رواداری کی لاش سے اُٹھتا تعفن۔۔۔راشد احمد

ہمارے ساتھ پرائمری سے لے کر میٹرک تک ہندو برادری کے لوگ پڑھتے رہے۔پڑھانے والے اساتذہ میں بھی ہندو استاد تھے,لیکن کبھی اشارے کنا ئے میں بھی توہین تو دور بے ادبی کی کوئی بات بھی کبھی نہیں ہوئی۔ہندو طلبہ کے لئے اسلامیات کی جگہ “اخلاقیات” کا مضمون تھا لیکن وہ بے چارے ہمارے ساتھ اسلامیات پڑھتے تھے۔ایک دفعہ اسکول کو دورہ پڑا کہ صبح کا آغاز چھ کلموں کی دہرائی سے ہوگا۔ہم سے پہلے یہ چھ کلمے ہندو طلبہ کو یاد ہوئے تھے کیونکہ لائق فائق تھے۔
ان میں سے بعض کے ساتھ ابھی تک یاد اللہ ہے۔ملنا ملانا ہو تو اکٹھے کھاتے پیتے ہیں۔نہ کبھی انہوں نے کسی قسم کی تفریق روا رکھی نہ ہمیں کبھی ایسا محسوس ہوا کہ یہ دشمن ہیں یا بے ادبی کرتے ہیں۔سان گمان میں بھی کبھی نہیں آیا۔ہمارے گاؤں میں ہندوؤں کے کافی گھرانے آباد ہیں۔ان کے ہاں کبھی مسلمان مہمان آجاتا تو مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ سالم مرغا اور چھری اٹھائے ہماری طرف آجاتے کہ یار یہ ذبح کردیں، مہمان آئے ہیں۔جو لوگ مہمانوں کا اتنا خیال رکھتے انہیں نبی رحمت کے نام پہ تہہ تیغ کرنا شدید قسم کی بدبختی نہیں تو اور کیا ہے؟
اساتذہ میں سے بعدازاں ہمارے دوست بننے والوں میں بھی ایک استاد محترم کا تعلق ہندو کمیونٹی سے ہے,لیکن ان سے نشست و برخاست میں کبھی محسوس ہی نہیں ہوا، ہم اور ان میں کوئی فرق ہے۔ہمیشہ پیار سے ملتے ہیں,اسکول ملنے جاتا تھا تو اسٹاف روم میں بٹھاتے,چائے پلاتے اور گپ شپ کرتے۔صرف اسی پہ اکتفا نہیں رواداری اور محبت کا یہ عالم تھا کہ مذکورہ استاد کاکھانا ایک مقامی استاد کے گھر سے آتا۔چونکہ ان کا گھر دور تھا اس لئے اسکول میں ہی ٹھکانہ کیا ہوا تھا۔
ایک طرف ایسا دلنشیں ماحول اور دوسری طرف گھوٹکی جیسے واقعات,لیکن حقیقت یہی ہے کہ سندھ کے ہندوؤں کے ساتھ باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ غیر انسانی اور ظالمانہ سلوک ہورہا ہے۔ہمارے چھوٹے سے شہر میں میرے بچپن میں ہندو سیٹھ کو محض اسی لئے قتل کردیا گیا کیونکہ ان کا قرض واپس کرنے کی سکت نہیں تھی گروی قاتلاں کے پاس۔ایک ایک کرکے اس شہر سے تمام ہندو تاجروں نے واپسی کی راہ لی اور اب اس شہر میں اُلّو بولتے ہیں۔اُلّوبھی کیا بولنے آوارہ کتے پھرتے رہتے ہیں۔
اسی فیس بک پہ ہمارے بہت سے دوست ہندو برادری سے تعلق رکھتے ہیں لیکن یہ ہمیں عید سے لے کر عیدمیلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم تک ہر مذہبی تہوار کی مبارک باد دے رہے ہوتے ہیں۔دوستو ہمارے پاس اس کے جواب میں سوائے شرمندگی کے کچھ نہیں۔
سندھ کی روایتی رواداری اور صوفیانہ روایت آخری سانسیں لی رہی ہے,بلکہ سانس تو کب کی رک چکی اب تو لاش سے تعفن اٹھ رہا ہے۔وہ پستی ہے کہ الامان۔

Facebook Comments

راشداحمد
صحرا نشیں فقیر۔ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply