جذباتیت اور نظامِ معاشرہ۔۔۔۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

انسانی جذبات کو ایک دلچسپ پہلو سے دو گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، جذبات کی ان دو میں سے کسی ایک قِسم کا اجتماعی اظہار معاشرے کی سمت کے تعین میں سب سے زیادہ پُر اثر واقع ہوا ہے، ہماری بدقسمتی کہ ہمارے ہاں قِسمِ بد نہ صرف عمومی طور پر معاشرے میں سکہ رائج الوقت کا درجہ رکھتی ہے، بلکہ یہ استحصالی جذباتیت کا بدترین مرکب ہمارے سنجیدہ ترین اداروں میں پوری طرح اپنا لوہا منوائے ہوئے ہے۔
جذبات یقینا انسانی زندگی و زندہ دلی کیلئے ناگزیر ہیں، جذبات نہ صرف انسان کے تعلقات و احساسات کی بنیاد اور ان کے اظہار کیلئے اہم ترین ذریعہ ہیں، بلکہ انسان کو کسی مقصد کی طرف دھکیلنے میں بعض اوقات بنیادی محرک کا کام کرتے ہیں۔
جذبات کی پہلی قسم وہ ہے، جن کا ابھار یا وقوع ،قبل از معاملہ فہمی واقع ہوتا ہے، یعنی کہ کسی بھی واقعے کی نوعیت و نزاکت کو سمجھے بغیر ایک فیصلہ لیتے ہوئے مخصوص ردعمل ظاہر کرنا،جذبات کی اس قِسم کو چاہیں تو بائیں جذبات کا نام دیا جا سکتا ہے۔ انسان کی شخصیت ان جذبات کے آگے لونڈی سے زیادہ کی اہمیت نہیں رکھتی، ایسے جذبات واقعتاً انسان کو اپنے قابو میں لئے ہوتے ہیں۔ یہ جذبات ایک طوفان کی طرح اٹھتے ہیں اور اپنی راہ میں موجود ہر قُدس و خُبث کو بہاتے ہوئے بغیر کسی اصولی نتیجے کے ، جزوی تباہی کے بعد، اپنے اختتام کو جا پہنچتے ہیں۔
جذبات کی دوسری قسم وہ ہے جن کا ظہور ،بعد از معاملہ فہمی دیکھنے میں آتا ہے، یہ جذبات کسی بھی واقعہ کو توجہ سے سمجھنے، ناپنے اور اس کےمطابق ردعمل دینے کا نام ہے، یہ اپنی رَو میں مدھم مگر مستقل ہوتے ہیں، بالکل ایک سُست دھارے دریا کی مانند، جو بغیر کسی ولولے و شور کے اپنی منزل کی طرف گامزن رہتا ہے، اِن جذبات کو دائیں جذبات کا نام دیا جا سکتا ہے، ایسے جذبات کسی بھی منطقی انجام کو پانے کیلئے ناگزیر ہیں، اور عموماً یہ انسان کے قابو میں ہوتے ہیں۔
افراد میں ان دو مختلف نوعیت کے جذبات گاہے بگاہے اپنا اظہار کرتے رہتے ہیں، لیکن عام طور پر کسی بھی فرد کا جھکاؤ ایک خاص سمت ہی رہتا ہے، اور افراد کی اکثریت جس سمت جھکاؤ رکھے گی، اجتماعی معاشرے میں اس کی واضح تصویر دیکھی جا سکے گی، جہاں دائیں جذبات کی فراوانی ہے، وہاں روزمرہ امورِ زندگی سے لے کر نظامِ عدل تک بغیر کسی شور شرابے کے اپنی منطقی منزل کی طرف رواں دکھائی دیتے ہیں، مگر جہاں بائیں جذبات معاشرے کو اپنے شکنجے میں لئے ہوئے ہیں، وہاں ناپ تول میں کمی سے لے کر، بے گناہ انسانوں کے قتل تک کے واقعات پر وہ شور بلند ہوگا کہ ساتوں آسمان سر پر اٹھا لئے جائیں گے، سونے پہ سہاگا کہ وقتِ احتحاج، راستے میں موجود ہر جاندار و بے جان عناصر کو تہس نہس کرنا اپنا پیدائشی حق گردانا جائے گا، مگر چند دنوں میں ہی یہ جذبات، جو اپنی اصل میں ایک طوفانی روپ کے حامل ہوتے ہیں، سرد پڑ جاتے ہیں، اور کچھ معاشرتی و اخلاقی تباہیوں کے بعد، بغیر کسی نتیجے کے ،جھاگ کی طرح اپنا وجود کھو بیٹھتے ہیں۔
ماڈل ٹاؤن کی خون ریزی، بے شمار معصوم بچوں کے ساتھ زیادتی وقتل، بے نظیر بھٹو قتل، سانحۂ ساہیوال اور دیگر بے شمار واقعات بطور مثال پیش کئے جا سکتے ہیں۔ یہی معاملہ مذہبیت کے ساتھ درپیش ہے، ناموسِ رسالت کے معاملے پر کسی کو ہوش مندی کی ترغیب دینا ، ہسپانوی سانڈھ (بیل ) کو سرخ رومال دکھانے کے مترادف ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیوں کسی خاص معاشرے میں انسانوں کی اکثریت بائیں جذبات کی حامل ہوتی ہے؟
اس کی یقینا بے شمار وجوہات گنوائی جا سکتی ہیں، غربت، گرم موسم، مرچ مصالحوں کا زیادہ استعمال، تعلیم کی کمی، بے روزگاری, غیر مطمئن ازدواجی زندگی وغیرہ، یہ تمام باتیں اپنی جگہ پر درست ہیں، مگر ان کا کردار جزوی و سطحی ہے، اس کی بنیادی وجہ ، فرد کا خود کو دوسروں کی نظروں میں اُن کا (یا معاشرے کا ) وفادار و غمخوار ثابت کرنے کی خواہش ہے، اور یہ خواہش ان معاشروں میں شدت سے نظر آتی ہے جہاں انفرادی زندگی و اعتماد کا فقدان موجود ہوتا ہے۔
وہ معاشرہ جہاں فرد کی ضروریات ،حکومت (یا ریاست )کی نظروں سے اوجھل ہوتی ہیں، ایسے معاشرے میں افراد ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہوئے، ایک دوسرے کی خوشی و غم میں شرکت کرتے ہوئے اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ بانٹتے ہوئے ، زندگی کے سفر کو جاری رکھتے ہیں، ایسے اجتماعی نظامِ زندگی میں بائیں جذبات کا استعمال شدت سے دیکھنے میں آتا ہے، کسی رشتہ دار کی وفات پر افسوس کا اظہار سینہ کوبی و ماتم سے اگر نہ کیا گیا تو آپ کے اقارب آپ کو شک کی نظر سے باقاعدہ گھورتے نطر آئیں گے، محبوب قائد کی رائے سے اختلاف کرنے والے کے چہرے کو اگر آپ نے تھپڑوں سے ٹماٹر کہ طرح سرخ نہ کیا تو آپ کو شریکِ جرم سمجھا جائے گا، اگر آپ حساس انسان ہیں اور معاشرے میں پنپتی ناانصافیوں اور زیادتیوں پر رنجیدہ ہیں تو بجائے اس کے کہ نظام کی بہتری کا سوچتے ہوئے، ایک ہوشمندانہ اور منطقی نتیجے کے حامل جہاد کی ترغیب دی جائے، غالب گمان ہے کہ آپ گلا پھاڑ احتجاج کو ترجیح دیں گے، لوگوں کے جذبات کو بھڑکاتے ہوئے تباہی کی طرف مائل کریں گے، پشاور سے لے کر کراچی تک روڈ بلاک کرنا تو روزمرہ کا معمول ہے، مظلوم کی مطلومیت کو جاہلانہ سوالات کے ذریعے عوام کے سامنے لانے کی بھونڈی کوشش سے بھی دریغ نہ کریں گے، ایسا کیوں ہے؟ کیونکہ آپ کا پہلا مقصد، خود کو لوگوں کے سامنے، اس معاشرے کا وفادار شخص ثابت کرنا ہے، اور یہ خواہش آپ کے تحت الشعور میں صدیوں سے پنپتی آرہی ہے، اور معاملہ اب جینیاتی بنیادوں تک جا گھُسا ہے۔
آخر سابقہ چیف جسٹس نے نظامِ عدل کو بہتر بنانے کی بجائے، ڈیم فنڈ، ہسپتال چھاپے، آئے دن عدالت میں مختلف نوعیت کے ملزموں سے فضول بحث اور بالکل غیر ضروری سرگومیوں پر اکتفا کیوں کیا؟ اس کی واحد وجہ، یہی نفسیاتی کمزوری ہے، عوام کو یہ دکھانا کہ وہ اس ملک و قوم کا حقیقی غمخوار ہے، اسی لیے یہ طوفانِ بدتمیزی برپا رہا، اور اس شخص کے ڈومین کے حقیقی معاملات اس کی نظروں سے اوجھل رہے،
غور کیجئے کہ حامد میر جیسے سینئر صحافی کا پھول دینے والے معاملے پر، میں ہوتا تو تھپڑ مارتا، والا جملہ کس طرف اشارہ کر رہا ہے؟، یہی کہ وہ انسانوں کا حقیقی غم رکھنے والے صحافی ہیں، اسی خواہش کی شدت نے ان کے منہ سے یہ جملہ ادا کروایا، کیونکہ اس کے بغیر بھلا کون یقین کرتا کہ وہ صحیح معنوں میں مقتولین کے بچوں کے غم میں برابر کے شریک ہیں، اس سے شعبۂ صحافت کے احساسِ کمتری کو بخوبی جانچا جا سکتا ہے۔ یہی معاملہ دوسرے ریاستی اداروں، بشمول فوج و پولیس کا ہے کہ ہر اس معاملے پر زمین و آسمان کے قلابے ملاتے نظر آئیں گے، جن سے ان کا دور تک کوئی تعلق نہیں، اور اپنے اولین فرائض سے سراسر ناواقف رہیں گے۔
درحقیت بائیں جذبات کا اظہار انسان کیلئے وقتی طور پر خوشگوار واقع ہوا ہے، کہ کسی بھی مصیبت کے وقت، آپ کے اقارب بغیر کچھ سوچے سمجھے، اور مستقبل کے لائحۂ عمل کیلئے عقل کے گھوڑے دوڑائے بغیر آپ کے غم میں برابر کی شرکت کے دعوے کے ساتھ ساتھ ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرتے دکھائی دیتے ہیں، یہ ایک نفسیاتی نکتہ ہے کہ ایسا رویہ فرد پر گزرتی کیفیت میں آسانی پیدا کر دیتا ہے، یہی حال اجتماعی معاشرے و قوم کا ہے، مگر اس کی حقیقت ایک سراب سے زیادہ نہیں۔
جب تک معاشرہ اجتماعی سطح پر اس احساسِ کمتری سے نجات نہیں پاتا، تب تک ایک منطقی نتائج پر مشتمل نظام وطنِ عزیز کا مقدر نہ بن سکے گا، ادارے ہمیشہ کسی بھی ملک کے عوام کی نفسیات کے عکاس ہوتے ہیں، اگر ہم واقعی ناحق قتل و زیادتیوں پر انصاف و عدل کے خواہشمند ہیں تو ہمیں بائیں جذبات سے چھٹکارا پانا ہوگا، آپ کو کسی کو کچھ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں، گلا پھاڑنے، ٹائر جلانے، روڈ بلاک کرنے، یا دوکانوں و دیگر املاک کا نقصان کئے بغیر بھی آپ اس ملک کے باعزت شہری کہلائے جا سکتے ہیں-

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply