تامل ٹائیگرز کے دیس میں (پہلا حصہ)۔۔خالد ولید سیفی

جیسے ہی سری لنکن ائیر لائن کے پچھلے پہیوں نے رن وے کو چھوا، ہم ایک انجانے شہر کی رطوبت بھری فضاؤں سے آشنا ہوئے، ایک نیا ملک، نئی تہذیب، نئے لوگ اور ایک نئی سرزمین۔

سری لنکا!
جہاں ابنِ بطوطہ سے لے کر ابنِ انشا تک، کئی سیاحوں نے اپنے قدم رنجہ  فرمائے۔

وہ واقعی سیاح تھے اور ہم محض سیر سپاٹے والے۔ اچھی قیام گاہوں کے شوقین اور ذائقے دار کھانوں کے رسیا۔ انھوں نے سری لنکن تہذیب کی پرتیں کھولیں، رہن سہن کے انداز دیکھے، سیلون کی تاریخ کے جھروکوں میں جھانکا، شہر شہر کی گرد چھانی، اور ہم۔۔۔ کس ہوٹل میں مچھلی اچھی ملتی ہے، ڈھونڈتے رہے۔۔۔ دودھ پتی چائے کہاں دستیاب ہے، دیکھتے رہے۔

سیٹ بیلٹ کھولتے ہوئے میں نے اپنے دوست اور ہم سفر ہاشم بلوچ کو ایک طنز بھری نصیحت کی کہ “خیال رکھیں، دبئی ایئرپورٹ کی طرح آپ کا بٹوہ جہاز میں نہ گر جائے۔” انھوں نے بے اختیار جیب کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے بتایا، “محفوظ ہے۔” مگر جب ہم جہاز سے اتر کر ایئرپورٹ کے احاطے میں داخل ہوئے تو ہاشم کا بٹوہ سلامت اور میرا پاسپورٹ ندارد تھا۔

پاسپورٹ گم ہونے پر مجھے پریشانی سے زیادہ ہنسی آ رہی تھی جس کی وجہ ستائیس سال قبل آٹھ چوک کراچی پر محمد کریم کے واقعے کا یاد آنا تھا۔

1992 کو محمد کریم کا پیر عین اسی وقت ایک رکشے کے پہیے کے نیچے آ گیا تھا جب وہ ہمیں کراچی شہر میں سڑک پار کرنے کے طریقے سکھا رہا تھا۔ یہ تو شکر کہ ہم نے زور سے اسے واپس اپنی جانب کھینچ لیا، بصورت دیگر محمد کریم کے پیر کے ساتھ اس کے چہرے کا بھی حشر ہونا تھا۔ میری حالت بھی محمد کریم جیسی ہو گئی تھی۔ دوسروں کو اپنے بٹوے سنبھالنے کی نصیحت کرتے ہوئے اپنا پاسپورٹ گم کر بیٹھا تھا۔

اجنبی ایئرپورٹ، اجنبی لوگ اور میں بغیر پاسپورٹ کے کھڑا حیران کہ اب کیا کیا جائے۔

ایک کاؤنٹر پر گئے جس پر ایک موٹا تازہ سری لنکن تشریف فرما تھا۔ چہرے پر ہمدردی کے کوئی آثار نظر نہ آنے کے باوجود میں نے اپنا مسئلہ بیان کیا، اس نے پہلے مجھے گھورا اور پوچھنے لگا، “جہاز ہی میں گرا ہے؟”
ہم نے فرمایا، “جی حضور جہاز ہی میں گرا ہے” اور دل میں کہا، جہاز ہی میں گرا ہوگا، آمین۔

خشمگیں نگاہوں والے سری لنکن نے فون اٹھایا۔ کچھ شوں شوں کی آوازیں نکالیں اور ریسیور رکھ دیا۔
“آپ لوگ آدھے گھنٹے بعد آ جائیں” ہمیں حکم نامہ جاری کر دیا گیا۔

مجھے تشویش اس بات کی تھی کہ پاسپورٹ جہاز میں گرا ہو تو ٹھیک، اگر کراچی ایئرپورٹ پر گرگیا ہے تو مجھے “سری لنکن جیل کی کچھ یادیں” کے عنوان سے سفرنامہ لکھنا ہوگا۔

بیم و امید کی کیفیت میں لمحے گزرتے گئے۔ ہم کسی اجڑے دیار کی مانند ایک بینچ پر براجمان ہوئے۔ رات ہو چکی تھی۔ ایئر پورٹ پر آنے والے مسافروں کی چہل پہل تھی۔ پرسکون چہرے، پریشان چہرے، اداس چہرے اور مختلف چہرے مگر زیادہ تر سانولے۔۔۔ ایئرپورٹس پر ہر طرح کے چہرے مل جاتے ہیں۔ ایسا کوئی ایئرپورٹ نہیں جس کے درو دیوار پر ہجرتوں کے درد نقش نہ ہوں۔ دنیا بھر کے ایئر پورٹس بیک وقت غم اور خوشی کے سماں سے لبریز ہوتے ہیں۔ اپنوں سے جدائی کا غم یا اپنوں سے ملن کی خوشی۔ زندگی کیا ہے؟ بس انہی کا مجموعہ۔

مرد، خواتین، بچے، جوان، بوڑھے، آ رہے تھے، جا رہے تھے۔۔۔اور ہم “آئے ہیں تیرے شہر میں مسافر کی طرح” کی تصویر بنے آدھا گھنٹہ بِتانے کی فکر میں لگے تھے۔ اس وقت ہم نہ تین میں تھے نہ تیرہ میں۔ نہ خوش تھے نہ پریشان۔ خوش اس لیے نہ تھے کہ پاسپورٹ گم تھا۔ پریشان اس لیے نہ تھے کہ ملنے کی آس تھی۔ یعنی خوشی اور پریشانی کی بیچ والی جو کیفیت ہوتی ہے اس سے گزر رہے تھے۔ اب اس کیفیت کا کیا نام ہے؟ ہمیں نہیں معلوم۔

آدھے گھنٹے بعد ہم تینوں دوست سیدھے کاونٹر پر گئے۔ پاسپورٹ مل چکا تھا۔ میں نے پاسپورٹ سری لنکن سے ایسے وصول کیا جیسے جنت کا ٹکٹ گم ہونے کے بعد اچانک کسی فرشتے کے ہاتھ میں دکھائی دے۔

اب ہمیں تلاشی کے مراحل سے گزرنا تھا۔ منیر کی طرح ایک دریا پار کرتے تو کسی دوسرے دریا کا سامنا کرنا ہوتا۔
“میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا”

امیگریشن کے ٹیبل پر پاسپورٹ رکھا تو خاتون افسر نے مجھے اور پاسپورٹ کو مشکوک نگاہوں سے دیکھا۔

پوچھ گچھ کی، “کہاں سے آ رہے ہو”؟۔
میں نے فخر سے بتایا کہ “جی پاکستان سے”۔

پاکستان کہتے ہی فرطِ جذبات سے میرا سینہ پھول گیا اور میں اس سیلوٹ کا انتظار کرنے لگا جو خان صاحب کے مطابق اس کی حکومت آنے کے بعد ہر ایئرپورٹ پر گرین پاسپورٹ کو لگنا تھا، سیلوٹ اپنی جگہ یہاں تو مجھے جان کے لالے پڑگئے۔

امیگریشن سے مجھے مشکوک قرار دے کر بڑے افسر کے پاس لے جایا جا رہا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments