خود کلامی۔۔۔۔عبدالحنان ارشد

جب بات کرتے کرتے ہمارے پاس الفاظ کا ذخیرہ ختم ہوجاتا، زبان پیار و محبت کا اقرار کر کر کے تھک جاتی، لیکن ہمارا مقصد باتوں کا سلسلہ منقطع کرنا بھی نہیں ہوتا تھا۔ ذہن کو عہدوپیماں کی برہنہ تلوار پرمزید لٹکانا بھی  نہیں ہوتا تھا۔ کیونکہ ہمارا مقصد تو ایک دوسرے کا دیدارِ شوق تھا جو ایک دوسرے سے دوری پر ایسا جوش مارتا کے لگتا دل حلق کے راستے گزرنے والوں کے پاؤں میں آ گرے گا۔ 

تو روزانہ  ہماری گھنٹوں اس بات پر بحث ہوتی تھی لیکن ہم دونوں کو سمجھ نہیں آتی تھی اِس بحث میں فاتح کون بنا اور شکست کس کا مقدر ٹھہری۔

سوال ہوتا تھا کسی کو دینے کے لیے سب سے انمول اور بیش بہا تحفہ کیا ہونا چاہیے۔ 

وہ کہتی کسی کو دینے کے لیے سب سے خوبصورت اور انمول تحفہ گھڑی سے بہتر کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔ کیونکہ یہ گھڑی پہننے والے کو ہمیشہ اُس کا اچھا وقت یاد کرواتی رہے گی اور برے وقت میں اسے تسلی دے گی یہ وقت بھی گزر جائے گا۔ جب برے وقت سے وہ اچھے وقت کی مسافت کو طے کرے گا تو یہ گھڑی اسے باور کرواتی رہے گی برا وقت کسی بھی وقت آ سکتا ہے، اچھا وقت ہمیشہ کسی کی دسترس میں نہیں رہتا، اس لیے اپنی حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ برا وقت عارضی طور پر تم سے رخصت ہوا ہے،  وہ کسی بھی صبح تمہارے دروازے پر بغیر بتائے دستک دے سکتا ہے۔ 

یہ گھڑی جس کی کلائی پر بندھی ہو گی، گھڑی کی ٹک ٹک اُس کی سانسوں کی گواہی دیتی رہے گی۔ 

میں کہتا کسی کو دینے کے لیے دنیا کا سب سے عظیم تحفہ کتاب ہے۔ کتاب سے بڑھ کر دنیا میں کوئی نیاب تحفہ کسی کو دیا ہی نہیں جا سکتا۔ انسانی عقل آج تک اس سے بڑھ کر گراں قدر شے ایجاد کرنے کی استعداد ہی نہیں رکھتی۔ 

 کتاب انسان کو نئی دنیا کی سیر کرواتی ہے۔ عقل کی بند گُتھیا ں سلجھاتی ہے، سوچنے کا زاویہ بدلتی ہے، فہم وفراست میں اضافہ کرتی ہے، کسی بھی شخص سے سلیقے کے ساتھ اختلاف رکھنے کا ہنر سکھاتی ہے۔ سکھاتی ہے  کہ آپ سے اختلاف رکھنے والا ہر شخص غلط نہیں ہوتا، اُس کے سوچنے کا زاویہ آپ سے مختلف ہو سکتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں آپ اُس کی جاں کے درپے ہو جاؤ۔ اگر آپ کا تحفہ وصول کرنے والا اُس کتاب کو نہ بھی پڑھے تو اور لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ یہ یقین رہتا ہے، کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی وقت یہ کتاب لازمی پڑھی جائے گی   ۔ ایک کتاب سے ایک وقت میں بہت سے لوگ مستفید ہو سکتے ہیں۔ چوری ہو جانے کا ڈر بھی نہیں رہتا۔ شومئیِ قسمت اگر کتاب چوری ہو بھی جائے تو چُرانے والے  کا بھی بھلا ہی ہو گا اِس سے۔ 

سب سے بڑھ کر اپنے پڑھنے والے کو اس ہیجان انگیز معاشرے یا پھر دہشت زدہ دنیا میں امن کے ساتھ جینا سیکھاتی ہے۔   

میں کہتا آج کے اس ڈیجٹل زمانے میں جب لوگ کسی کی بات کا وزن نہیں اٹھا سکتے تو بھلا  کون کلائی پر گھڑی کا بوجھ برداشت کرسکتا ہے۔ گھڑی کی ٹک ٹک نیند میں خلل ڈال دیتی ہے، پھر بیٹری ڈلوانے کی تکلیف الگ سے۔ چوری ہو جانے کا  دھڑکا سا ہر وقت دل کو لگا رہتا ہے، گم ہو جانے کا خدشہ الگ سے دماغ کو مصروف رکھتا ہے۔ 

یہ جواب شاید اُسے ناگوار گزرتا وہ کاٹ دار  انداز میں تیوری چڑھاتے ہوئے کھا جانے والے لہجے میں پلٹ کر جواب دیتی ۔۔اسی ڈیجٹل زمانے میں کون کتاب پڑھنے کی مشقت سہہ سکتا ہے۔کون صفحہ پلٹنے کی اذیت کا شکار بننا چاہیے گا۔ جہاں انسان کے رہنے کے لیے مکان چھوٹے پڑ گئے ہیں، وہاں کتاب کو کہاں جگہ مل سکتی ہے۔ 

Advertisements
julia rana solicitors

میں کچھ پل کے لیے خاموش ہو جاتا، مجھے چپ ہوتا دیکھتی تو وہ سمجھتی میں مرغوب ہوگیا ہوں، اور اب اپنی ہار مان کر اس کی جیت کو امر کر کے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اُس کے جواب کو  تقویت بخش دوں گا۔ لیکن وہ نادان نہیں جانتی تھی میں تو ذہن میں نیا جواب سوچنے میں مصروف ہوتا تھا۔ کیونکہ شاید وہ اس راز سے انجان تھی، مرد ساری دنیا سے ہار سکتا ہے، سارے جہاں کے سامنے پکار پکار کر اپنی ہار کا اعلان کرنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتا۔ لیکن اپنے محبوب کے سامنے ہارنے کا کلنک اپنے ماتھے پر سجانے سے بہتر مر جانا پسند کرتا ہے۔ 

Facebook Comments

عبدالحنان ارشد
عبدالحنان نے فاسٹ یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ ملک کے چند نامور ادیبوں و صحافیوں کے انٹرویوز کر چکے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ آپ سو لفظوں کی 100 سے زیادہ کہانیاں لکھ چکے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply