیں اڑاتے پائے جاتے ہیں۔ لیکن جب ہم جیسا کوئی جنوں زادہ پیار و محبت اور امن و آشنی کے ساتھ رہنے کی بات کرتا ہے تو ہمیں غداری کے سرٹیفیکیٹ تھما دئیے جاتے ہیں۔ مجھے خبر  ہے اُدھر بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ وہ سارے اپنے مفادات کے لیے مل سکتے ہیں ہم اخوت و بھائی چارے کے نام پر کچھ خواہشیں بھی نہیں کرسکتے۔ یہ ناہنجار شاید نہیں جانتے خواہشات کے آگے بندھ نہیں باندھا جا سکتا۔

حب الوطنی کا کیا پیمانہ ہوتا ہے اور اس پر کون اور کیسے پورا اتر سکتا ہے مجھے نہیں معلوم۔ اگر لکیر کے دونوں طرف یہی اصول طے پا چکا ہے سب سے بڑا محب وطن وہی ہے جو ایک دوسرے کے ملک کو سب سے بڑی گالی دے گا، ایک دوسرے کے ملک سے نفرت کرے گا یا ایک دوسرے کے وطن کو نقصان پہنچانے کی سازشیں کرے گا تو میں لڑکپن کی سیڑھی پر قدم رکھتے رکھتے ہی اس فہرست سے نکل چکا ہوں۔ ہاں جب آتش جواں تھا تب شاید مجھ سے بڑا دیش سے محبت کرنے والا کوئی نہ ہو، اس کچھ عرصہ کے دوران میری ہندوستان کے ساتھ اتنی گہری دشمنی تھی کہ میرے ہندوستان کی مونث کے ساتھ بھی حالات کشیدہ رہے۔

اردو ہماری قومی زبان ہے لیکن اُس کی بنیاد آپ کے وطن میں رکھی گئی تھی۔ آج بھی مجھ جیسے کچھ لوگ لکھنوئی انداز میں اور اُسی لب و لہجہ کے ساتھ اردو بولنا چاہتے ہیں۔ اردو ہماری قومی زبان ہے لیکن اِس زبان کے کثیر تعداد میں اکابر آپ کے دیس میں مدفون ہیں۔ سنسکرت تہذیب کے ساتھ آپ جڑے ہوئے ہیں اس کی ایک تہذیب سندھو ندی تہذیب ہمارے ملک کا حصہ ہے۔ ہماری زبانیں بھی الگ الگ ہیں لیکن پھر بھی ہم ایک دوسرے کی زبان بول سکتے ہیں سمجھ سکتے ہیں بس لکھنا تھوڑا مشکل ہے ۔ ایسا تو یورپ والوں کے ساتھ بھی نہیں ہے وہ بھی ایک دوسرے کی زبان بول تو درکنار سمجھ بھی نہیں سکتے۔ شاعر ہمارے اچھے ہیں اُن کو ہاتھوں ہاتھ آپ کے ملک میں لیا جاتا ہے، فلمیں آپ کا دیس اچھی بناتا ہے، اُن کو دیکھنے والے یہاں بھی بے شمار ہیں۔ ایکٹر آپ کے ہیں انہیں پسند ہمارے  باسی بھی کرتے ہیں۔ اگر ساس بہو والے ڈرامے آپ بناتے ہیں، انہیں دیکھنے والے لاتعداد لوگ یہاں بھی موجود ہیں۔ اگر آپ کا “کہانی گھر گھر کی” یہاں ہٹ تھا تو “زندگی گلزار ہے” کی انڈیا میں بہت فین فالونگ ہے۔

اگر ہمیں برکھا دت کو پڑھنا اچھا لگتا ہے، آپ بھی تو حامد میر کو سنتے ہیں۔ اگر ہم منالی گھومنا چاہتے ہیں آپ بھی تو استور دیوسائی میں کیمپنگ کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ہمیں اجمیر جانا ہوتا ہے آپ بھی تو گرونانک کے لیے ویزہ عرضی ڈالتے ہو( وہ الگ بات اب آپ ہمیں ویزہ نہیں دیتے)۔ اگر بھگت سنگھ کا آبائی شہر یہاں ہے تو قائدِ اعظم کا گھر ممبئی میں ہے۔ ہمیں کوہلی اچھا لگتا ہے تو آپ کے دیس کی صنف نازک بھی تو شاہد آفریدی کی گرویدہ ہیں۔ مون سون ممبئی میں برستی ہے لاہور میں ہم بارش برسنے کی خوشی میں پکوڑے بنا رہے ہوتے ہیں۔ فصل ہمارے یہاں کٹ رہی ہوتی ہے بیساکھی کا میلہ آپ لوگ منا رہے ہوتے ہیں۔ آسٹریلیا میں ٹیسٹ سیریز آپ کی کرکٹ ٹیم جیتتی ہے  مبارکباد ہمارے وزیراعظم صاحب دے رہے ہوتے ہیں۔ سیلاب آپ کے وطن میں آیا تھا سوگوار ادھر ہم ہو گئے تھے۔اس سب کو اگر محبت نہیں کہتے تو اور کیا کہتے ہیں۔ بس ہمیں شاید ایک دوسرے پر جتانی  نہیں آتی۔ بقول شاعر یہ   صورت تو دیکھی بھالی  ہے جانی پہچانی ہے! والی بات یہاں صادر آتی ہے۔ اگر آپ کے پاس اروند گوسوامی ہے تو ہمارے پاس بھی تو زید حامد ہے حساب برابر ہوا ۔

عزیزم میری  تو خواہش ہے ہمارے بارڈر کا سبوتاژ کر دیا جائے، لکیر کے دونوں ملک تو سلامت رہیں  لیکن اس زیادہ اونچی ٹانگ کس نے اٹھائی والی رسم کو ختم کرکے وہاں ایک کافی سینٹر بنایا جائے لیکن چائے بھی ملنی چاہیے ۔ جہاں ہم لوگ آئیں ۔ مل کر چائے یا کافی پئیں  ایک دوسرے کے ساتھ کتابوں کا تبادلہ کریں۔ کبھی چائے کا بل ہم دیں تو کبھی کافی کے پیسے آپ دیں دے۔ تاکہ رکھ رکھاؤ بھی تو قائم رہ سکے۔ شاہد ذکی کے انہی اشعارکے ساتھ آپ سے رخصت لیتا ہوں-

روشنی بانٹتا ہوں سرحدوں کے پار بھی میں

ہم وطن اس لیے غدار سمجھتے ہیں مجھے

وہ جو اُس پارہیں اُن کے لیے اس پار ہوں میں

Advertisements
julia rana solicitors

یہ جو اس پار ہیں،اُس پار سمجھتے ہیں مجھے!

Facebook Comments

عبدالحنان ارشد
عبدالحنان نے فاسٹ یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ ملک کے چند نامور ادیبوں و صحافیوں کے انٹرویوز کر چکے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ آپ سو لفظوں کی 100 سے زیادہ کہانیاں لکھ چکے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply