فیدل کاسترو ایک عہد کا اختتام

کیوبا کے سابق صدر فیڈل کاسترو عہد حاضر کے ان عوامی رہنماؤں میں سے تھے جنھوں نے امریکا کی دہلیز پر کیوبا کی ریاست اور حکومت کے قیام سے لے کر اپنی موت تک ایک عظیم مزاحمتی جنگ لڑی۔ ان کی موت کی اطلاع اور تصدیق موجودہ صدر اور فیڈل کاسترو کے چھوٹے بھائی راؤل کاسترو نے کی۔
فیڈل کاسترو کا شمار بیسویں صدی میں طویل ترین مدت تک برسراقتدار رہنے والے حکمرانوں میں ہوتا ہے۔انھوں نے 2006 میں صحت کی خرابی کے باعث عارضی طور پر اپنے بھائی کو اقتدار سونپا تھا۔ تاہم دو سال بعد ان کے بھائی راؤل کاسترو باقاعدہ طور پر کیوبا کے صدر بن گئے تھے۔

جولائی 2006 میں جب کاسترو کی 80 ویں سالگرہ میں چند ہی روز باقی تھے، کاسترو نے آنتوں کے آپریشن کے بعد اپنے اختیارات عارضی طور پر اپنے بھائی کے حوالے کر دیے۔ اس دوران کیوبا کی حکومت مسلسل اس خبر کی تردید کرتی رہی کہ کاسترو کو لاحق کینسر خطرناک حد کو پہنچ چکا ہے۔ بعدازاں فروری2007 میں کاسترو کے بھائی نے اعلان کیا کہ کاسترو کی صحت بہتر ہو رہی ہے۔ ٹھیک ایک سال بعد کاسترو نے اقتدار چھوڑنے کا اعلان کیا اور کہا کہ وہ قومی اسمبلی کے اگلے اجلاس میں صدر اور کمانڈرانچیف کی حیثیت سے شرکت نہیں کریں گے۔ یوں کاسترو نے عوامی زندگی سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور 'ریفلیکشنز آف اے کامریڈ' کے عنوان سے ملکی میڈیا کے لیے تحریریں لکھنے لگے۔

صدر اوباما کے دور میں امریکا اور کیوبا کے درمیاں سفارتی تعلقات (2015 میں) کئی دہائیوں بعد قائم ہوئے تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں اگرچہ اس پر تنقید کا اظہار کیا تھا لیکن اپنے حالیہ بیان میں انہوں نے اس بارے میں کوئی ذکر نہیں کیا تاہم صدر اوباما کا کہنا ہے کہ تاریخ کاسترو کے بے پناہ اثر کو پرکھے گی اور یاد رکھے گی۔

کاسترو کیوبن عوام کے محبوب رہنما تھے۔ انہوں نے 1953 نے مونکاڈا ملٹری بیرکس پر حملے میں ساتھیوں کے ہمراہ حصہ لیا تھا مگر ناکام حملے کے باعث وہ گرفتار ہوئے۔ بعد ازاں وہ کیوبا سے باہر چلے گئے اور 6 سال جلاوطن رہ کرواپس آئے۔ وہ کیوبن آمر بیتستا کی 80 ہزار فوج کو شکست دے کر کیوبا میں داخل ہوئے تھے۔ 1959 میں وہ کیوبا میں بر سر اقتدارآئے، ایک طویل مدت تک کیوبن عوام کی خدمت کرتے رہے، ان کے انقلابی آدرش کی تقلید کئی عالمی مارکسی انقلابی لیڈروں نے کی، چی گویرا بھی ان میں سے ایک تھے۔ کاسترو سیکڑوں ناکام قاتلانہ حملوں سے بچتے رہے جب کہ اس دوران انہوں نے کئی امریکی صدور کو تبدیل ہوتے دیکھا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کیوبا کے عوام کا ایک حصہ ان کی پالیسیوں سے غیر مطمئن تھا لیکن بڑی تعداد ان لوگوں کی تھی جنھیں ان سے حقیقی پیار تھا۔ وہ کاسترو کو ڈیوڈ کی طرح سمجھتے تھے جو امریکہ کے گولائتھ کے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت رکھتا تھا اور جس نے کامیابی حاصل کی تھی۔ ان کے لیے کاسترو کیوبا اور کیوبا کاسترو تھا۔ اس صرف کیوبا ہی نہیں عالمی سطح پر بھی کاسترو ایک انقلابی شخصیت کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ان کی آخری رسومات ہفتے کے روز ادا کی جائیں گے جبکہ چار دسمبر تک ملک میں سرکاری سطح پر سوگ منایا جائے گا۔

Facebook Comments

صبا ء فہیم
نہ میں مومن وچ مسیتاں نہ میں وچ کفر دی ریت آں نہ میں پاکاں وچ،پلیت آ ں نہ میں موسیٰ نہ فرعون کیہ جاناں میں کون ؟؟؟

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply