فیسبکی شاعرہ۔۔۔۔علی اختر

یہ انسان کی فطرت ہے کہ  جب بھی وہ کوئی  کام کرتا ہے دیگر افراد کو دکھانا چاہتا ہے۔ چاہتا ہے کہ   لوگوں تک اسکا کام پہنچے لوگ اسکی تعریف کریں ، شہرت اور عزت ملے ، حوصلہ افزائی ہو ۔ ہم بھی لکھتے ہیں کہ  لوگ اسے پڑھیں ۔ لگے کہ  اپنا بھی کوئی  ہے ۔ دو بار مکالمہ پر مضمون نویسی پر انعام کے حقدار بھی ٹھہرے لیکن مضامین کے عنوان اتنے خشک تھے کہ  ججز اور ہمارے سمیت کل ملا کے چھپن لوگوں نے ہی تحریر پڑھی  تھی۔

اس شہرت اور تعریف کی بھوک میں ہم نے لوگوں کو زبردستی لنک واٹس ایپ کیئے ۔ اپنے مضامین زبردستی پڑھائے ۔ کڑاہیاں کھلائیں ۔ لوگوں کو ٹیگ کیا ۔ لوگوں کو اپنے منہ سے خود ہی بتایا کہ  انکا دوست کتنا بڑا دانشور بن چکا ہے ۔ لیکن لوگوں نے لنک کھولا ہی نہیں ۔ دعوتیں کھا کر نمک حرامی کی ۔ بعض نےتعریف  کی پر بعد میں پتا چلا کہ  کالم پڑھا ہی نہیں تھا ۔

پھر سوچا کہ  شجر ممنوعہ قسم کے موضوعات کوچنا    جائے لیکن نتیجے میں ویوز کی تعداد چھپن سے محض ایک سو چھپن تک ہی پہنچ پائی  ۔ اس مایوسی کے عالم میں میں ایک بار پھر اپنے واحد دانشور دوست “شاہی ” کے پاس پہنچا اور شکستہ دلی کے ساتھ اپنی تمام تر صورت حال اسکے گوش گزار کردی۔

اس نے ساری داستان بغور سنی اور بجائے کوئی  حل بتانے کے اپنے دمے کے مریضوں والی ہنسی ہنسنے لگا ۔ “یار میں تم سے مسئلے  کا حل پوچھ رہا ہوں اور تم ہنس رہے ہو ” میں نے ناراض ہوتے  ہوئے کہا ” یار تیرا مسئلہ کو ئی  نئی  بات نہیں ۔ بس تیرا قصور یہ ہے کہ  تو پاکستان میں پیدا ہوا” وہ اب بھی ہنس رہا تھا۔ “کیا مطلب” میں نے حیرانی سے پوچھا تو وہ قدرے سنبھل کر بولا ۔

“مطلب کہ  تیرا کبھی سڑک پر کوئی  ایکسیڈنٹ ہوا ہے”؟
“ہاں ہوا ہے ۔ ایک بار بائیک سلپ ہو گئی  تھی”
” پھر لوگوں کا کیا ری ایکشن تھا؟”
“کیا ہوگا لوگوں نے اٹھایا ، پھر ایک آدھ نے ہمیں ہی باتیں سنائیں کہ  اندھوں کی طرح بھگاتے ہو کمینے ، یہ بائیک ہے کہ  جہاز اور پھر رکشہ میں بٹھا کر ہسپتال بھیج دیا ”
یہ سن کر شاہی کی مسکراہٹ اور گہری ہو گئی  اور وہ بولا۔۔۔۔
” تو میاں منے ! اب یہ سوچو کہ  تمہارے جیسے سانڈ نما آدمی کی جگہ اگر کسی نازک اندام حسینہ کا لمبی ایڑھی پہنے کے سبب پاؤں سلپ ہوا ہوتا تو کیا ہوتا ”
“کیا ہوتا ” میں نے کچھ بھی نہ سمجھتے ہوئے پوچھا ۔
” ارے ہوتا کیا ، ہر جانب سے سلامت سلامت کا شور ہوتا، ایدھی چھیپا کی ایمبولینسز ہوتیں لوگ ہسپتال کی ایمرجنسی میں رش لگائے ہوتے ۔ ڈاکٹروں کو کوتاہی پر جھانپڑ پڑتے اور کیا ہوتا جانی ” شاہی چہرہ سرخ ہو چکا تھا ۔
“شاہی تم جیسے تعصبی لوگوں  کی وجہ سے  آج ہمارا معاشرہ تباہ ہو چکا ہے ” میں نے تمام داستان کے بعد اپنا نقظہ نظر پیش کر دیا ۔

” میں جانتا تھا تیرے جیسا کوڑھ  مغز ایسے نہیں سمجھے گا چل اب تجھے کچھ دکھاتا ہوں “یہ کہہ  کر شاہی نے اپنا لیپ ٹاپ  آن کر دیا ۔
” یہ دیکھ ” اسکا اشارہ اسکرین پر تھا۔
” یہ تو کسی شاعرہ کی فیسبک وال ہے ” میں نے غور سے دیکھتے ہوئے کہا ۔
“ہاں “بشری بیحال”یہ عظیم شاعرہ جسکے دس ہزار سے زیادہ فالورز ہیں دراصل میں ہی ہوں ” شاہی نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
“اب دیکھ ۔” یہ کہہ کر شاہی نے ایک شعر وال پر پوسٹ کیا ۔

دیکھ میری یہ کھل بلاہٹ تو
پیٹ میں چھپکلی سی ہو گویا
(بشری بیحال)
کچھ ہی دیر میں واہ واہ ، سلامت رہیے  ، بخدا کیا تشبیہ دی ہے، محفل لوٹ لی جیسے کمنٹس کے ڈھیر تھے ۔
اسکے بعد ایک اور پوسٹ تھی جسمیں ایک کتاب دکھائی  گئی  تھی عنوان تھا ” جنگلی بلی کی کپکپی ” نیچے لکھا تھا میرا نیا شعری مجموعہ جسے “بیسٹ ناول ” کا ایوارڈ دیا گیا ہے۔
ا س پر پانچ سو کے قریب کمنٹ تھے جس میں  آدھوں نے مبارکباد دی تھی اور بقیہ نے کتاب حاصل کرنے سے متعلق معلومات مانگی تھیں ۔

“کچھ سمجھے میاں ” شاہی نے زہریلی مسکراہٹ بکھیری ۔
میں خاموش تھا ۔ اب کیا کہتا ۔ پھر وہ خود ہی گویا ہوا ۔

” تم نے جگر مرادآبادی کی تصویر دیکھی ہے ؟ ۔ جون ایلیا کو ٹی وی پر دیکھا ہے؟ ۔ تم دیکھو گے کہ  یہ سارے شاعر جوانی ہی میں بوڑھے بیمار قسم کے دکھتے ہیں ۔ کیونکہ انکی فکریں انکی سوچ انہیں کھا جاتی ہے مجبوری میں شراب کا سہارا لیتے ہیں ۔ ” وہ سانس لینے کو رکا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

” اور اب ان کو دیکھو ” اس نے لیپ ٹاپ کی اسکرین پر ایک  دمکتے چہرے والی دوشیزہ کی جانب اشارہ کیا ۔
” صحت تو دیکھو انکی۔ میک اپ اتنا کہ  منہ دھلا دو تو وزن میں پورے ڈھائی  کلو کی کمی ہو جائے ۔ یہ بھی صاحب دیوان شاعرہ ہیں ۔ چہرے کی چمک اور بشاشت چیک کرو اور اب شاعری کا سوز دیکھو ۔ آگ اور پانی کا ملن دکھائی  دیگا”
“یار تو کہنا کیا چاہتا ہے ؟ ” میں نے بات مختصر کی ۔
“بیٹھے رہو ” شاہی نے اشارہ کیا ۔ پھر وہ گویا ہوا۔
” پاکستان میں تیرے جیسے لکھاری کو مشہور ہونے کے لیئے ان دو میں سے ایک کام کرنا ہوگا ۔ یا تو میری طرح فی میل آئی  ڈی بنا لے ”
“اور دوسرا طریقہ ” میں نے جلدی میں بات کاٹی ۔
” دوسرا طریقہ یہ ہے کہ  ٹکٹ کٹا اور تھائی لینڈ چلا جا وہاں جنس تبدیلی کے ماہرین سستے میں کام کردیں گے ۔ ”
یہ سن کر میں نے سر جھکا لیا ۔ شہرت کے لیئے یہ قربانی مجھے قبول نہ تھی۔

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply