ساکت نین ۔۔۔فوزیہ قریشی

پت جھڑ کی وہ شام مجھے آج بھی نہیں بھولتی جب اس کے ساکت نینوں نے مجھے اپنے حصار میں لے لیا تھا۔ ساکت نین، نہیں دیکھے نہ کبھی۔ میں نے بھی پہلی بار دیکھے تھے وہ دو ساکت نین۔۔اب تک تو میں نیلے ، ہرے کالے،بھورے اور سرمئی نینوں سے بار بار گھائل ہوا تھا جب سے لندن آیا تھا لیکن پہلی بار”وہ ساکت نین مجھے لے ڈوبے”۔ میرا گزر روزMaryon park مارین پارک سے ہوتا تھا۔ یہ ساؤتھ ایسٹ لندن کا ایریا ہے۔ جہاں سیاہ فام آبادی بستی ہے ۔ گورے اور ہم جیسے ایشینز اکا دکا ہی دکھائی دیتے ہیں ۔جاب کی وجہ سے یہاں رہنا میری مجبوری تھا۔ میرا فلیٹ پارک کے دوسری  طرف  تھا، بس سٹاپ سے گھر تک پہنچنے کے لئے میرا گزر روز اسی Mary on  park پارک سے ہوتا تھا۔۔

پچھلے سال پت جھڑ کا غالباً  یہی موسم تھا ایسی ہی ایک سرمئی شام تھی۔ آس پاس گہری خاموشی تھی، شام کے دھندلکے گہرے نارنجی مائل ہو چکےتھے ۔ دن پر رات کے سیاہ بادل منڈلا رہے تھے۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ پتے جھڑ رہے تھے۔ ہلکی ہلکی سردی جسم میں محسوس ہو رہی تھی۔ عجیب سا موسم تھا ۔پت جھڑ کا موسم ، پتوں کے سوکھنے کا موسم ،بچھڑنے کا موسم پتوں کے شاخوں سے بچھڑنے کا موسم۔
ایسے میں وہ دو ساکت نین جو تین دن سے میرے تعاقب میں تھے اور میں آنکھ بچا کر وہاں سے گزرجا تا لیکن یہ ظالم نین میرے ساتھ میرا تعاقب کرتے میرے گھر تک پہنچ جاتے۔ میرے ساتھ اٹھتے ،میرے ساتھ سوتے ، مجھے بے چین کرتے اس کے وہ دو ساکت نین۔ میرا ان نینوں سے رشتہ صرف تین دن کا رہا لیکن آج بھی ایسا لگتا ہے وہ نین مجھے صدیوں سے جانتے تھے۔ کچھ کہنا چاہتے تھے۔ افسوس، ہائے صد افسوس میں ان کی بات نہ سن سکا۔ ان نینوں کے اشاروں کو نہ سمجھ سکا ۔۔۔۔۔

کاش میں سمجھ جاتا تو وہ نین مجھے ایک سال گزرنے کے بعد بھی یوں نہ تڑپاتے۔۔۔۔ آج تیسرا دن تھا میرا آج بھی اس کے پاس سے خاموشی سے گزرنے کا ارادہ تھا لیکن اس کے ساکت نینوں نے میرے پاؤں جکڑ لئے تھے ۔ میں تھم سا گیا۔ خاموش لب اور ساکت نین کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن کہہ نہیں سکتے تھے۔ ایسے میں اس نے میرے ہاتھ میں ایک پرچی تھمائی جس پرمجھ سے ملاقات کا وقت، اس کا پوسٹ کوڈ ایڈریس اور نیچے لکھا تھا please help me

Advertisements
julia rana solicitors

میں نے  وہ پرچی پکڑی اور  بغیر پڑھے جیب میں ڈال لی۔ اور تیزی سے اپنے گھر کی جانب قدم بڑھانے لگا۔مارین پارک کے دوسرے مین گیٹ کے بالکل سامنے ایک بڑی سی آٹھ منزلہ عمارت تھی جس کی ساتویں منزل پر میں رہتا تھا۔سارا دن کی تھکاوٹ نے ویسے ہی جسم چور چور کر دیا تھا اس پر میرے اعصاب شل ان نینوں نے کر دیے  تھے ۔رات کے کھانے سے فارغ ہو کر میں سستانے کے لئے جب صوفے پر ٹیک لگا کر بیٹھا ہی تھا کہ یک دم وہی نین میرے سامنے آ کھڑے ہوئے جیسے مجھے پکار رہے ہوں۔ پلیز ہیلپ می۔ میں ٹھٹکا ، ایک کپکپی سی پورے وجود پر طاری ہو گئی۔ پرچی جیب سے نکالی، پڑھا تو ملاقات کا وقت چھ بجے کا تھا۔ ایک دل چاہا اگنور کروں لیکن چاہ کر بھی نہ کر سکا۔ پھرغور سے دیکھا تو ایڈرس سامنے والی بلڈنگ کا تھا اور چھٹی منزل پر اس کا فلیٹ۔۔۔۔۔میں مقررہ وقت پر نہ پہنچ سکا۔ پرچی پر ملاقات کا وقت وہی درج تھا جس وقت وہ مجھے روز باغ میں ملتی تھی۔ ڈھلتی شام کا وقت۔۔۔میرے منتظر وہ دو ساکت نین۔ میں اس کے فلیٹ پر پہنچا یہ سوچ کر کہ دیر سے آنے کی معذرت کر لوں گا لیکن تین بار دروازہ بجانے اور بیل کرنے پر بھی جب نہ کھلا تو مجھےتشویش ہوئی ۔ پھر میں نے ساتھ والے گھر کی بیل بجائی تو ایک ادھیڑ عمر بزرگ نے دروازہ کھولا ۔میں نے کہا میری آج ان سے اپوئنٹمنٹ تھی لیکن میں اسی وقت آفس سے آتا ہوں تو چینج کرنے اور کھانا کھانے میں وقت لگ گیا۔ یوں تو میں انہیں نہیں جانتا لیکن تین دن سے ان+ سے ایک رابطہ تھا تبھی آج مجھے بلوایا گیا ہے لیکن اب اندر سے کوئی آواز نہیں آرہی۔۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ کوئی ملاقات کے لئے بلائے اور دروازہ نہ کھولے۔ دیکھیے  ضرور کچھ گڑ بڑ ہے۔۔۔ ۔ اس بوڑھے نے بھی میرے ساتھ دروازہ کھٹکھٹایا لیکن بار بار آواز پر بھی کوئی جواب موصول نہ ہوا تو ہم نے ایمرجنسی نمبر پر کال کیا۔ منٹوں میں ایمرجنسی ٹیم وہاں پہنچ گئی۔۔ میں نے سارا ماجرہ بیان کیا اور دروازہ توڑنے کی درخواست کی۔ ایمرجنسی ٹیم نے پہلے کچھ انکوائری کی آس پاس کے ایک دو فلیٹ سے اور پھر دروازہ توڑ دیا۔ دروازہ ٹوٹتے ہی میں ساکت ہو گیا بالکل ان نینوں کی طرح میرے وجود پر بھی سکوت سا چھا گیا سٹنگ روم میں صوفے پر بیٹھی ، نہ جانے کب سے میری منتظر وہ اب دم توڑ چکی تھی ۔ وہی ساکت نین میرے اندر کھب گئے۔ میرے وجود کو چھلنی کر گئے۔۔۔۔تین دن سے میرے منتظر، وہ دو ساکت نین۔ جن سے میں اپنے نین چراتا پاس سے خاموشی سے گزر جاتا تھا۔۔۔ پل بھر کے لئے بھی میں نے رکنے کی زحمت گوارہ کی ہوتی تو آج وہ نین ساکت نہ ہوتے۔۔ایمرجنسی ٹیم کے ڈاکٹر نے لاش کو سیدھا سٹریچر پر لٹا دیا، چیک کرنے پر معلوم ہوا، موت شام چھ جے ہی ہو گئی تھی۔ یہ وہی ملاقات کا وقت تھا۔۔۔۔۔۔ پچھلے تین دن سے وہ ساکت نین مجھے اسی پل تو ملتے تھے۔۔ وہی وقت ڈھلتی شام کا وقت، موت کا وقت۔
میرے وجود کو ہمیشہ کے لئے ساکت کر گئے۔ ٹھگ گئے مجھے تیرے وہ دو ساکت نین۔ آج سال گزر گیا ہے لیکن بے چین ساکت نین آج بھی میرے سنگ وقت بتاتے ہیں۔ میں ان سے باتیں کرتا ہوں۔ان کے ساتھ اپنے دکھ درد شئر کرتا ہوں۔ کبھی ہنستا ہوں کبھی روتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔یہ کیسا احساس ہے؟ یہ کیسی جدائی ہے؟ وہ ہر پل میرے ساتھ ہوکر بھی مجھے سے بہت دور ہیں۔۔ اب نیلے،کالے،سرمئی،بھورے،مٹیالے اور ہرے نین اچھے بالکل اچھے نہیں لگتے ہیں، آج صرف تیرے وہی گھائل، ساکت نین یاد آتے ہیں۔۔۔کاش میں ان نینوں کی بولی سمجھ لیتا اس وقت کاش ۔۔۔
کہتے تھے کہہ نیناں ٹھگ لیں گے
جگ تے جادو پھونکیں گے
نیندیں بنجر کر لیں گے
کر گئے نیندیں بنجر میری
بھلا منداں دیکھیں نہ پرایا نہ سگا رے
نینوں کو ڈسنے کا چسکا لگا رھے
نینوں کا زہر نشیلہ رے
بس ٹھگ گئے تیرے ساکت نشیلے نین مجھے اب نہ دن اپنا ہے نہ رات میں ہوں جدائی ہے اور تیرے نشیلے وہ دو ساکت نین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تیرے نشیلے نینوں کا زہر مجھے پل پل مارتا ہے۔ تیری طرف کھینچتا ہے۔۔۔ لوگ سچ کہتے تھے نیناں ڈس لیں گے۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply