• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مولانا وحید الدین خاںؒ/ذاتی مشاہدات وتاثرات کے آئینے میں(حصّہ اوّل)۔۔۔مولانا ڈاکٹر محمد وارث مظہری

مولانا وحید الدین خاںؒ/ذاتی مشاہدات وتاثرات کے آئینے میں(حصّہ اوّل)۔۔۔مولانا ڈاکٹر محمد وارث مظہری

مولانا وحید الدین خان کی وفات علمی وفکری دنیا کے لیے بلاشبہ ایک عظیم خسارہ ہے۔وہ عالمی شہرت و شخصیت کے مالک تھے۔انہوں نے دو سو سے زیادہ کتابیں تصنیف کیں جن میں سے بہت سی کتا بوں کے ترجمے متعدد مقامی اور عالمی زبانوں میں کیے گئےجس نے انہیں عالم اسلام اور مغرب کے علمی وفکری حلقوں میں متعارف کرانے میں اہم رول ادا کیا۔اپنی کتابوں کے ترجمہ و اشاعت اور اپنی فکر کی ترویج کے لیے انہوں نے تمام ممکنہ وسائل کا استعمال کیا جو خوش قسمتی سے بھرپور طور پر انہیں میسر تھے۔حقیقت یہ ہے کہ وہ کئی لحاظ سے بہت خوش قسمت لیکن کئی لحاظ سے نہایت ’’بدقسمت‘‘ واقع ہوئے تھے۔خوش قسمتی کا پہلو تو ظاہر ہے۔’’بدقسمتی‘‘ کا پہلو یہ ہے کہ اس قدر طویل اورفعال علمی وفکری زندگی گزارنے کے باوجود ان کی مقبولیت کادائرہ نسبتا محدود رہا۔ ان کی شہرت میں بدنامی کا عنصر غالب رہا۔وہ مسلمانوں کے کسی بھی حلقے میں اپنی کوئی مستقل اور مضبوط جگہ نہیں بناسکے۔ہر حلقے کے’’بے شعور وباشعور‘‘ افراد کو ان کے مختلف نظریات سے شدید اختلاف رہا۔یہی وجہ ہے کہ وہ دوسرے معاصرین کی طرح اپنے رفقا و تلامذہ کی کوئی ایسی ٹیم بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکے جو ان کی فکری وراثت کو سنبھال کر اسے پروان چڑھا سکے۔

مولانا سے میرا تعلق

مولانا وحید الدین خاں ؒ کو میں نے بہت قریب سے دیکھا،برتا اور پرکھا۔ مجھے ان کے ساتھ کچھ عرصے تک کام کرنے کا موقع ملا۔اور اس دوران مجھے ان کے ساتھ طویل علمی صحبتیں میسر آ ئیں۔فکری نشستوں اور پروگراموں میں شرکت کے ساتھ بارہا مختلف موضوعات پر ان کے ساتھ تبادلہ ٔ خیالات کا اتفاق ہوا۔ علاوہ ازیں میں نے مولانا کے لٹریچر کا تفصیلی مطالعہ کیا ہے۔سالہاسال تک ’’الرسالہ‘‘ کے مطالعے کے جنون میں مبتلا رہا۔ اس طرح میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نے مولانا کی شخصیت اور فکر دونوں کا یکساں طور پر مطالعہ کیا ہے۔1995 میں دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد اپنے ذوق عربی کی تسکین کے لیے میں نے ندوۃ العلماء ،لکھنؤکا رخ کیا۔وہاں میرا داخلہ’’ علیا اولی ادب‘‘ میں ہوا۔لیکن دوران سال میں نے ندوے کو خیر آباد کہہ دیا۔ کیوں کہ اس کا ادب عربی کا نصاب مختلف فنون پر مشتمل تھا جن سے میں دیوبند کی طالب علمی کے دورانیے میں گزرچکا تھا۔ میرا مقصود صرف عربی زبان میں تخلیق وترجمے کی اعلی صلاحیت پیدا کرنا تھا۔ ندوے سے لوٹ آنے کے بعد دہلی،علی گڑھ اور بجنور کے علمی گلیاروں کی خاک چھانتا رہا۔پھر 1997 میں بطور مدیر معاون’’ الرسالہ‘‘ سے وابستہ ہوگیاجس کا اشتہار روزنامہ’’ قومی آواز‘‘ نئی دہلی میں شائع ہوا تھا۔کچھ وقفوں کے ساتھ قریبا ایک سال تک مولانا سے رسمی وابستگی رہی۔

مولانا کی صحبت بافیض سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ایک ایسے دور میں جب کہ معاشی مستقبل کے حوالے سے بے اطمینانی کی کیفیت ذہن ودماغ پر چھائی ہوئی تھی اور میں خود کو ایک دوراہے پر کھڑا محسوس کرتا تھا کہ مجھے پہلے اپنے معاشی مستقبل کو بہتر بنانے کی طرف قدم آگے بڑھانا چاہیے یا علم ومطالعے کو پروان چڑھانے کوترجیح دینا چاہیے؛ مولانا کی صحبت نے مجھے دوسرے پہلو پراپنی توجہ کومرکوز رکھنے پر آمادہ کیا۔ مولانا کی صحبت میں مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ میں انگریزی نہ جاننے کی وجہ سے نرا جاہل اور جدید دنیا سے نابلد ہوں۔ اب تک میں عربی زبان کے سحر میں مبتلا اور اس کی زلف گرہ گیر کا اسیر تھا۔واقعہ یہ ہوا کہ مولانا کی معیت میں دہلی میں ایک انٹرنیشنل سیمینار میں شرکت ہوئی جس کی ساری کارروائی از اول تا آخر انگریزی میں تھی۔ مجھے کچھ بھی پلے نہیں پڑسکا ۔اس پر میرے لیے ذلت کا سامان یہ ہوا کہ بعض مندوبین نے مجھ سے مخاطب ہوکر انگریزی میں سوالات اچھال دیے جن کا جواب میرے پاس سرکھجانے کے علاوہ کچھ نہ تھا۔میرے تاسف وندامت کودیکھتے ہوئے مولانانے مجھے خود سے انگریزی سیکھنے کے گر بتائے ۔ میں نے اس پر عمل کیا اور کامیاب رہا۔ مولانا کی صحبت کا ایک اثر یہ ہوا کہ میں شعروادب کی بھول بھلیوں سے باہر نکل آیا۔شعروادب کا ذوق مجھےوراثت میں ملا ہے کہ میرے والد ایک اچھے اور قادر الکلام شاعر تھے۔چناں چہ طالب علمی کے زمانے میں اور اس کے بعد بھی میں خود کوشعرگوئی اور ادب نویسی سے باز نہ رکھ سکا جس کے نتائج ماہنامہ ’’آج کل‘‘ نئی دہلی، ماہنامہ’’ ایوان اردو‘‘،نئی دہلی اور دیگر سرکاری وغیر سرکاری ادبی رسائل میں شایع ہوتے تھے۔لیکن مدتوں سے منھ کو لگی ہوئی یہ کافر مولانا کی صحبت میں چھوٹ گئی۔کیوں کہ مولانا نے اس کی شدید حوصلہ شکنی کی۔

یہ عظیم الشان فائدے مجھے مولانا کی زندگی کوقریب سے دیکھنے اور ان کی نصیحتوں پر کسی قدر عمل پیرا ہونے سے حاصل ہوئے۔تاہم میں یہ چاہتا تھا کہ مولانا میری اس باب میں رہنمائی فرمائیں کہ مجھے کن کتابوں اور کن شخصیات کو ترجیحی طور پر پڑھنا چاہیے؟ کن موضوعات پر مطالعے کو اپنی اس ابتدائی علمی زندگی کے اس مرحلے میں مجھے پیش نظر رکھنا چاہیے؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مولانا کے سامنے اس کا خاکہ اس کے علاوہ کچھ نہیں تھا کہ مجھے’’ الرسالہ‘‘ لٹریچر میں پوری طرح خود کو غرق کردیناچاہیے۔

وہ معاصرین اور دور حاضرکے اصحاب علم وفکر کی کتابوں کوتواس لائق ہی نہیں سمجھتے تھے کہ کسی کوان کے مطالعے کا مشورہ دے سکیں، متقدمین کی کتابوں میں سے چند ایک کے علاوہ(جن میں مقدمہ ابن خلدون سرفہرست ہے) وہ تقریبا پوری اسلامی کلاسکس بالفاظ دیگر اسلامی تراث کودفتر بے معنی سمجھتے ہوئے ’’غرق مے ناب اولی‘‘ تصور کرتے تھے۔مولانا سے دامن کشی کی بنیادی وجہ ان کی افتاد طبع اور ان کے غلو آمیز نظریات تھے۔قائل کرنے کے بجائے اپنے نظریات کومسلط کرنے کا ان کا انداز نہایت ناگوار گزرتا تھا۔ انہیں ایسا معاون چاہیے تھا جو ان کی شخصیت کے آفاق میں اس طرح گم ہو کہ باہر کی پوری دنیا اس کی نظروں سے بالکلیہ اوجھل ہوچکی ہو۔وہ’’ الرسالہ‘‘ تحریک کا ایسا مخلص خادم چاہتے تھے جو اپنی ضروریات ومطالبات سے اوپر اٹھ کر خود کو اس تحریک کے لیے پوری طرح تج دینے اور قربان کردینے کا جذبہ رکھتا ہو۔مجھے بہت جلد محسوس ہونے لگا کہ میں اس معیار پر پورا نہیں اتر سکتا۔کسی شخصیت کا ضمیمہ بن جانا علمی زندگی اور شناخت کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔مولانا کواس کا کوئی ملال بھی نہیں تھاکہ کون ان سے الگ ہورہا ہے اور کیوں ہورہا ہے؟وہ ان احساسات سے بالاتر تھے۔

۲۰۰۰ میں تنظیم ابنائے قدیم دار العلوم دیوبند(نئی دہلی) سے،اس سے نکلنے والے ماہنامے، ’’ترجمان دارالعلوم‘‘ سے بطور مدیر تحریر وابستہ ہوگیا۔اسی سال تنظیم نے بانی دار العلوم دیوبند مولانا محمدقاسم نانوتوی ؒ پر ایک عظیم الشان سیمینار کا انعقاد کیا جس میں شرکت کی مولانا کوبھی دعوت دی گئی۔انہوں نے اس کے لیے مقالہ لکھنے کی یہ شرط رکھی کہ راقم الحروف چند ایام ان کے پاس حاضر ہواوروہ یہ مقالہ اس کو املا کرائیں۔چناں چہ اس شرط کی منظوری کے ساتھ یہ مقالہ تیار اور شایع ہوا۔ اس میں مدارس کی قدرومعنویت اور اصحاب مدارس کے کردار اور کارناموں کو سنجیدہ علمی اسلوب میں نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔لیکن سیمینار میں مولانا کومقالہ پڑھنے نہیں دیا گیا۔ سامعین کے ایک طبقے نے جس میں بعض معروف علما بھی شامل تھے،وہ شور وہنگامہ برپا کیا کہ مولانا کواسٹیج سے اترنا اور مجھے دوران پروگرام مولانا کوان کے گھرچھوڑنا پڑا۔مولانا نے مقالے پر کافی محنت کی تھی۔بقول ان کے اس کی پریزنٹیشن کی انہوں نے باضابطہ ریہرسل کی تھی۔بلاشبہ یہ ناخوش گوار واقعہ تھا لیکن مولانا کی خوبی یہ تھی کہ وہ ایسے تمام ناخوش گوار واقعات کو جھٹک دینے اور برداشت کرجانے کی غیر معمولی نفسیاتی قوت رکھتے تھے۔

نادر و کمیاب خوبیاں

مولانا بڑی اہم خوبیوں کے مالک تھے۔ان کی شخصیت اور ان کے عملی شب وروز میں سیکھنے کی بہت سی چیزیں تھیں:

  • وقت کے استعمال کی جونادر مثالیں متقدمین کے یہاں ملتی ہیں، وہ ناقابل قیاس حد تک مولانا کے یہاں موجود تھیں۔ وہ ایک ایک لمحے کوناپ تول کرخرچ کرتے اور اس کے ضیاع پر کف افسوس ملتے تھے۔
  • علم ومطالعے کے لیے اپنی زندگی کووقف کردینے کا جوجذبہ ان کے یہاں پایا جاتا تھا، اس کی نظیر فی زمانہ کم ملتی ہے۔انہوں نے اپنی اکثر خواہشات، تمناؤں اور حسرتوں کواپنے فکری مشن کی قربان گاہ پرچڑھادیا تھا۔اس کے منفی اثرات ان کے خاندان پرمرتب ہوئے لیکن مولانا کی سوچ ان سب سے مافوق تھی۔
  • کسی بڑے سے بڑے حادثے سے بھی ان کا ذہن بالکل متاثر نہیں ہوتا تھا تھا۔ایک دن میں حاضرہوا تومولانا نے بتایا کہ ان پر آج قاتلانہ حملہ ہوا ہے۔ حالاں کہ مولانا اپنی نشست گاہ میں تنہا تھے۔ تاہم خدا کے فضل سے اپنا بچاؤ کرنے میں کامیاب رہے۔یہ واقعہ انہوں نے اس تمہیدکے ساتھ بیان کیا کہ:’’ آدمی کوحالات سے کبھی متاثر نہیں ہونا چاہیے۔یہ اس کی علمی وفکری زندگی کے لیے زہر قاتل ہے‘‘۔اس حملے کے دن بھی مولانا ہشاش بشا ش پورے دن حسب معمول کام میں مشغول رہےجیسے سرے سے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
  • ان کا ذہن بیداری کے تمام تر لمحات میں متحرک رہتا تھا۔ جس طرح شعرا پر اشعار کانزول ہوتا ہے، مولانا پر اس طرح افکار کا نزول ہوتا رہتا تھا۔جیسے ہی کوئی فکر ’’نازل‘‘ ہوتی،وہ اسے کسی ڈائر ی میں لکھواتے۔ پھر وہی فکر پارہ مستقل مضمون کی شکل اختیار کرلیتا۔
  • ایک مربیانہ وصف یہ تھا کہ وہ وقفے وقفے سے ،جاری مشغولیت کو روک کر نصیحت کرتے تھے۔ مثلا ایک دن ایک مضمون کا املا کراتے ہوئے قلم رکو اکر کہنے لگے :’’ آپ کواپنی شادی کوجس حد تک ہوسکے موخر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے‘‘۔ اورضمن میں خود اپنی شادی سے متعلق ایسا نیم افسانوی اور حیرت انگیز واقعہ بیان کیا جو ناقبل یقین حد تک انوکھا تھا۔اس سے ان کی اہلیہ کی قرباینوں کا بھی اندازہ ہوا۔فنائیت فی العلم کی ایسی مثالیں اب عنقا ہیں۔
  • مولانا کی ایک اہم خوبی ان کی سادگی تھی۔وہ گاندھی جی کا قول دہراتے تھے کہ:’’سادہ زندگی، اعلی سوچ‘‘(simple living ,high thinking) کہنے کو تو ان کے پاس کروڑوں کی دولت ودنیا تھی لیکن ان کی شبانہ روز کی زندگی پر اس کا کوئی اثر نہ تھا۔ خالص سبزی خور تھے،مرغ وماہی سے سخت متنفر۔ عید الاضحی کا گوشت بھی بس چکھ لیتے تھے۔(البتہ ان کے بقول مہمان کومزید زحمت سے بچانے کے لیے وہ بعد میں مہمان داری میں حسب ضرورت گوشت کا استعمال کرلینے لگے تھے)۔اے، سی،کولر اور فریج جیسی جدید دور کی ’’نعمتوں‘‘ کووہ اپنے اوپر ’’حرام‘‘ تصور کرتے تھے۔کسی مقامی میٹنگ میں شرکت ہویا کسی اعلی سطح کے بین الاقوامی فورم میں؛مولانا کی ان کے لیے تیاری اور ان میں شرکت کا انداز یکساں اور درویشانہ ہوتا تھا۔
  • مولانا کا ایک قابل تعریف وصف استغنا تھاجس کا اندازہ لوگوں کوکم ہے۔ایک دن مولانا نے مجھے بتایا کہ آنجہانی پرمود مہاجن اور بی جے پی کے بعض دوسرے رہنما گورنرشپ کی پیش کش لے کر ان کے پاس حاضر ہوئے تھے لیکن انہوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ وہ صوفی منش آدمی ہیں۔ انہیں اس کی ضرورت نہیں ۔میں سمجھتا ہوں کہ بی جے پی کے ٹاپ کے رہنماؤں، جن میں وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی اور ایل کے ایڈوانی دونوں شامل ہیں، سے بے انتہا قربت کی بنا پر ان کے لیے شاید نائب صدر جمہوریہ تک کی کرسی تک رسائی حاصل کرلینابہت مشکل نہیں تھا،لیکن وہ ان چیزوں سے مستغنی تھے۔

مولانا کی کشادہ ظرفی

مولانا بہت سے معاملات میں بہت کشادہ ظرف واقع ہوئے تھے (اگرچہ کچھ دوسرے معاملات میں ذرا تنگ ظرف بھی۔) مولانا سے وابستگی کے کچھ عرصہ بعد انہوں نے غیر مطبوعہ مضامین کے کئی ضخیم ترین بنڈل یہ کہہ کر میرے حوالے کردیے کہ میں ان میں سے جن کو چاہوں’’ الرسالہ‘‘ میں اشاعت کے لیے منتخب کرلوں اور باقی کو ان سے مشورے کے بغیرکوڑے دان کی نذر کر دوں۔ چناچہ میں نے بمشکل دس فیصد مضامین کےعلاوہ سارے مضامین ضایع کردیے۔ متعدد مضامین کو جو نہایت محنت سے لکھے گئے تھے،میرے اظہار اختلاف کے بعد وہ میرے سامنے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا کرتے تھے۔ مجھے ایسے دو مضامین کی اس وقت یاد آتی ہے: ایک مضمون میں انہوں نے اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ حضرت عمر ؓ کے زمانے میں دعوت کا کام فتوحات کےہجوم میں دب کر رہ گیا۔ میرے اعتراض پر انہوں نے بلا تامل اسے اسی وقت پھاڑ کر پھینک دیا۔ دوسرے مضمون کا عنوان تھا: البادی اظلم (شروع کرنے والا سب سے بڑا ظالم ہے۔) اس میں اس موقف کا اظہار کیا گیا تھا کہ چوں کہ فسادات کی ابتدا ہندوستان میں مسلمان کرتے ہیں، اس لیے وہ زیادہ بڑے ظالم ہیں۔میری تنقید پر انہوں نے مسکرا کر میرے سامنے اسےپھاڑ کرردی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔

ان واقعات سے اندازہ ہوا کہ مولانا کے اندر کشادہ ظرفی اور لچک پائی جاتی ہے۔ البتہ وہ اس کے لیے کسی بھی قیمت پر تیار نہیں تھے کہ اپنے کسی نظریے اور موقف کے کسی جز سے بھی دست بردار ہوں۔ان کی کتاب ’’ تجدید دین‘‘ پڑھ کر مجھے شدید تکدر ہوا جس کا اظہار میں نے مولاناکے سامنے کیا۔ مولانا نے فرمایا کہ مولانا رضوان القاسمی ؒ (مہتمم دار العلوم سبیل السلام، حیدر آباد) نے بھی اس کتاب پراسی شدت کے ساتھ تنقید کی ہے۔ مختلف مواقع پر ان کی ’’تسلیم کی خو‘‘ کودیکھتے ہوئے میں نے مولانا کومشورہ دیا کہ وہ ایک ایسی تحریر لکھ دیں جس کامضمون یہ ہوکہ ان کے جونظریات جمہورعلمائے امت سے متصادم ہیں،وہ ان سے اظہار برأت کرتے ہیں۔مولانانے فرمایا کہ میں خود سے یہ تحریر لکھ لوں، مولانا اس پر دستخط کردیں گے۔لیکن انہوں نے اگلے ہی لمحے وضاحت کی کہ :’’یہ محض آپ کے اطمینان خاطر کے لیے ہوگی۔ورنہ جس طرح میں کل ان تمام نظریات ومواقف کودرست تصور کرتا تھا،آج بھی ویسا ہی تصور کرتا ہوں۔ ان سے دست بردار نہیں ہوسکتا‘‘۔میں نے کہا کہ پھر صرف میرے اطمینان کے لیے اس تکلف کی کیا ضرورت ہے؟

مولانا کی خوبی (اور اسی کے ساتھ خامی !)یہ تھی کہ وہ نہایت سنجیدگی اور متانت سے معترض کے اعتراضات کوسنتےاور اپنے نقطہ نظرکی بھرپور طور پر تفہیم کی کوشش کرتے تھے ۔ معترض کی درشت کلامی اور طنز وتشنیع پر بھی قطعاً مشتعل نہیں ہوتےلیکن اس تفہیم پرواقع ہونے والے نہایت وزنی اشکالات واعتراضات کوبالکل خاطر میں نہیں لاتے اورخاموش ہوجاتے یا موضوع گفتگو بدل دیتے تھے۔

مولانا اور ہندوستانی مسلمان: کس نے کیا کھویا اور کیا پایا؟

ہمیں اس پہلوپرغور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ مولانا اور امت مسلمہ کے درمیان جو کشمکش پیدا ہوئی جس کے نتیجے میں دونوں نے ایک دوسرے کوتقریبا مسترد کردیا، اس کا نقصان کس کے حق میں کیا ہوا؟میرا خیال ہے کہ مولانا اورہندوستانی مسلمان دونوں اس نقصان میں برابر کے شریک ہیں۔مولانااور ان کی ایک مثبت نتیجہ خیزفکری تحریک کویہ خسارہ برداشت کرنا پڑا کہ وہ صرف ایک طبقے تک سمٹ کررہ گئی۔ مولانا کی فکر وقت کی آواز تھی ۔ اس کے اسلوب پیش کش میں قوت وتوانائی تھی جس نے اول وہلے میں ہی اہل علم کومتاثر کیا اور مولانا علمی وفکری دنیا میں اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہوگئے لیکن خاص طور پر ملی معاملات میں اپنی’’غیر معتدل‘‘ آرا وبیانات سے خود کواس حدتک متنازعہ بنالیا کہ عوام وخواص کی اکثریت کی نگاہ میں ان کی فکرکی معنویت وافادیت مشتبہ ہوکررہ گئی۔مولانا کی نہایت تعمیری سوچ بھی لوگوں کوتخریبی نظرآنے لگی۔ان کے اعلی اور قیمتی افکار وخدمات پس منظر میں چلے گئیں۔ اور ان کے کمزور اور متنازعہ فیہ بیانات واقوال لوگوں کو ذہنوں پر چھا گئے۔

میں سمجھتا ہوں کہ مولانا اور ہندوستانی مسلمان، جن میں عوام وخواص دونوں شامل ہیں، نے ایک دوسرے کوسمجھنے میں شدید غلطی کی۔ مولانا سمجھتے تھے کہ پوری ملت یا امت کا فکری شاکلہ (یہ مولانا کی خاص اصطلاح ہے) بگڑگیا ہے۔ اس کی تشکیل نو کی ضرورت ہے۔ لیکن اس تشکیل نوکے کے عمل میں مولانا نے توڑنے اور ڈھانے پرتوجہ زیادہ مرکوز رکھی اور تعمیر پر کم۔کیوں کہ تعمیر ی عمل تدریج اور حکمت عملی چاہتا ہے۔ اپنے مدعویا مخاطب کو آخری حدتک مشتعل اور متنفر کرکے مقصود کوحاصل کرنے کی پالیسی خود مولانا کےاصل الاصول سے ٹکراتی ہے جس کے وہ زندگی بھر مبلغ رہے۔ایک پیغمبر اور داعی اپنی قوم کوسب سے پہلے یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ میں تمہارا خیرخواہ ہوں اور اس سے آخری حد تک قربت ومفاہمت کی راہیں تلاش کرتا ہے تاکہ اس کی آواز سنی جاسکے اور اس کے پیغام پر کان دھراجاسکے۔ افسوس مولانا اس پہلو پرزیادہ غور نہیں کرسکے۔

مولانا سے نفرت اور دوری کے نتیجے میں ملت کا جونقصان ہوا وہ بھی کم نہیں ہے۔اس وقت مسلمانوں کے خلاف ملک میں نفرت وعداوت کی جوآندھی چل رہی ہے اورجس سے مسلمانوں کا ملی وسیاسی وجود ہچکولے کھاتا نظر آتا ہے، اس کا پیشگی احساس وادراک کرنے والوں میں مولانا سرفہرست تھے۔میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ہندو فسطائی تنظیموں کے ساتھ مولانا کے قریبی روابط سے ملت میں جوبھی غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہوں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ مسلمانوں کے خلاف نفرت وعداوت کی پنپتی فضا پر پیش بندی کی ایک کوشش تھی۔اس تعلق سے ان کا ذہن مولانا حسین احمد مدنی ؒ سے متاثر تھا اور وہ ان کے بڑے مداح تھے۔مولانا کی شخصیت اس لحاظ سے ہندوستان کی واحد شخصیت تھی جسے فریق مخالف کا مکمل اعتماد حاصل تھا۔ہندوستانی مسلمانوں سے متعلق امورومعاملات میں بی جے پی کے قائدین اور پالیسی ساز ان سے مشورے کرتے اور ان کی راے کواہمیت دیتے تھے۔

ایک واقعہ مجھے یاد آتا ہے جومولانا نے مجھے بتایا تھا۔۱۹۹۹ میں قندھار طیارہ اغوامعاملہ پیش آیا۔ اغوا کاروں سےہندوستانی حکومت کے اہل کاروں کی گفت وشنید سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ وہ ’’دیوبند‘‘ سےگہری عقیدت رکھتے ہیں اور وہاں کی زیارت کے خواہش مند ہیں۔اس واقعے کے بعد بی جے پی نمائندوں کا ایک وفد مولانا کے پاس حاضر ہوا اوراغوا کاروں کی دار العلوم دیوبندسے فکری مناسبت وہم آہنگی کی حقیقت جاننی چاہی۔ مولانا نے فرمایا کہ :’’میں توخود دیوبندی ہوں‘‘۔ اور پھر انہیں سمجھایا کہ دیوبندیت بریلویت صرف ایک مذہبی گروہی شناخت سے عبارت ہے ۔ انتہاپسندی اور دہشت گردی کے واقعات سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

جاری ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ الشرعیہ

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply