کیا اس زمین پر کوئی ہے؟۔۔۔۔ایم بلال ایم

بھلے زمانوں کی بات ہے کہ ایک پاکستانی الیکٹریکل انجینئر مدینہ منورہ گیا۔ وہیں روزگار سے وابستہ ہوا اور زندگی کے چالیس سال حرم مدنی کی خدمت میں گزار دیئے۔ اس دوران پائی پائی جمع کر کے پاکستان کے شہر گوجرانوالہ میں ایک پلاٹ خریدا تاکہ اپنا گھر بنا سکے۔ ہر انسان کی طرح اُس نے بھی کئی خواب دیکھے ہوں گے۔ مگر خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ کئی امتحانات اُس کی راہ تک رہے تھے۔ جن میں سے ایک یہ تھا کہ بیٹی جیسی رحمت ملی لیکن پیدائشی معذور۔ باپ تو پھر باپ تھا اور بیٹی کی سانسوں کی ڈوری نہ ٹوٹنے پائے پر اُس نے جان لڑا دی اور ستائیس سال سے دنیا و ما فیہا سے بے خبر بیٹی کی خدمت(دیکھ بھال) کرتا چلا آ رہا ہے۔ اس دوران اللہ نے بیٹوں اور دیگر بیٹیوں سے بھی نوازا۔ اولاد جوان ہو گئی مگر گھر نہ بن سکا۔ اُس نے سوچا کہ چلو پلاٹ فروخت کر کے بیٹیوں کی شادی کرتا ہوں۔ کیونکہ اس پلاٹ کی قیمت اتنی ہو چکی تھی کہ اُن پیسوں سے سارے معاملات بآسانی چل سکتے تھے۔ اِدھر ابھی وہ یہ سوچ رہا تھا اور اُدھر ایک اور امتحان نے اسے آ لیا۔ پلاٹ کے پڑوسی نے انجینئر کے بیرون ملک مقیم ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اُس کے پلاٹ پر قبضہ کر لیا، اُلٹا انجینئر کو قتل کی دھمکیاں دینے لگا۔ معاملہ عدالت میں پہنچا اور کیس چلنے لگا۔ پیشیوں وغیرہ کے چکر میں پلاٹ کا اصل مالک یعنی وہ انجینئر مدینہ سے لاہور اور لاہور سے مدینہ کے درمیان شٹل بن کر رہ گیا۔ کام کاج متاثر ہونے لگا۔ شدید ذیابیطس اور دل کا مریض بن گیا۔ ایک دفعہ ہارٹ اٹیک کا بھی سامنا ہوا۔ بچے لاوارث سے ہو گئے۔ ایک طرف جمع پونجی عدالتی کاروائیوں پر لگنے لگی تو دوسری طرف ایک اور بڑا امتحان منہ کھولے سامنے آ گیا۔ اس کے بڑے بیٹے کو گردوں کا ایسا مسئلہ ہوا کہ علاج معالجے پر بھاری رقم خرچ ہونے لگی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ساری جمع پونجی علاج کی نذر ہو گئی۔ ایک باپ بے بس ہونے لگا۔ حالات ایسے ہو گئے کہ پلاٹ فروخت کرنا ناگزیر تھا۔ مگر فروخت تو تب ہو کہ جب قابض سے واگزار ہو۔

یہ آپ کو کوئی فرضی داستان یا قصہ کہانی نہیں سنا رہا۔ یہ حقیقت ہے اور ہمارے معاشرے کے ایک فرد محمد اقبال مدنی کی زندگی اور اُن کی بے بسی کا بھیانک سچ ہے۔ جسے وہ اپنے سینے میں چھپائے چل پھر رہے ہیں۔ اقبال صاحب کو دیکھ کر میں حیران ہوتا ہوں، کیونکہ ان پر اس قدر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹے ہوئے ہیں لیکن وہ صبر و حوصلہ اور زندہ دلی کی ایسی مثال ہیں کہ کچھ نہ پوچھیں۔ اس سے پہلے کہ ان کا صبر جواب دے جائے اور وہ تھک جائیں، مجھے یہ سب کہنا ہے اور کھل کر کہنا ہے۔ اقبال صاحب معذرت چاہتا ہوں، لیکن مجھے کہنے دیں اور دنیا کو بتانے دیں کہ آج اقبال صاحب پر وہ وقت ہے کہ پائی پائی کے محتاج ہو چکے ہیں اور بال بال قرضوں میں جکڑ چکا ہے۔ بیٹیوں کی شادی کی عمر نکل رہی ہے، بیٹا ہسپتال میں زندگی و موت کی کشمکش میں پڑا ہے اور ہفتے میں اس کے تین ڈائیلسز ہوتے ہیں۔ لمحہ لمحہ زندگی کی ایک بوند کو ترستے اس خاندان پر ایک طرف یہ ساری مصیبتیں تو دوسری طرف پلاٹ کا قبضہ چھڑوانے کے لئے عدالت میں سالہاسال سے تاریخ پر تاریخ چلے جا رہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تحریر پڑھنے والے سوچ رہے ہوں گے کہ ہمیں یہ سب باتیں کیوں بتا رہا ہے اور ہم بھلا کیا کر سکتے ہیں؟ بتا سنا اس لئے رہا ہوں کہ کیا اس زمین پر کوئی ایک بھی خدا کا ایسا بندہ نہیں جو اس لاچار باپ کی مدد کر سکے؟ کیا ایک بھی صاحبِ حیثیت نہیں جو اس دکھی انسان کو انصاف دلا سکے اور اس کا پلاٹ واگزار کروا سکے؟ تاکہ وہ اِدھر اُدھر سے مالی مدد لینے کی بجائے اپنا پلاٹ فروخت کر کے اپنی زندگی کی گاڑی آگے بڑھا سکے۔ اپنا قرض اتار سکے۔ اپنے بیٹے کا علاج اور بیٹیوں کی شادی کر سکے۔ بڑی بڑی حکومتوں کو چیلنج کرنے والو! انسانیت کو جینے کے طریقے سکھانے والو! انسانیت سسک رہی ہے، کچھ اِدھر بھی دھیان کرو۔ انصاف کے رکھوالو! لوگ انصاف کو ترس رہے ہیں، کچھ نظر کرم اِدھر بھی ہو۔ وکیل، جج، جرنیل، کرنیل، پولیس، صحافی اور اے عظیم دانشورو! کوئی تو اس دکھی باپ کی فریاد سنو۔ ایک دو ٹکے کا غنڈہ پلاٹ پر قابض ہے، اے بڑے بڑے طاقتور عہدوں پر براجمان ہونے والو! کیا تم میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں کہ جو بدمعاش کو نکیل ڈال سکے اور مظلوم کی مدد کر سکے؟ وزیر اعظم پاکستان اور چیف جسٹس صاحب! یقیناً آپ کے لئے یہ معمولی معاملہ ہو گا لیکن ذرا خود پر لا کر فرض کرو کہ اس بے بس و لاچار باپ کی جگہ آپ ہوں تو پھر یہ کتنا بڑا مسئلہ ہے۔ یہ تحریر پڑھنے والو! اللہ آپ کو ہر مشکل سے بچائے اور قدم قدم آسانیاں پیدا کرے، لیکن جب یہ سوچو گے کہ اقبال صاحب کی جگہ ہم ہوں تو رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔ برائے مہربانی اقبال صاحب کو انصاف دلانے میں اُن کی مدد کرو۔ میں جانتا ہوں کہ ہر کوئی اپنی اپنی زندگی اور کئی مسائل میں الجھا ہوا ہے، لیکن خدا کے لئے اپنی مصروف زندگی سے تھوڑا سا وقت نکالو، ذاتی دلچسپی لو۔ اگر آپ کچھ کر سکتے ہیں، معمولی سے معمولی بھی کچھ کر سکنے کی طاقت رکھتے ہیں تو برائے مہربانی کچھ کیجئے۔ اپنے عہدوں، سماجی روابط اور طاقت وغیرہ کو تھوڑا سا بروئے کار لائیں اور مظلوم کو انصاف دلائیں۔
اقبال صاحب کی پروفائل کا لنک یہ ہے، تاکہ اگر کوئی اُن سے براہ راست رابطہ کرنا چاہے تو ممکن ہو سکے۔

Facebook Comments

ایم بلال ایم
ایم بلال ایم ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے اردو بلاگنگ کی بنیاد رکھی۔ آپ بیک وقت اک آئی ٹی ماہر، فوٹوگرافر، سیاح، کاروباری، کاشتکار، بلاگر اور ویب ماسٹر ہیں۔ آپ کا بنایا ہوا اردو سافٹ وئیر(پاک اردو انسٹالر) اک تحفہ ثابت ہوا۔ مکالمہ کی موجودہ سائیٹ بھی بلال نے بنائی ہے۔ www.mBILALm.com

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply