لُٹ گئی اک رکھوالے کی بیٹی۔۔۔۔۔عشاء نعیم

اس کا باپ محافظ وطن ہے ۔وہ سرحدوں پہ کھڑا ہوتا ہے۔کہیں کوئی دشمن اس ملک کے اندر نہ گھس آئے، کہیں کوئی دشمن اس ملک کو تر نوالہ نہ سمجھ لے۔کہیں کوئی درندہ گھس کر اس وطن کی بیٹیوں کی عزتوں پہ ہاتھ نہ ڈالے ۔ہاں وہ زمین کے چپے چپے  کی حفاظت اسی لئے کرتا ہے کہ میرے وطن کی بیٹیاں محفوظ ہو جائیں ۔وہ اس لئے راتوں کو جاگ کر سرحدوں پر پہرہ دیتا ہے کہ بیٹیوں کے باپ رات کو بے فکر ہو کر سکون سے سو جائیں ۔
ہاں وہی محافظ وطن جو جان ہتھیلی پہ لئے سرحدوں پہ دشمن کے سامنے سینہ تانے کھڑے ہیں کسی گولی کا ڈر ہے نہ بم کا خوف بس وطن کی حفاظت اور بیٹیوں کا تحفظ ہی تو درکار ہے انھیں ۔ لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ اسی محافظ کی اپنی بیٹی اپنی سرحدوں کے اندر روند دی جائے گی۔ اس کی اپنی بیٹی کو گھر کے اندر سے درندے پڑ جائیں گے ۔ جو اسے نوچ لیں گے ۔ وہ تو غیروں کے سامنے سینہ تانے کھڑا تھا ، وہ تو غیروں کو للکار رہا تھا کہ گھر سے لٹیرے نکل آئے جو اسی کے گھر کو لوٹ گئے ۔ کس قدر درندگی کا مظاہرہ کیا گیا اس ننھی کلی کے ساتھ ؟
آسمان بھی کانپ گیا ہوگا صرف تین سالہ فریال جب کھیلنے کے لئے گھر سے نکلی تو پھر دو دن بعد اس حالت میں لوٹی جو دیکھے کلیجہ پھٹ جائے ۔ واقعہ ایسا کہ ہر ایک سن کر تڑپ اٹھے ۔ قیامت سی قیامت ہے ۔ اگر وہ بیٹی باپ سے ملے تو کیا کہے گی باپ سے ؟
یہی کہ بابا آپ تو محافظ تھے پھر میں کیوں لٹ گئی؟
بابا آپ تو بندوق تھامے کھڑے تھے کیا آپ کی بندوق گم ہو گئی تھی؟
بابا آپ تو کھڑے تھے کہ کوئی دشمن کوئی درندہ میرے وطن میں نہ گھس سکے بابا کیا آپ کو نیند آ گئی تھی جو وہ درندہ اندر آ گیا ؟
بابا کیا میں صرف آپ کی بیٹی تھی ؟
بابا آپ نے کیوں آنے دیا اس وحشی کو ؟

اس معصوم کو تو یہی معلوم تھا کہ اس کا باپ دشمنوں، درندوں کے لئے بندوق لئے کھڑا ہے ۔اسے کیا معلوم تھا کہ وحشی درندہ، انسانیت سے عاری ملک کے اندر بھی چھپا بیٹھا ہے ۔ پہلے بھی ایسے حادثات ہو چکے ہیں ۔ ہر چند ماہ بعد ایسا واقعہ ہو رہا ہے۔ کیا ان واقعات کو جو کلیجہ چھلنی کر دیتے ہیں جو ماں باپ کی زندگی تباہ کر دیتے ہیں کو نظر انداز کر یا جائے ؟ کیا ان واقعات کو زندگی کا حصہ سمجھ لیا جائے ؟ کیا ایسا ممکن ہے کہ ماں باپ اس کو ‘ یہ تو اب ہو رہا ہے ‘ کہہ کر آگے بڑھ جا ئیں؟

نہیں ،اس کو نہ تو وہ ماں باپ نظر انداز کر سکتے ہیں نہ ہم دیگر والدین ۔ کیونکہ ماں باپ کو دنیا میں ایمان کے بعد سب سے پیاری چیز اولاد ہوتی ہے ۔اولاد کے لئے ہی محنت کرتے ہیں، اولاد کے لئے ہر دکھ سہتے ہیں ۔ اولاد کے لئے ہی جیتے ہیں ۔ کسی کا بچہ فوت ہو جائے تو اسے صبر آنا بہت مشکل ہو جاتا ہے ۔اگر حادثے میں ہو تو اور دکھ ہوتا ہے ۔اور حادثہ ایسا ہو تو پھر ان والدین کی زندگی تباہ ہو جاتی ہے کہ صرف والدین بلکہ اس بچی کے رشتہ دار اور دوست احباب بھی متاثر ہوتے ہیں ۔

اب بات یہ ہے کہ ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ وہ کون سی وجوہات ہیں کہ ایسے واقعات بڑھ رہے ہیں ۔ تو اس کی وجہ بڑی عام ہے اور تقریبا سبھی جانتے ہیں کہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی فحاشی و عریانی ہے ۔
فیشن کے نام جو گند ڈالا جارہا ہے پا کستان میں وہ تو ناقابل برداشت ہے ہی لیکن یہاں ہر چیز میں آپ کو معصوم ذہنوں کو بھی خراب کرتی نظر آئے گی ۔ ہمارے ملک میں فلم انڈسٹری پہ سنسر شپ صرف نام کی ہے ورنہ ہالی ووڈ سے کم کچھ نہیں ہو رہا ۔ٹی وی پہ ہر اشتہار میں مختصر لباس اور مخلوط ڈانس دکھایا جاتا ہے ۔حتی کہ بچے بھی اب بس ڈانس کرتے ہیں ۔ ٹی وی پہ معصوم بچیوں کو بے ہودہ لباس پہنا کر ڈانس مقابلے کروائے جاتے ہیں ۔ اور تو اور بچوں کے بیگ اور لنچ بکس لینا مشکل ہو گیا ہے ۔ آخر کیا تک ہے لنچ بکس اور بیگ پہ باربی ڈول کے نام سے مختصر لباس کی تصاویر بنانے کی ؟

ہمارے تو بچے پریشان ہوتے ہیں باقاعدہ میری بچی رونے لگتی ہے کہ ماما جی یہ گندے ہیں مجھے نہ لا کر دو ۔ لیکن دوکاندار کہتا ہے سادہ ہے ہی نہیں ۔ گویا کہ فحاشی کا ایک سیلاب ہے جو ایسے امڈ آیا ہے کہ سنبھالنا مشکل ہو رہا ہے۔ یہ سب اس لئے کیا جارہا ہے میں ہمارے بچے حیا کو بھول جائیں اور یہ سب معمولی سمجھ کر خود بھی ایسا لباس پہنتے ہوئے نہ شرمائیں نہ جھجک محسوس کریں ۔ حکومت پاکستان کو اب کچھ کرنا ہوگا۔ یہ سب اس طرح نہیں چل سکتا ۔ ہماری حکومت پاکستان سے استدعا ہے کہ اللہ کے لئے یہ سب مدینہ جیسی ریاست سے ختم کیا جائے ۔ ہماری بچیوں کو تحفظ دیاجائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حکومت یہ تو اعلان کرتی ہے کہ بارہ ہزار سینماز بنائے گی لیکن ان سائٹس کو بند نہیں کرتی جو ملک میں ایسے واقعات کی وجہ بن رہے ہیں ۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ سائٹس کو بند کیا جائے،ٹی وی پروگرامز کو بھی ایک حد تک پابند کیا جائے، بچوں کی سکول کی چیزوں کو ان فحش تصاویر سے پاک کیا جائے ۔ اور مجرموں کو کسی چوراہے میں عبرت ناک سزا دی جائے۔ تاکہ ہماری بچیاں محفوظ ہو سکیں اور آئندہ کوئی زینب، کوئی فریال درندگی کا نشانہ نہ بن سکے۔ لیکن ہر حکومت نے وجوہات کو نظر انداز کر مزید ان واقعات کی راہ ہموار کی ہے سو زینب کے بعد فریال اور فریال کے بعد اور نو سالہ بچی بھی درندے کی بھینٹ چڑھ گئی اور اس کا حال فریال سے بھی برا کیا گیا ۔ اس کو ٹکڑے کر کے قبرستان میں پھینک دیا گیا ۔ کیا ہم انتظار کریں کہ کسی حکمران کی بچی کے ساتھ اللہ نہ کرے ایسا واقعہ ہو گا تب کوئی ایکشن لیا جائے گا ؟ یا ہماری ایسے ہی سن لی جائے گی ؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply