مکتوب بنام محتر م ہارون الرشید.
اخبار نویس.کالم نگار.مصنف.
محترم جناب ہارون الرشید صاحب سلام و آداب.
اگر مشق مسلسل اور ریاض پیہم سے ادراک اور فہم آبھی گیا تو اسے اپنے نہاں خانہء دل سے سینہء قرطاس کے سپرد کرنا کوہ کندن اور کاہ بر آوردن ہے.یہ سوز جگر اور خون دل کا طالب ہے یہ پتہ ماری اور جاں کاہی کا متقاضی ہے.اسکی مثال اس محبوب کی سی ہے جو جلدی کسی آشنا کو قبول نہیں کرتا ؛ مگر کرتا ہے تو اس کے غربت کدے کو دولت خانہ میں تبدیل کر دیتا ہے.گھر کا نقش کہن مٹا کر تاج محل بنا دیتا ہے.اس کا نام اعلی اور مقبول و مفہوم اظہار ہے.
انسان اپنے “مافی الضمیر ” کو ادا کرنے کے لیے یاتو زبان کا سہارا لیتا ہے یا پھر قلم کا ،جو شخص اپنے مافی الضمیر کو زبان سے سلیقہ مندی سے ادا کرنے پر قادر ہو وہ مقرر اور جو اس کے لیے قلم کا سہارا لے وہ محرر.
یہ بات سننے میں ملتی ہے کہ گورنمنٹ کالج چکوال کے ایک انگریزی کے استاد محترم اپنے طلبآ سے کہا کرتے تھے کہ اگر انگریزی سیکھنا اور لکھنا چاہتے ہو تو روزنامہ “ڈان ” میں جناب ایاز امیر صاحب کا کالم باقائدگی سے پڑھا کرو.تو جناب بابا جی آپ کی انشآ پر دازی اور ڈیڑھ صفحے کے کل حدود اربعہ کے کالم میں ،قرآن و حدیث سے اکثر آغاز ،تاریخ ،فلسفہ، درمیان میں درویشانہ تخاطب اور ایک دو سطروں میں موضوع کو سمیٹ لینا بھی جہاں ایک طرف کثیر الجہت رہنما تحریر ہوتی ہے وہاں یہ “ریختہ”کی خدمت و تدریس سے بھی کسی طور کم نہیں ہے.
کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول بیٹھا کے مصداق ،جب یہ احقر نقالیء قلم کاری کی کوشش کرتا ہے تو کم علمی ،کمزور اسلوب ،عدم ارتکاز اور کج فہمی سبھی آڑے آ رہتے ہیں اور معاملے کو ہنوز طفل مکتب (یقینآ) ،پر لا موقوف کرتے ہیں.
انقلاب کا لاوہ قوموں میں پکتا ہے اور ایک انقلابی رہنمامیسر آ جانے پر یہ آتش فشاں پھٹ کر سرخ ریلے کی صورت اپنی راہ میں آنے والی ہر شے کو راکھ کر دیتا ہے اور بے رحم و بے لحاظ اپنی منزل سے کم پر مکتفا ہر گز نہیں ہوتا.کامیاب انقلاب کی بات ہے.
رواں ایام میں لاطینی امریکی انقلابی فیدل کاسترو کو ہم ہر سطح پر خوب تحسین اور اس کے کارہائے نمایاں کو گرداننے میں ہم خاصے مشغول ہیں.مستحق بھی ہے.مگر ہماری تاریخ بھی کچھ ایسی ناتواں نہیں ہے.ترجیحات کی بات ہے.
باطل کے اقتدار میں تقوی کی جستجو
کتنا حسین فریب کھا رہے ہیں ہم
جموں کے ماسٹر کرن سنگھ 1988 میں ایک بھارتی جہاز لاہور لے آتے ہیں.کوٹ لکھ پت جیل میں آپ ان سے کشمیریوں کی تحریک آزادی بارے استفسار کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کامیابی مشکل ہے قربانیاں بہت دینی پڑتی ہیں ،لہجے میں ایک افتخار ،انداز سرپرستانہ ،وہ جو انقلابیوں میں ہوتا ہے.آج تو خیر سے وہ وقت بھی آ پہنچا ہے لیل و نہار سرخی سے مزین چلے جارہے ہیں حریت کی صبح منور طلوع ہو اللہ کرے.
ہم ہیں کہ نہ کوئ لاوہ نہ کوئ ادراک نہ کوئ منظر پر آتشیں راہ گزر ____!
بابا جی یہ بتائیے گا کہ کیا ہمیں بھی کسی انقلاب شنقلاب کی ضرورت ہے کہ نہیں ؟
متکوب بنام آپ جناب الرشید ہو تو زکر کپتان سے احتراز لا یمکن.
تینتیس برس ادھر کی بات ہے،آپ نے ایک مضمون لکھا کہ ایک دن وہ سیاست میں آئے گا ،بقول آپ کے میں آج تک حیران ہوں کہ مجھے یہ خیال کیسے سوجھا.زاتی طور پر کوئ شناسائ بھی نہیں ہے.درویش کا کہنا یہ ہے کہ آدمی ہمیشہ خود نہیں لکھتا ،گاہے اس سے لکھوا دیا جاتا ہے.
جو نکلتے ہیں کیا انکی اولین ترجیح ،صداقت کاملہ کی تلاش ہوتی ہے ؟پروفیسر احمد رفیق اختر نے کپتان سے آپکی موجودگی میں پہلا سوال یہ ہی پوچھا تھا.یہ انکے مابین پہلی ملاقات کا پہلا جملہ تھا.
خان کا جواب کہ میری سیاست صرف پاکستان کے لیے نہیں عالم اسلام کے لیے ہے.
بوساطت اپکے ،بلکہ آپ کا اپنا بھی یہ کہنا ہے کہ خان کو اس اس سوال اور جواب پر غور کرتے رہنا چاہیئے ان تک یہ پیغام پہنچا نا چاہتا ہوں.تاہم خان خود کو انکا نہیں بلکہ میاں بشیر اور ڈاکٹر اقبال رع کا شاگر کہتا ہے.
مہاتیر محمد کے تاریخی توصیفی کلمات بنام کپتان معروف خاص و عام ہیں.مشرف کے دنوں میں خان نے انہیں اسلام آباد مدعو کیا.اس کانفرنس کی میزبانی ضرورت سے زیادہ بے باک طلعت حسین کر تے ہیں ،آغاز میں ہی کہتے ہیں ،ایک کھلاڑی کی حثیت سے خان صاحب میرے ہیرو ہیں مگر سیاست دان کے طور پر نہیں.عمران خان سٹیج پر جب آتے ہیں سنجیدگی اور وقار کے ساتھ موصوف سے مخاطب ہوئے،”ایک دن آپ مجھے سیاسی لیڈر بھی مان لیں گے.اس نے انشآاللہ کہا تھا ؟ یاد نہیں پڑتا___! یہ آپ لکھتے ہیں.
اس پر کافی حد تک پورا بھی اترا مگر دیگر کی طرح کہنا یہ چاہوں گا کہ ،محض سیاست کرنے اور سیاسی مینیجیریل سکلز کا حامل ہونے میں کچھ فرق ضرور ہوتا ہے،پانامے والے معاملے میں اپ ایک سیدھے فریق ہیں “اور مقابل بہترین مینجرز، التوا پر غور کیوں نہ کیا ؟
علاوزہ ازیں بوساطت جناب کے مستفسر ہوں کہ ، زاہد خان کی جگہ نعیم بخاری کا کمیٹی کو لیڈ کرنا ایک مخصوص “طاہرانہ”پس منظر کے ساتھ اس کیس کو ایک عمدہ جارحانہ وکالت کی ترغیب تو ضرور دے سکتا ہے ،مگر اپکی ضروریات ایوان اور عدالت کے اندر آئینی کے ساتھ ساتھ باہر سیاسی حمایت کی بھی متقاضی ہیں.ایسے میں چوہدری اعتزاز احسن کیا بہتر انتخاب نہیں ہو سکتے تھے ؟جبکہ گزشتہ روز کی خودساختہ ملکی جمہوری شیلڈ کے رہنما خورشید شاہ کی تقریر کے بعد تو اس پرو ٹیکٹو فیکٹر کی اول دن سے ملی جلی سی پانامی دلچسپی کا اعادہ بھی عیاں ہے.اور لب لہجے بھی کچھ بدلے بدلے سے ہیں.
ناچیز آپ کے بے باک اور بے ساختہ مگر حتی المقدور معقول انداز کا بھی مداح ہے اور طرز انشآ میں خود کو اپکا شاگرد سمجھتا ہے.انسان متلون مزاج ہے ہر معاملے میں اسکی جانبداری بھی دائمی نہیں ہوتی ،مئ 2013 کے نون لیگ کے ہر اول دستے کے سنیٹر مشاہد اللہ صاحب کے ایک استدلالی سے آرٹیکل نے ______ مگر اللہ بھلا کرے بعد ازاں حسن نثار صاحب کا جس میں سنیٹر صاحب ایک ٹاک شو میں بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مصداق پہل کر گئے ،مگر مشاہد اللہ صاحب بھول گئیے کہ وہ مخاطب چوراہے والے سے ہیں___ پر مشکور ہوں کہ وہ بدلتا ہواتاثر زائل ہو گیا.اور جناب سینیٹر صاحب کی فراست کی کلی بھی کھل گئ.
جنر ل اختر عبدالرحمن پر لکھی آپکی کتاب “فاتح ” کا تاحال کسل مندی کے سبب مطالعہ نہ ہو سکا ،تاہم مترجم “میں اور میرا پاکستان ” نے بہت لطف دیا جسکے لیے صاحب الکتاب خان صاحب تو یقینآ مشکور ہوں گے ہی ،کے ساتھ ہم بھی اپکے شکر گزار ہیں.
اللہ آپکو صحت و سلامتی عطا فرمائے اور دارین میں خیر عطا فرمائے.بعض اوقات اپکی غیر سنجیدہ نقالی کے بھی مرتکب ہوئے ہیں. اس شغف بزلہ سنجی اور گستاخی مبنی بر محبت پر یقینآ اپکو شفیق پائئں گے.
اپکا خیر اندیش.
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں