شناختی کارڈ بندش، پاسپورٹ اور میں

شناختی کارڈ کی بندش سے متعلق مضمون (ابو کو گولی مار دیتے ہیں) نظر سے گذرا تو خود بیتی یاد آگئی۔
2014 میں، میں پاکستان بیوریج لمیٹڈ میں بطور سپر وائزر ایم ٹی پر بحیثیت مسؤل کارگزار تھا، مشاہرہ من قبیل قوت لایموت تھا، جس پر گزر بسر بس چل رہی تھی اور بہتر سے بہترین کام کی تگ ودو میں کان پڑی آواز کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک شکیب طلب کھکھیڑ میں خود کو ڈال دیا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہوا یوں کہ اس سمے "باہر" جانے کے کچھ مدھم سے امکانات دھندلے سے دکھائی دیئے لیکن جواز السفر نہ ہونے کی وجہ سے حامی بھرنے سے قبل ہی انکار کرنا پڑ جاتا تو تہیہ کرلیا کہ کم از کم پاسپورٹ تو ہو، پھر اگر کوئی آفر آتی بھی ہے تو کم سے کم اس پر سوچا تو جا سکے گا۔ لہذا ممکنہ مطلوبہ دستاویزات سمیت بڑے بھائی کا پاسپورٹ بھی ساتھ لے گیا اور مبلغ 3100روپے فیس جمع کراکے آگے کی کارروائی میں جت گیا۔ تمام امتحانات میں ذکر اذکار کرتے ہوئے سرخروئی نصیب ہوئی، ' آخری بلا " کے کیبن میں پہنچا تو میرا شناختی کارڈ اور والدین کے شناختی کارڈ مانگے گئے۔ اپنا اور والد صاحب کا شناختی کارڈ آگے کھسکاتے ہوئے کہا یہ لیجیے سر۔
والدہ کا شناختی کارڈ دکھاؤ!
سر جی وہ پرانا کارڈ تھا، مدت ختم ہوگئی تھی۔ نیا کارڈ آنے سے پہلے والدہ آسودہ خواب ابدی ہوگئیں تو بڑے بھائیوں نے اس طرف توجہ نہ دی۔ بعد میں بھاگ دوڑ کی لیکن مردوں کو شناختی کارڈ نہیں دیا جاتا (ہاں مردوں کو رہا ضرور کردیا جاتا ہے)۔
لیکن سر یہ لیجیے، میرے بڑے بھائی کا پاسپورٹ بنا ہوا ہے۔
پاسپورٹ نہیں، والدہ کا شناختی کارڈ دکھاؤ! ۔۔۔۔ پٹھان ہو؟
جی سر۔
پٹھان اور اوپر سے داڑھی ٹوپی، مطلب طالبان ہاں؟ سر کی ناک کے ناکے پر ٹکے ہوئے چشمے سے جھانکتی رعونت بھری آنکھیں شرارے چھوڑ رہی تھیں۔
سر پلیز پیٹ کاٹ کر پیسے جوڑے ہیں، وہ رائیگاں جائیں گے۔ سر پلیز کوئی تو راستہ ہوگا جس پر چلتے ہوئے میں اپنا پاکستانی ہونا ثابت کر دوں۔۔۔ پلیز سر! اور سر، بم پھوڑنے یا خودکش حملے کے لیے کون پاسپورٹ بنوانے آتا ہے؟
بھائی جاؤ، نکل جاؤ، جب تک والدہ کا شناختی کارڈ نہ ہو نہ آنا اور ہم یہاں فارغ نہیں بیٹھے ہوئے، بہت کام کرنا ہے ہمیں۔ جاؤ شاباش!
اس دفعہ سر کے لہجے میں بلا کی کاٹ اور تحقیر تھی۔
میں نکل آیا اور جس بندے نے مجھ سے میرے گاؤں کے متعلق معلومات لے کر مجھے پکا پٹھان ہونے کی کلیرنس دی تھی، اس کو جا دکھڑا سنایا۔ اس نے کہا ڈائریکٹر کے پاس جاؤ۔
وہاں گیا تو اس نے بھی ہاتھ اوپر کھینچ لیے لیکن میری منت سماجت اور کچھ غیرت دلانے پر اس نے کہا کہ ایک راستہ ہے۔
میں خوش ہوگیا۔
جی سر بتائیں کیا ہے وہ؟
انکوائری کروا لو، کام ہوجائے گا۔
میں سمجھا چلو آسان کام ہے، انکوائری کرا لیتے ہیں، ہم نے کونسے ڈرون آپریٹ کیے ہیں، سو جلدی کردار کلئیر ہوجائے گا۔ ان کے دستخط لے کر میں آرام باغ نیشنل سپیشل برانچ پہنچ گیا۔ وہاں بھی افسر شاہی کے جھمیلوں سے نکل کر متعلقہ افسر کے سامنے بیٹھا اور روداد سنائی۔ انہوں نے مجھے ایک چھوٹی سی پرچی تھمائی اور کہا یہ سب چیزیں لے آؤ۔
میں نے پرچی دیکھی تو کجچا کھچ بھرے دفتر کی پُرشور فضا میں ہونے کے باوجود سناٹے میں آگیا اور ایک لمحے کے لیے میرا دماغ سن ہوگیا۔ کچھ حواس سنبھلے تو بڑی نرمی سے ان سر صاحب سے میں نے عرض کی:
سر میرے پاس ایک والدہ کا شناختی کارڈ نہیں تھا جس کے لیے میں یہاں آیا تاکہ کوئی متبادل راستہ نکل آئے اور آپ نے 26 چیزیں اور وہ بھی میرے والد کی پیدائش کے وقت کی مانگ لیں اور اس کے بعد بقیہ میری پیدائش سے پہلے کی چیزیں، یہ سب میں کہاں سے لاؤں؟ جب کہ اس وقت پشتو کلچر صرف زبان کے تحت نکاح اور جائیداد کی خرید وفروخت پر کاربند تھا، لہذا یہ سب چیزیں ناممکن ہیں سر ۔
اس افسر نے بھی افسری جھاڑی اور یہ نصیحت کی کہ ملا !!توں بہت گرم کھاتا ہے، ذرا ٹھنڈا لیا کر۔
اس واقعے کے بعد میں مسلسل تین ماہ تک کبھی کے ایم سی کے دفتر والد اور والدہ کے سرٹیفکیٹ کے لیے، کبھی ان کو مقامی قبرستان میں دفن کرنے کے ثبوت بنانے کے لیے ایفیڈیوٹ اور سٹامپ پیپر، کبھی یہ کبھی وہ کے لیے خوار ہوتا رہا لیکن میرا کام کہیں بھی نہ ہوا اور ہوتا بھی کیسے یار؟
قدم قدم پر ان خدائی خدمت گاروں کی مٹھی گرم کرنی پڑتی ہے اور میں ٹھہرا مولوی جو رشوت آسانی سے نہیں دیتے۔ دے بھی دیتا بشرطیکہ میرے پاس ہوتے۔ سو میری فیس بھی گئی، خواری بھی ہوئی اور کام بھی نہ ہوا، اوپر سے دہشت گرد کا کوسنا الگ سے مل گیا ، شکر ہے دہشت گرد کہہ کر گرفتار نہیں کروا دیا ۔
مزے کی بات یہ کہ مقامی بینک الخیبر کے برانچ مینیجر سے جب کاغذات دستخط کروانے گیا اور اسے اپنی داستان سنائی تو اس نے میرا ریکارڈ نکالا جس میں میری والدہ کا نام اور ریکارڈ بھی تھا۔ انہوں نے ازراہ ہمدردی یہ ممنوع کام کیا لیکن پاسپورٹ والوں نے اپنی ذمے داری اور اختیارات سے میرا ریکارڈ اپنے سسٹم پر چیک کرنا گوارا نہیں کیا۔
سو میں بھی تھک ہار کر بیٹھ گیا لیکن قلق وخلش ابھی تک باقی ہے
ان سارے حالات میں ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان ترقی کر رہا ہے…………

Facebook Comments

معراج دوحہ
طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply