عمران خان ! تم بھی عام سے نکلے؟

عمران خان کا ٹویٹ میرے سامنے پڑا ہے ، میں حیرت سے اسے بار بار پڑھ رہا ہوں اور سوچ رہا ہوں : عمران خان سادہ بہت ہیں یا ہشیار بہت؟ عمران خان قوم کو یقین دلا رہے ہیں: ’’قطر سے واپسی پر نہ صرف یہ کہ اس واقعے کے ذمہ داروں کو عبرتناک سزا دی جائے گی بلکہ میں پنجاب پولیس کے پورے ڈھانچے کا جائزہ لوں گا اور اس کی اصلاح کا آغاز کروں گا‘‘ اور میں یہ ٹویٹ پڑھ کر سوچ رہا ہوں عمران خان کو امور ریاست کا کچھ علم بھی ہے یا وہ بھی اپنے ترجمانوں کی طرح محض اقوال زریں سنا کر تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ اب دیکھیے ، عمران خان نے قوم سے وعدہ کر لیا کہ قطر سے واپسی پر پنجاب پولیس کے پورے ڈھانچے کا جائزہ لوں گا اور اس کی اصلاح کا آغاز کروں گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد پولیس اب صوبائی حکومتوں کا معاملہ ہے اور وزیر اعظم اس کے ڈھانچے کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے کا مجاز ہی نہیں۔ 1861 کا پولیس ایکٹ ختم ہو چکا ۔ 2002 ء میں پولیس آرڈر لایا گیا۔آئینی ترمیم کے ذریعے اس کی توثیق بھی کر دی گئی۔مزید تشریحات ہوئیں اور معاملے کی نوعیت ہی بد ل گئی۔ اس وقت اس معاملے پر یوں سمجھئے کہ اجماع ہو چکا کہ پولیس اصلاحات اور قانون کا نفاذ صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے ، مرکز کی نہیں۔ ہر صوبے نے پولیس کے معاملات کو اپنے انداز سے دیکھنا شروع کیا ہوا ہے۔پنجاب میںپولیس آرڈر2002 ء کے تحت پولیس کے معاملات چلائے جا رہے ہیں، سندھ اور بلوچستان میں 1861 ء کے پولیس ایکٹ کے تحت پولیس کا ڈھانچہ کام کر رہا ہے اور کے پی کے نے 2017 ء میں اپنے الگ سے قوانین بنائے اور پولیس ان قوانین کے تحت کام کر رہی ہے۔چنانچہ ابھی دسمبر 2018 ء میں سندھ حکومت نے پولیس کے حوالے سے نئے قوانین بنائے اور وزیر اعلی کے مشیر بیرسٹر مرتضی وہاب نے یہ مسودہ سندھ اسمبلی کے سامنے رکھا۔اب سوال یہ ہے کہ ایک کام جو وزیر اعظم کے اختیار ہی سے باہر ہے وہ ا س کا وعدہ کیسے کر رہے ہیں؟ اس کی توجیہ اگر یہ ہے کہ عمران خان یہ کام بطور وزیر اعظم نہیں بلکہ بطور پارٹی چیئر مین کریں گے کیونکہ پنجاب میں بھی انہی کی جماعت کی حکومت ہے تو سوال یہ ہے کہ پنجاب میں جس شخص کے نام وزیر اعلی کی تہمت دھر دی گئی ہے اس کا کیا کام ہے؟۔جان کی امان پائوں تو جاننا چاہوں گا کہ عمران خان اگر ملک سے باہر چلے جائیں تو کیا ان کا سیاسی وسیم اکرم کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اور ملک ’’ سلیپنگ موڈ‘‘ میں چلا جاتا ہے ؟ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے سربراہ کی اہلیت کیا بس اتنی سی ہی ہے کہ عمران خان ملک میں موجود نہ ہو تو وہ اپنے ماتحت ادارے کی کارکردگی کے حوالے سے کوئی فیصلہ بھی نہیں کر سکتا؟ اگر وزیر اعظم کو یہ اعلان کرنا پڑتا ہے کہ ایک صوبائی معاملے کو وہ خود آ کر دیکھیں گے تو کیا یہ اپنے ہی وزیر اعلی کی صلاحیت پر ایک خوفناک عدم اعتماد نہیں؟کیا ان کا وسیم اکرم اس قابل بھی نہیں کہ وہ اسے ہدایات دیتے میرے آنے تک یہ کام کر گزرو؟کیا ایسے شخص کے حوالے پورا صوبہ کر دینا ایک دانشمندانہ اقدام ہے؟ عمران خان کا دوسرا وعدہ ہے کہ قطر سے واپسی پر اس واقعے کے ذمہ داروں کو عبرت ناک سزا ددی جائے گی۔ عمران خان قدیم زمانوں کے کسی خانہ بدوش قبیلے کے سربراہ نہیں ، وہ کسی ریاست کے سلطان بھی نہیں کہ قطر سے واپس آئیں گے لاہور چوبرجی میں ان کا تخت شاہی بچھایا جائے گا اور ، وہیں عدالت لگے گی اور مجرم جلاد کے حوالے کر دیے جائیں گے۔عمران خان ایک جدید ریاست میں انتظامی سربراہ ہیں۔وہ کوتوال شہر ہیں ، قاضی ہیں نہ جلاد، وہ وزیر اعظم ہیں۔ تمام ادارے اپنی جگہ موجود ہیں۔ تحقیقاتی ادارے بھی اور صوبے کا انتظامی سربراہ بھی۔وہ انہیں موزوں حکم جاری کر سکتے ہیں پھر نیکی کا یہ کام عمران کی واپسی پر کیوں اٹھا رکھا جائے۔ کیا عمران کے علاوہ سب کے سب مٹی کے مادھو ہیں اور ان کا کام صرف دوسروں کی تذلیل کرنا ہے؟عمران خان چند روز ملک میں نہ ہوں تو کیایہ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ بطور وزیر اعظم اور بطور پارٹی چیئر مین عمران خان اس معاملے میں اپنا کردار اداکرنا چاہتے تو یہ چند گھنٹوں بلکہ چند منٹ کا کام تھا۔وہ بیٹھ کر سوچتے ان حالات میںمجھے کیا کرنا ہے اور ضروری ہدایات یا حکم سنا دیتے۔ صدمے اور دکھ سے یہاں لوگوں کے اعصاب چٹخ گئے ہیں اور وزیر اعظم کتنے مزے سے فرما رہے ہیں قطر سے واپسی پر جادو کی چھڑی گھمائوں گا اور سب ٹھیک ہو جائے گا۔جب یہ تسلی ہو کہ میرے بچے تو لندن کے پر امن ماحول میں بیٹھے ہیں تو پھر ایسی ہی بے نیازی جنم لیتی ہے۔جادو کی جو چھڑی وزیر اعظم نے قطر سے واپسی پر گھمانی ہے وہ ابھی کیوں نہیں گھما دیتے؟ حادثہ ہوئے کتنا وقت بیت گیا۔ ہاں عمران قطر جا رہے ہوتے اور انہیں ایئر پورٹ پر اس حادثے کی خبر ملتی تب ان کا ٹویٹ قابل فہم ہوتا کہ قطر سے واپسی پر میں سب کچھ خود دیکھوں گا۔ یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ حادثے کے تیسرے روز ارشاد فرمایا جا رہا ہے میں قطر جا رہا ہوں واپسی پر دوحہ سے جادو کی چھڑی لائوں گا ۔اے اہل وطن تم میری جانیاں اور آنیاں دیکھو۔ دیوار پر لکھا ہے عمران خان وہی کرنے جا رہے ہیں جو ان سے پہلے کے حکمران کیا کرتے تھے۔ قوم کو باتوں میں لگائے رکھو یہاں تک ایک نیا حادثہ ہو جائے اور وہ پرانے دکھ بھول جائے۔معلوم نہیںکس کی نظم ہے لیکن بہت یاد آ رہی ہے۔ ’’ جھیل کے کنارے پر ایک شام بیٹھا تھا ڈھل رہا تھا سورج اور آسمان پہ سرخی تھی جھیل کے کنارے کے منفرد سے حصے کو ایک لہر دانستہ چومتی رہی پل پل دیکھ کر عنایت اور دیکھ کر کرم اس کا جھیل کے کنارے کے سادہ لوح حصے نے لہر سے کہا اتنا تم بہت ہی اچھی ہو آئو ایک ہو جائیں/چاہتوں میں کھو جائیں/ بدلے بدلے لہجے میں/ لہر نے یہ فرمایا/ میں تمہیں کناروں سے/ مختلف سمجھتی تھی/ تم بھی عام سے نکلے‘‘

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply