یہ تقریبا ہر پاکستانی خاتون کا تجربہ ہے۔ چاہے آپ بس پر سوار ہوں، جہاز پر ہوں، ٹرین پر ہوں یا کسی ویٹنگ روم یا ریسٹورینٹ میں ہوں۔ کوئی بھی مرد خاتون کے ساتھ آ کر بیٹھ جاتا ہے یا سامنے بیٹھ جاتا ہے۔ ۔فوری طور پر اسے اپنے آپ کو غالب ظاہر کرنے کی خواہش محسوس ہوتی ہے ۔ وہ یہ دکھانا چاہتا ہے کہ وہ ایک مرد ہے اور اس کی موجودگی معنی رکھتی ہے اور عوامی جگہ پر مردوں کا اختیار زیادہ ہے۔
یا پھر وہ یہ دیکھتا ہے کہ خاتون وہان وجودد ہے اور اس کی موجوددگی کو بھولنے کی کوشش کرتا ہے۔ معاملہ جو بھی ہو، مندرجہ ذیل تین یا چار چیزوں میں سے ایک واقع ہوتی ہے۔ ایک، وہ جتنی ممکن ہو جگہ پر قابض ہو جاتا ہے ، ہاتھ سیٹ پر پھیلا لیتا ہے، تا کہ خاتون کے لیے کم سے کم جگہ بچے ۔ اور کبھی کبھار اس کے ہاتھ اس کی شلوار اور ٹرائوزر کی طرف حرکت کرنے لگتے ہیں ۔ پاک سر زمین سمجھے جانے والے ملک میں اس طرح کی حرکات کو قابل قبول سمجھا جاتا ہے۔
ابھی پچھلے ہفتے ایسا ہی ایک واقعہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے جدو جہد کرنے والی ایک خاتون کے ساتھ جہاز میں پیش آیا۔ جب وہ خاتون اپنی سیٹ پر بیٹھیں تو ایک شلوار قمیض میں ملبوس مرد اس کے ساتھ آ کر بیٹھ گیا ۔ جب سب کو سیٹ بیلٹ باندھنے کا اعلان ہوا تو خاتون کے ساتھ بیٹھنے والے مرد کے ہاتھ اس کے جسم کے نچلے حصے کی طرف بڑھنے لگے۔ وہ یہ حرکت بغیر کسی شرمندگی یا معذرت کے اظہار کے کر رہا تھا اور اسے یہ بھی خیال نہ تھا کہ اس کی یہ حرکت ساتھ بیٹھی خاتون کے لیے کتنی پریشانی کا باعث بن سکتی ہے ۔اس نے یہ حرکت دوبارہ کی اور پھر بار بار دہراتا رہا۔
ہمیں یہ اس لیے معلوم ہوا کہ جو ہو رہا تھا خاتون نے اپنے فون میں ریکارڈ کر لیا۔ پانچ منٹ کے اندر اس مرد نے ایک دو بار نہیں بلکہ 15 بار اپنے مخصوص اعضا کو ہاتھ لگایا۔ یہ ایسے موقع پر ہو رہا تھا جہاں جگہ بہت کم تھی اور خاتون کے لیے وہاں سے ہٹ جانے کا بھی کوئی راستہ نہ تھا۔ جب وہ مرد نیچے اترا تو ایف آئی اے والوں نے اسے حراست میں لے لیا۔ خاتون کو افسر نے صرف اتنا کہا: لیکن اس نے آپ کو تو ہاتھ نہیں لگایا ۔ کیا یہ سچ ہے؟ یہ ایک بہت عجیب رد عمل تھا۔ خواتین سے ہمیشہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ برداشت سے کام لیں اور معاملے کو اچھالنے سے گریز کریں۔ یہی صورتحال یہاں پر درپیش تھی۔ پاکستان میں خواتین کی پریشانی اتنی اہمیت بھی نہیں رکھتی کہ اس کو بنیاد بنا کر مردوں کو اپنا رویہ بہتر کرنے کا کہا جا سکے ۔ یہ غیر انسانی رویہ ہے جس میں مرد جانوروں کی طرح اپنے جسم کو جو مرضی حصہ چھونا ، چاٹنا اور کھرچنا شروع کر دیتے ہیں۔
اس شخص نے اپنی غلطی تسلیم کر لی اور معافی مانگ لی اور خاتون نے اسے معاف بھی کر دیا۔ لیکن زیادہ تر اوقات میں خواتین شکایت نہیں کرتیں کیونکہ ان کی شکایت سننے والا کوئی نہیں ہوتا۔ ایسے لوگوں کے خلاف کہاں شکایت کی جائے جو جہاں دل چاہے اپنے مخصوص حصوں کو چھونے لگتے ہیں ؟ یہ لوگ کب یہ سیکھ سکیں گے کہ ان کے یہ رویے دوسروں کے لیے کتنے تکلیف دہ ثابت ہوتے ہیں۔ آپ کسی بھی خاتون سے پوچھ لیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ جنسی ہراسمنٹ کا مطلب صرف خاتون کے جسم کو چھونا نہیں ہوتا۔ تو پھر مردوں کے چھونے کے عمل کو خواتین کی پریشانی پر کیسے فوقیت دی جا سکی ہے کہ خاتون کو اپنے آس پاس موجود مردوں کو مسلسل اس نا قابل برداشت حرکت کو سہنا پڑے ۔
جب جہاز سے سوشل میڈیا پر یہ ویڈیو شئیر کی گئی تو بہت سے مردوں نے اسرار کیا کہ یہ جسمانی ضرورت ہے۔اگر یہ بات سچ ہوتی تو پھر دنیا بھر میں یہ رویہ لوگ اپنائے ہوئے نظر آتے اور یہ عام عادت کے طور پر لیا جاتا۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ ایسے ممالک میں جہاں صنفی امیتاز کو فوقیت دی جاتی ہے وہاں کافی عرصہ سے خواتین کو پبلک سپیس پر نمائندگی مل رہی ہے اور وہاں مرد ایسے رویے نہیں اپناتے۔ وہ عوامی جگہوں پر اپنے جسم کے مخصوص حصوں کو نہیں چھوتے کیونکہ یہ ایک ناقابل قبل عمل ہے اور یہ ہر قسم کی تہذیب کے خلاف ہے ۔
ایسا بھی نہیں ہے کہ دوسرے کلچرز میں اس طرح کے مسائل نہیں ہیں یا وہاں ایسے رویوں کو روکنا مشکل نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اٹلی میں پچھلی دہائی کے دوران اس بے ہودہ حرکت پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ اس کیس میں عدالت نے یہ تسلیم کیا تھا کہ کبھی کبھار مرد اس سطرح کی حرکات اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ان کی ثقافت کا حصہ ہے جس کا مقصد بد نظری سے بچنا ہوتا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اس حرکت کو ختم کیا جائے اس کا مقصد چاہے جو بھی ہو۔ وقت آ گیا ہے کہ اب آگے بڑھا جائے۔
پاکستان میں بھی اب عوام کو آگے بڑھنے کا سوچنا چاہیے۔ یہی حقیقت کہ ایسے رویہ سے خواتین کو پریشانی اور مشکل صورتحال کا سامنا ہوتا ہے اس بات کے لیے کافی ہے کہ ایسے ہر رویہ پر پابندی لگا کر اس پر خلاف ورزی کرنے والوں کو جرمانہ کیا جانا چاہیے۔ یہ کہنا درست ہے کہ خواتین بھی مساوی سلوک کی حقدار ہیں اور انہیں عوامی سطح تک رسائی میں آسانی میسر ہونی چاہیے۔ لیکن اگر انہیں یہ بنیادی سطح کی عزت بھی حاصل نہ ہو تو پھر خواتین کی آزادی کے بارے میں سارے دعوے جھوٹ ثابت ہوں گے۔ بہت سے ایسے مرد ہیں جو اس بات سے اختلاف کریں گے اور اس بات پر اصرار کریں گے کہ عوامی جگہوں پر وہ جس طرح کا بھی رویہ اختیار کرنا چاہیں یہ ان کا حق ہے۔ امید یہ بھی ہے کہ کچھ لوگ ایسے ضرور ہوں گے جو اس آرٹیکل کو پڑھیں گے اور رویہ بھی بدلنے کی کوشش کریں گے ، اپنے ضمیر کی آواز سنیں گے اور یہ پہنچاننے کی کوشش کریں گے کہ ان کے چاہتے ہوے یا نہ چاہتے ہوئے ان کی کچھ حرکات خواتین کے لیے اذیت کا باعث بنتی ہیں۔
ایک مساوات پر مبنی معاشرہ اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک مرد و عورت دونوں کو احترام کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ ایسا معاشرہ اس وقت تک قائم نہیں ہو گا جب کہ مرد اپنے خاص سٹیٹس پر فخر کرتے رہیں گےاور عوامی جگہوں پر اپنے آپ کا غالب دکھانے کی کوشش کریں گے اور ان کو اگر رویہ بدلنے کا کہا جاے تو وہ کندھے اچکا کر نظر انداز کر دیں گے۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھی انہیں رویہ بدلنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ ایسے لوگ اس آرٹیکل کے پہلے کچھ پیرا گراف پڑھنے کے بعد ہی اسے مزید پڑھنے سے رک گئے ہوں گے۔
باقی سب لوگوں کو اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ اگر آپ کے ارد گرد ایسے مرد ہیں جو خواتین کے لیے مساوات کا مطالبہ کر رہے ہیں ، ان کی معاشرے میں اہم مقامات تک رسائی بھی ہے تو پھر ان کا راستہ واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ جب وہ عوامی جگہوں پر خواتین کے ساتھ ہوں تو انہیں چاہیے کہ خواتین کے سامنے اپنے مخصوص جسمانی حصوں کو چھونے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
بشکریہ http://dunyapakistan.com
Facebook Comments
اسی لیے تو ہمارے شہر میں مردوں اور عورتوں کی سیٹیں علیحدہ علیحدہ مخصوص ہوتی ہیں تا کہ اس قسم کے مسائل پیدا نا ہوں۔ ۔ ۔ اس بیچارے کو خارش آ رہی ہو گی لیکن اس چڑیل نے اسے ساری دنیا کے سامنے تماشہ بنا دیا۔ ۔ ۔
جہاز میں خاتون میگزین اخبار یا میوزک سے دل بہلا سکتی تھی لیکن اس نے وڈیو بنانے اور مردانہ عضائے مخصوصہ کی خارش سے سے دل بہلانے کو ترجیح دی۔مطلب خارش جرم ہے اور دوسرے کے کاموں ٹانگ اڑانا اور بلا اجازت وڈیو بنانا صحیح ہے