بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے۔۔۔۔۔بنت شفیق

کمیونزم کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام شروع کیا گیا کبھی مسجدیں گرائی جاتیں تو کبھی کتاب اللہ کی بے حرمتی کی جانے لگی کبھی اللہ تعالیٰ کا مذاق اڑایا جانے لگا مسلمانوں کو روندتے روندتے گرم پانیوں پر تسلط کی خاطر آج سے تقریباً انتالیس برس قبل 27 دسمبر 1979ء کو سابق سویت یونین کے سرخ ریچھ افغانستان پہنچ گئے پوری دنیا پر حکمرانی کے خواب دیکھنے والوں کو افغانیوں نے ایسا رگڑا لگایا کہ ایک نئی تاریخ رقم کر دی بغیر اسلحے کے بے سروسامانی کے عالم میں پتھروں اور ڈنڈوں سے جدید اسلحے کا مقابلہ کر کے افغانستان میں روسیوں کا قبرستان بنا دیا گیا دس سال کی لڑائی کے بعد جب کچھ ہاتھ نہ آیا تو آخر کار اپنی فوجیں نکالنا پڑیں روسی فوج کا جنرل بورس گروموف وہ آخری اعلیٰ افسر تھا جس نے افغانستان سے نکلتے ہوئے ایک حسرت بھری نگاہ دریا کے اس پار ڈالتے ہوئے کہا تھا بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے
چاہئے تو یہ تھا کہ امریکہ اور باقی ممالک روس کی عبرت ناک شکست سے سبق سیکھتے ہوئے کبھی بھی افغانستان کا رخ نہ کرتے لیکن امریکہ اپنے سپرپاور ہونے کے نشے میں دھت ہو کے آیا ایک نام نہاد واقعے نائن الیون کو بنیاد بنا کے لیکن اس کا حال بھی روس سے مختلف نہ ہوا روس کے بعد امریکی فوجیوں کا قبرستان افغانستان میں بننا شروع ہوا ایک وقت ایسا بھی آیا کہ امریکہ کی فوج میں اپاہج لوگوں کو بھی بھرتی کیا جانے لگا امریکی ریسرچ کے مطابق امریکہ کے لوگ اپنی کامیابی کی خاطر خواہ امید نہیں رکھتے تھے جیسا کہ
ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﺳﺮﻭﮮ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﻣﯿﮟ17 ﺳﺎﻝ بعد انکشاف ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻣﺮﯾﮑﺎ ﺍﻓﻐﺎﻧﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﻣﻄﻠﻮﺑﮧ ﻧﺘﺎﺋﺞ ﺣﺎﺻﻞﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﺎﮐﺎﻡ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ۔ﻋﺎﻟﻤﯽ ﺳﺮﻭﮮ ﮐﮯ ﻋﺎﻟﻤﯽ ﺍﺩﺍﺭﮮ ﭘﯿﻮ ﺭﯾﺴﺮﭺ ﺳﯿﻨﭩﺮ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮑﺸﺎﻑ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﺮ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﺷﮩﺮﯼﯾﮧ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻣﺮﯾﮑﺎ ﺍﻓﻐﺎﻧﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺟﻨﮓ ﮨﺎﺭ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭاﻣﺮﯾﮑﯽ ﺍﻓﻮﺍﺝ ﺍﭘﻨﮯ ﺩعوٗوں ﮐﮯ ﺑﺮﻋﮑﺲ ﺧﺎﻃﺮ ﺧﻮﺍﮦ ﻧﺘﺎﺋﺞ ﺣﺎﺻﻞﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﺎﮐﺎﻡ ﺭہیں۔ﭘﯿﻮﺭﯾﺴﺮﭺ ﺳﯿﻨﭩﺮ ﻧﮯ ﺍﻓﻐﺎﻧﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ 17 سال ﺳﮯ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﻓﻮﺝ ﮐﯽﮐﺎﺭﮐﺮﺩﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﻧﺘﺎﺋﺞ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﻣﺮﯾﮑﺎ ﮐﯽ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺭﯾﺎﺳﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺷﮩﺮﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﺭﺍﺋﮯ ﺟﺎﻧﯽ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺣﯿﺮﺕ ﺍﻧﮕﯿﺰ ﻧﺘﺎﺋﺞ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ۔
49 فیصدﺳﺮﻭﮮ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺷﮩﺮﯼ ﺍﻓﻐﺎﻧﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﺟﻨﮓ
ﮐﻮ ﻧﺎﮐﺎﻡ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﺒﮑﮧ 16ﻓﯿﺼﺪ ﺷﮩﺮﯾﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺭﺍﺋﮯ ﻧﮩﯿﮟ 35 ﻓﯿﺼﺪ ﺷﮩﺮﯼ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽﺟﻨﮓ ﮐﻮ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯہﯿﮟ۔ﺍﻓﻐﺎﻧﺴﺘﺎﻥ ﭘﺮ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﺣﻤﻠﮯ ﮐﮯﺻﺤﯿﺢ ﯾﺎ ﻏﻠﻂ ﮨﻮﻧﮯ ﭘﺮ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﻗﻮﻡﻣﮑﻤﻞ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺗﺬﺑﺬﺏ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺗﺒﺪﯾﻠﯽ ﭨﺮﻣﭗ ﺍﻧﺘﻈﺎﻣﯿﮧ ﮐﯽﭘﺎﻟﯿﺴﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺁﺋﯽ ﮨﮯ2006 میں ﻭﺍﺿﺢ ﺭﮨﮯ ﮐﮧ 60 ﻓﯿﺼﺪ ﺷﮩﺮﯼ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﺍﻓﻮﺍﺝ ﮐﯽﺍﻓﻐﺎﻧﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯽ ﭘﺮ ﯾﻘﯿﻦ رکھتے ہیں ﺟﺒﮑﮧ 83 فیصد کی یہ رائے تھ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺍﻓﻐﺎﻧﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽﻓﻮﺝ ﮐﺎ ﮨﻮﻧﺎ ﻏﻠﻂ ﻓﯿﺼﻠﮧ تھا اسی ﻃﺮﺡ 2002 میں 20 فیصدﺍﻣﺮﯾﮑﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺭﺍﺋﮯ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﻓﻮﺝ ﮐﺎ ﺍﻓﻐﺎﻧﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﻃﺎﻟﺒﺎﻥ ﮐے ﺧﻼﻑ ﮐﺮﯾﮏ ڈﺍﺅﻥ ﺩﺭﺳﺖ ﻓﯿﺼﻠﮧ
ﮨﮯ
یہ تھے امریکی ریسرچ کے انکشافات۔۔۔۔۔ دوسری طرف رواں سال کے آغاز میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے کچھ عرصہ بعد اپنی اپنی ایک ٹوئیٹ میں پاکستان پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے کہا کہ پندرہ سال میں امریکہ نے پاکستان کو 33 ارب ڈالر کی امداد دے کر بے وقوفی کی ہے اربوں ڈالر کی امداد کے بدلے اسلام آباد نے ہمیں جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا۔۔۔۔۔ پاکستان ہم سے معمولی سا ہی تعاون کرتا رہا ہے
پتھروں سے شروع ہونے والی یہ جنگ اسلحے تک پہنچ گئی اور اسے وار آن ٹیرر کا نام دیا گیا ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نائن الیون کے بعد اسامہ بن لادن کو مجرم سمجھ کے شروع کی جانے والی جنگ ایبٹ آباد آپریشن کے بعد ختم کر دی جاتی اور امریکہ اپنی تمام فوجیں افغانستان سے نکال لیتا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا شام عراق کی طرح وہ افغانستان میں ٹھکانے بنا کے پاکستان کو تباہ کرنا چاہتا تھا لیکن آئی ایس آئی کی قربانیوں کی بدولت امریکہ اپنی تمام سازشوں اور مکاریوں میں ناکام ہونے کے بعد اسی سال کے اختتام پر اپنے ٹوئیٹ پیغام میں وزیراعظم پاکستان کو طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کو کہہ رہا ہے۔۔۔۔۔۔ جبکہ پاکستان کے داخلی سیاسی عدم استحکام کے خارجی اسباب ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو شام لیبیا اور اعراق جیسی خانہ جنگی سے بچانے کے لیے سیاسی وعسکری قیادت کو افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء اور پاکستان کے کردار سے متعلق انتہائی دانشمندانہ اور سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہئے تاکہ کسی بھی خانہ جنگی کی صورت پاکستان پر کسی قسم کا الزام عائد نہ ہو۔اللہ ملک پاکستان کی حفاظت فرمائے آمین

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply