• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • خلافت سے کربلا تک : حضرت علی علیہ السلام کا بحیثیت خلیفہ انتخاب۔۔۔۔حسنات محمود/آٹھویں قسط

خلافت سے کربلا تک : حضرت علی علیہ السلام کا بحیثیت خلیفہ انتخاب۔۔۔۔حسنات محمود/آٹھویں قسط

حضرت عثمان رضی الله عنہ کی شہادت کے بعد حضرت علی رضی الله عنہ خلیفہ منتخب ہوۓ – ان کے انتخاب میں بھی اسلام کے عطا کردہ تمام ضوابطِ سیاست کو ملحوظ رکھا گیا – ان کے  انتخاب کی تفصیل کچھ یوں ہے :

امام احمد بن حنبل نےفضائل صحابہ میں صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے:

عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ الْحَنَفِيَّةِ قَالَ: كُنْتُ مَعَ عَلِيٍّ، وَعُثْمَانُ مَحْصُورٌ، قَالَ: فَأَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ: إِنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَقْتُولٌ، ثُمَّ جَاءَ آخَرُ فَقَالَ: إِنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَقْتُولٌ السَّاعَةَ، قَالَ: فَقَامَ عَلِيٌّ، قَالَ مُحَمَّدٌ: فَأَخَذْتُ بِوَسَطِهِ تَخَوُّفًا عَلَيْهِ، فَقَالَ: خَلِّ لَا أُمَّ لَكَ، قَالَ: فَأَتَى عَلِيٌّ الدَّارَ، وَقَدْ قُتِلَ الرَّجُلُ، فَأَتَى دَارَهُ فَدَخَلَهَا، وَأَغْلَقَ عَلَيْهِ بَابَهُ، فَأَتَاهُ النَّاسُ فَضَرَبُوا عَلَيْهِ الْبَابَ، فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَقَالُوا: إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ قَدْ قُتِلَ وَلَا بُدَّ لِلنَّاسِ مِنْ خَلِيفَةٍ، وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا أَحَقَّ بِهَا مِنْكَ، فَقَالَ لَهُمْ عَلِيٌّ: ” لَا تُرِيدُونِي، فَإِنِّي لَكُمْ وَزِيرٌ خَيْرٌ مِنِّي لَكُمْ أَمِيرٌ، فَقَالُوا: لَا وَاللَّهِ مَا نَعْلَمُ أَحَدًا أَحَقَّ بِهَا مِنْكَ، قَالَ: فَإِنْ أَبَيْتُمْ عَلَيَّ فَإِنَّ بَيْعَتِي لَا تَكُونُ سِرًّا، وَلَكِنْ أَخْرُجُ إِلَى الْمَسْجِدِ فَمَنْ شَاءَ أَنْ يُبَايِعَنِي بَايَعَنِي، قَالَ: فَخَرَجَ إِلَى الْمَسْجِدِ فَبَايَعَهُ النَّاسُ.

حضرت محمد بن حنفیہ رحمتہ الله علیہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت عثمان رضی الله عنہ محصور تھے میں حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ موجود تھا- اتنے میں ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ امیر المومنین شہید ہو گئے ہیں – اس کے بعد ایک اور آدمی آیا اور کہنے لگا کہ امیر المومنین ابھی  ابھی شہید ہو کر دیے گئے ہیں – حضرت علی رضی الله عنہ یہ سن کے کھڑے ہوۓ – محمد بن حنفیہ کہتے ہیں کہ میں نے ان کو کمر سے پکڑ کر روکا ، مجھے ڈر تھا کہ ان کو کوئی نقصان نہ ہو – مجھے حضرت علی نے کہا “تمہاری ماں مر جائے ، مجھے چھوڑو ! ” اور انہوں نے جاکے دیکھا کہ حضرت عثمان رضی الله عنہ شہید ہو چکے تھے – پھر حضرت علی رضی الله عنہ نے اپنے گھر کے اندرجاکے خود کو بند کرلیا-  لوگوں نے دستک دےکر دروازہ کھلوایا اور  کہا ” یہ تو شہید  ہو گئے، اور خلیفہ کے بغیر لوگوں کا گزرممکن نہیں، اورہم آپ سے زیادہ کسی کو اس کے قابل نہیں پاتے” اس پر حضرت علی نے ان سے کہا:” کیا تم اس کو بہتر نہیں سمجھتے کہ میں تمہارا وزیر بنوں، اور مجھ سے بہتر تمہارا امیر ہو؟” تو لوگوں نے کہا “نہیں، ہم آپ سے زیادہ کسی کو اس کے قابل نہیں جانتے” حضرت علی نےکہا “ٹھیک ہے، اگرتم میری بیعت کرنا چاہتے ہوتو یہ خفیہ نہیں ہوگی بلکہ سب کےسامنے مسجد نبوی میں ہوگی جو چاہے میری بیعت کر لے-” پھر آپ مسجد میں آئے اورلوگوں نے آپ کی بیعت کی_

(فضائل صحابہ از احمد بن حنبل، باب فضائل علی، حدیث نمبر   ٩٦٩، سندہ صحیح)

مصنف ابی شیبہ کی روایت ہے:

”  طَلْحَةَ وَالزُّبَيْرَ وَالْقَوْمَ بَايَعُوا عَلِيًّا طَائِعِينَ غَيْرَ مُكْرَهِينَ ”

” کہ حضرت طلحہ و زبیر نے حضرت علی کی بعیت اپنی رضامندی سےبغیر کسی کراہت کے کی-”

(مصنف ابن  ابی شیبہ ، حدیث نمبر  ٣٧٧٠٩)

تاریخ طبری کی صحیح اور ضعیف روایات کو الگ الگ کرنے والے علامہ کا بورڈ اپنے تبصرے میں لکھتا ہے:

“صحیح روایات سے ثابت ہے کہ صحابہ اور تابعین حضرت علی کی بیعت کی طرف دوڑے ٹھیک اسی دن جس دن حضرت عثمان قتل کیے گئے، اورجواس دن نہ کر سکے انہوں نے دوسرے دن کر لی، اوران کی بیعت مسجد نبوی میں ہوئی اور اس میں لوگوں میں کوئی اختلاف نہیں تھا”

مزید لکھتے ہیں کہ :

“حضرت طلحہ اور زبیر کی بعیت صحیح روایات سے ثابت ہے، اور اس کے مخالف روایات جھوٹی ہیں، انہوں نے لوگوں کو حضرت علی کی بیعت کی طرف رغبت دلائی، اورخوداپنی خوشی سے لوگوں سے پہلے کی”

خلاصہ کلام میں لکھتے ہیں:

“الغرض اہل حل وعقد، اورصحابہ جو اس وقت مدینہ میں موجود تھے سب نے آپ کی بیعت کی”

آخر میں لکھتے ہیں

” آپ کی بیعت کرنے والوں میں حضرت طلحہ، زبیر، سعد بن ابی وقاص، عمار بن ییاسر، سعید بن زید، اسامہ بن زید، ابوایوب انصاری، زید بن ثابت اور ان کےعلاوہ جتنے اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم ورضی الله عنہم مدینہ میں موجود تھے سب شامل تھے”

(صحیح تاریخ طبری، جلد ٣، صفحہ نمبر ٣٧٣)

اسی بات کی تصریح ابن سعد، امام اشعری،امام احمد بن حنبل، امام سلیمان بن طرخان اور حضرت حسن بصری نے کی ہے-

(صحیح تاریخ طبری، جلد ٣، صفحہ نمبر ٣٧٦)

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

حسنات محمود
سائنس و تاریخ شوق، مذہب و فلسفہ ضرورت-

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply