میڈیا تعمیر یا تخریب

کبھی تو یوں لگتا ہے جیسے ہمارا معاشرہ کسی ناکردہ گناہ کی سزا بھگت رہا ہے۔ پورے کا پورا معاشرہ درندگی و بربریت اپنا چکا ہے۔ ہم کبھی انسان تھے یا ہمارے اجداد انسان تھے یہ تک بھول چکے ہیں لیکن یہ سوچ آئی کہاں سے ؟ فرد ایسا سوچنے پر کیونکر مجبور ہوا؟ ۔ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ گزر گیا اخبار اٹھاؤ تو وحشت، درندگی، چوری، ڈکیتی، زنا، جبر و بربریت کے واقعات سے بھراملتا ہے۔ ٹیلی ویژن پر نیوز چینل لگاؤ تو ہر طرف خون میں لتھڑی لاشیں دھماکوں کی خبریں ہمارا استقبال کرتی ہیں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم چوروں، قاتلوں، ڈکیتوں بلکہ آدم خوروں کے دیس میں رہ رہے ہوں جیسے ہم نے زمانہء جاہلیت کو بھی مات دے دی ہو لیکن جب انہی واقعات کو اپنی زندگی اپنے اردگرد دیکھنا چاہا تو میری آنکھوں کے سامنے ایک بھی دھماکہ نہیں ہوا، ایک بھی چوری ڈکیتی کی واردات ہوتے ہوئے نہیں دیکھی ،ایک بھی قتل میری آنکھوں کے سامنے نہیں ہوا ،آپ میں سے کتنے ہی لوگ ہوں گے جنہوں نے اس قسم کا کوئی واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا؟

شاید ہزار میں سے ایک ہو، مگر کوئی ایک بھی ایسا نہ ہو گا جس نے ان واقعات کی کثرت سے خبریں نہ سن رکھی ہوں، لیکن جس نے جو بھی واقعہ سُنا اس نے کیا کیا؟ کچھ بھی نہیں! تو اسے اس واقعے کی خبر دی کیوں گئی ؟ کیوں اسے خوفزدہ و ہراساں کیا گیا؟ یہ الگ سوال ہے جس کا جواب ہمیں سنجیدگی سے تلاش کرنا ہو گا۔ تو حقیقی طور پر ہم بحیثیت مجموعی پر امن لوگ ہیں اور قطعاً بے حسی کا شکار نہیں بلکہ تواتر سے ایسی خبروں کا ہمیں سنایا جانا ہمیں بے حس بنانے کی ایک گھناؤنی سازش کا حصہ ہے۔ شر پسند عناصر آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں پھر بھی ہم اپنے ہم وطنوں سے بیزار ہیں، آخر کیوں؟ اس کی اصل وجہ برائی نہیں بلکہ برائی کی تشہیر ہے ،ہمیں سوچنا ہو گا کہ کون ایسے واقعات کو اس قدر بڑھا چڑھا کر نشر کر رہا ،ان کی تشہیر کروا رہا ہے اور اس کی اس تشہیر کے پیچھے کیا مقاصد و عزائم ہیں ہمیں سوچنا ہو گا کہ یہ تشہیر معاشرے میں تعمیری کردار ادا کر رہی ہے یا بگاڑ کا سبب بن رہی ہے۔

یقیناً یہ تشہیر بگاڑ پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں کر رہی اور ہمارا مذہب بھی برائی کی تشہیر کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا بلکہ اسکی حوصلہ شکنی کی تلقین کرتا ہے۔ میڈیا کی آزادی کے نام پر معاشرے میں خوف و ہراس، احساسِ عدم تحفظ پھیلایا جا رہا ہے لوگوں کو جرم کے نئے نئے طریقوں سے متعارف کرایا جا رہا ہے۔ اگر کسی جگہ مثلاً لاہور کے کسی گاؤں میں کوئی ڈکیتی، چوری یا قتل کا واقعہ ہو گیا تو میڈیا اس کی تشہیر خیبر سے کراچی تک کر رہا ہے کیا کریں گے خیبر، کراچی اور کوئٹہ کے لوگ یہ جان کر کہ لاہور میں قتل ہو گیا، آپ نے آج تک ایسی خبر سن کر کیا کیا؟۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہاں ہمارے ادارے اتنے مضبوط اور فعال ہونے چاہئیں کہ مجرم کو سزا ملے لیکن برائی، گناہ، اور سرکشی کی اس تشہیر کو اب بند ہو جانا چاہیے جس سے معاشرے میں بگاڑ اور بین الاقوامی سطح پر ہماری بدنامی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو رہا۔ اگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو مجھے ڈر ہے کہ مستقبل میں کوئی شہر ، محلہ، خاندان اور گھر اس کے بداثرات سے محفوظ نہ ہو گا ،بھائی بھائی کا دشمن بن جائے گا اور ہر شخص خوفزدہ اور پریشان ہو گا۔ ابھی کچھ نہیں بگڑا ابھی ہم بہت اچھے ہیں سارا جسم تندرست و توانا ہے بس ایک جگہ ہلکا سا زخم ہے جس کا علاج کرنے کی بجائے اس زخم کی نمائش کی جا رہی ہے

Facebook Comments

راجہ محمد احسان
ہم ساده لوح زنده دل جذباتی سے انسان ہیں پیار کرتے ہیں آدمیت اور خدا کی خدائی سے،چھیڑتے ہیں نہ چھوڑتے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply