صور پھونک ۔۔۔ معاذ بن محمود

“ماما آپ رو کیوں رہی ہیں؟ اور بابا کیوں اداس خاموش بیٹھے ہیں؟ یہ آپ دونوں کی آنکھیں کیوں سوجی ہیں؟”

اس نے سوال کیا مگر جواب نہ ملا۔ 

پچھلے کئی گھنٹوں سے جو کچھ ہو رہا تھا اس کی سمجھ سے باہر تھا۔ اس میں اس کی سمجھ کا کوئی قصور نہ تھا۔ سات سال کے بچے سے زیادہ سمجھ کی امید لگانا بذات خود ایک سوال ہے۔ اس کی بصارت سے رنگ ختم ہوچکے تھے۔ دنیا دو رنگی سفید و سیاہ میں ڈھل چکی تھی۔ مٹی کا ایک ڈھیر تھا جہاں اس نے خود کو پایا۔ یہ جگہ دیکھی بھالی تھی۔ گھر سے کوئی ایک میل دور۔ وہ اکثر اپنے بابا کے ساتھ وہاں سے گزرا کرتا۔ سنسان میدان جہاں سے ہمیشہ اگربتی کی مہک آیا کرتی۔

اس کی یادداشت بھی کچھ بکھری بکھری سی تھی۔ جیسے رات کو اس کا کمرہ اندھیر میں ڈوبا ہوتا۔ پھر کچھ وقت لگتا اور اس کی نظریں آہستہ آہستہ کچھ حد تک کام کرنا شروع کر دیتیں۔ اس کا ذہن بھی اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس نے ذہن پر خوب زور دیا تو کچھ لمحے تصویروں کی طرح سامنے آنے لگے۔ 

کارڈ۔ برتھ ڈے کارڈ۔ جو اس نے خود بنایا تھا۔ 

“ہیپی برتھ ڈے ماما”

اسے یاد آیا۔ آج اس کی ماما کی برتھ ڈے تھی۔ اس نے خوب تیاری کی تھی۔ روزانہ کا جیب خرچ کئی ہفتوں سے بچا کر ماں کے لیے گفٹ خریدا تھا۔

“ماما کس قدر خوش ہوں گی یہ گفٹ دیکھ کر”

چند اور تصویریں ذہن میں آئیں۔ رنگ برنگی تصویریں۔ اس کا کمرہ۔ برتھ ڈے کارڈ۔ کلر پینسلز۔ مارکر۔ 

“ماما کل ہم آپ کی برتھ ڈے منائیں گے ناں۔ کل سکول کی چھٹی کروا دیں ناں پلیز”

اسے مزید یاد آنے لگا۔ اسے یاد آیا کہ وہ سکول سے ایک دن کی چھٹی کو لے کر ضد کر رہا تھا۔ 

“نعمان، سکول پر نو کمپرومائز۔ ہم شام کو برتھ ڈے منائیں گے”

اسے یاد آرہا تھا۔ اس کا موڈ خراب تھا مگر ماما کو ناراض کر کے برتھ ڈے کیسے منا سکتا تھا۔

اسے یاد ہے۔ ماما نے اس رات اس کے ماتھے پر بوسہ دیا تھا۔ عام طور پر وہ صرف شب بخیر کہا کرتیں مگر اس رات شاید انہیں خوب پیار آیا تھا۔ ماما کمرے کی لائٹ آف کر کے باہر نکل رہی تھیں کہ واپس پلٹیں اور واپس آکر اس کا ماتھا چوم کر چلی گئیں۔ 

یہ یادیں رنگین تھیں۔ اس وقت نظر آنے والی بے رنگ دنیا کی طرح ہرگز نہیں۔ 

اسے مزید یاد آیا۔ 

صبح اٹھتے ہی اس نے ماما سے لپٹ کر انہیں برتھ ڈے وِش کی۔ 

“ہیپی برتھ ڈے ماما۔ آپ دنیا کی سب سے اچھی ماما ہیں” 

ماں نے تھینک یو بیٹا جانی کہہ کر اس کا بستہ تیار کرنا شروع کیا۔

اس کے بعد وہ برش کرنے چلا گیا۔ فریش ہوکر واپس آیا، ماما کے ساتھ بیٹھ کر ناشتہ کرتے ہوئے اس نے اپنے ہاتھ سے بنایا ہوا کم برتھ ڈے کارڈ ماما کو دیا۔ 

“ماما۔۔ آئی ہیو اے سرپرائز گفٹ فار یو۔ کیک کاٹیں گی تو دوں گا”

وہ مٹی کے ڈھیر سے بلیک اینڈ وائٹ ماحول سے گزرتا ہوا گھر کی جانب چل پڑا۔ اسے اس مقام سے گھر کا راستہ معلوم تھا۔

“جانے سارے رنگ کہاں چلے گئے”

وہ سوچتا رہا اور چلتا رہا۔ گھر کے باہر کئی لوگ موجود تھے۔ وہ سوچنے لگا کہ یہ سب یہاں کیوں موجود ہیں۔ 

اس نے ایک بار پھر اپنے ذہن پر زور ڈالنا شروع کیا۔ 

سکول میں اسمبلی کے بعد ٹیچر نے مین ہال جانے کو کہا تھا۔ کوئی فرسٹ ایڈ ٹریننگ تھی۔ ٹیچر نے بتایا کہ یہ بہت ضروری ٹریننگ ہے کیونکہ اس کے بعد وہ کسی بھی شخص کی طبی امداد کر پائے گا۔ 

وہ ہال میں تھا۔ اپنے دوستوں کے ساتھ۔ خوب جوش سے وہ اپنی ماما کی سالگرہ کے لیے کارڈ اور گفٹ کے بارے میں بتا رہا تھا۔

عین اسی وقت دروازہ کھلا اور دو آدمی ہاتھ میں اسلحہ لیے ہال میں آئے۔ دونوں کا حلیہ بیڈ گائز والا تھا۔ 

اب اس سب یاد آنے لگا اور ساتھ ہی آنکھوں سے آنسو بھی جاری ہونے لگے۔ بیڈ گائز نے اچانک ہی فائر کرنے شروع کر دیے۔ وہ آنکھیں بند کر کے نیچے لیٹ گیا۔ اس کے سامنے اندھیرا تھا۔ اس کے کانوں میں صرف فائرنگ، چیخ و پکار اور سسکیوں کی آواز آرہی تھی۔ 

وہ گھر کے اندر پہنچ چکا تھا۔ اس کے سامنے ماما اور بابا دونوں موجود تھے۔ دونوں اس کے کمرے میں بیٹھے تھے۔ وہ اب بھی رنگ دیکھنے سے قاصر تھا۔ اس نے ایک بار پھر سوال کیا۔ اب کی بار تقریباً چلا کر۔ 

“ماما آپ رو کیوں رہی ہیں؟ اور بابا کیوں اداس خاموش بیٹھے ہیں؟ یہ آپ دونوں کی آنکھیں کیوں سوجی ہیں؟”

لیکن کوئی اس کی آواز نہ سن پایا۔ 

ہال میں اوندھے لیٹے بیڈ گائز اس کی جانب پہنچ رہے تھے۔ وہ چیخنا چاہتا تھا مگر آواز نے ساتھ نہ دیا۔ اسے اسلحہ لوڈ کرنے کی آواز آئی۔ اور پھر لمحے کے ہزارویں حصے تک اس کے دماغ نے فائر کی آواز کو محسوس کیا۔ گولی سیدھا سر میں ماری گئی لہذا اس فائر کی آواز کے بعد اس کی یادداشت مسدود ہوچکی تھی۔ 

اسے سب یاد آچکا تھا۔ 

قبرستان سے گھر کے سفر تک کی بے رنگینی اب اپنی انتہاء کو پہنچ چکی تھی۔ اس نے ایک آخری کوشش کرنے کا فیصلہ کیا۔ 

اس نے اپنے کمرے میں رکھی الماری کے ساتھ پڑی کرسی پر چڑھ کر ماما کا گفٹ اتارنے کی کوشش کی۔ اس کا ہاتھ بمشکل الماری تک پہنچ پا رہا تھا۔ وہ کوشش کر رہا تھا کہ کسی طرح نیلے گفٹ پیپر میں لپٹا یہ تحفہ اپنی ماں تک پہنچنا سکے۔ 

************************************************

نجمہ کی آنکھیں سوج کر سرخ ہوچکی تھیں۔ یہ سانحہ اس کا اکلوتا بیٹا نگل چکا تھا۔ نعمان، وہ معصوم جان جسے پال پوس کر اس نے ساتویں برس تک پہنچایا تھا۔ ساتھ ہی نعمان کا باپ بھی اپنی سوچوں میں گم تھا۔ اس کی دنیا اجڑ چکی تھی۔ نعمان جسے اس نے اپنی گود میں کھلایا، انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا اور جسے تعلیم کے حصول کے لیے شہر کے بہترین سکول میں داخل کروایا، اور پھر وہی نعمان کی قربان گاہ بنا۔ 

یہ دونوں اپنے دکھ میں ڈوبے ہوئے تھے کہ تبھی اچانک الماری کے پاس سے کھٹ پٹ کی آواز آئی اور نیلے رنگ کے گفٹ پیپر میں لپٹا ایک پیکٹ نیچے گرا۔ نجمہ کی نظر اس پر پڑی اور اس نے لپک کر یہ پیکٹ اٹھا لیا۔ پیپر پر ایک چھوٹا سا کارڈ لگا ہوا تھا۔ 

“ہیپی برتھ ڈے ٹو دی بیسٹ مدَر آف دی ورلڈ”

نجمہ نے بہتی آنکھوں کے ساتھ گفٹ پیپر اتارا۔ اندر سے ایک ڈبہ نکلا جسے کھولنے پر نجمہ اور نعمان کی ایک فریم شدہ تصویر نکل آئی۔ تصویر کے نیچے کی طرف الٹے ہاتھ پر نعمان کی ہینڈ رائیٹنگ تھی۔ 

“ہیپی برتھ ڈگ موم۔ وی ول سٹے ٹوگیدر فار ایور”

یہ وہ آخری رنگ تھے جو نجمہ دیکھ پائی۔ اب اس کی زندگی میں خاموشی اور رنگوں سے عاری ہے۔ اب وہ منتظر ہے۔ اسے بس صور پھونکے جانے کا انتظار ہے۔ 

*************************************************

بے نور ہے سب تو صور پھونک

دل بھی ہے یہ بند اب صور پھونک

معصوم فرشتے اور یہ لہو

اب سب ہی کہیں تو صور پھونک

انسانیت کی رت ہی گئی 

سفاکیت تھکتی ہی نہیں 

میرے شہزادے کی پیشانی

ہے خون سے تر تو صور پھونک 

میرا ہنستا کھیلتا گھروندہ 

میرے اکلوتے کا یہ کمرہ

اک ظلم کی لہر سے خاک ہوا

میں بین کروں تو صور پھونک 

بھاری سا اس کا یہ بستہ 

یہ قلم، کتاب اور یہ رستہ

اس رستے کو اب تکتی ہے 

یہ ماں اب ہر پل سسکتی ہے 

اس ماں کی قسم اب بہت ہوئی 

ہمت بھی ہماری ختم ہوئی 

دو آنسو تو بھی ٹپکا کے

دو لفظ ندامت پھسلا کے 

ہو جا تو کھڑا اے اسرافیل

Advertisements
julia rana solicitors

اور سر کو جھکا کے…. صور پھونک

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply