مولانا عبد السلام صاحب مدنی رحمہ اللہ جامعہ سلفیہ (مرکزی دارالعلوم)بنارس کے موقر اساتذہ میں سے تھے، آپ ۱۶/ جولائی ۲۰۱۸ء مطابق ۳۰ /ذی قعدہ ۱۴۳۹ھ، بروز سوموار، مختصر علالت کے بعد اس جہانِ آب وگل سے ہمیشہ کے لیے چل بسے،آپ علمِ حدیث کے شناور اور روشن چراغ تھے، آپ کے انتقال سے مسندِ درس وتدریس سونی ہو گئی۔اللھم اغفر لہ،وارحمہ وأدخلہ في الفردوس الأعلی.
یہ دنیا فانی ہے،یہاں جو آیا ہے ،اسے آخرت کے لیے رختِ سفر باندھنا ہے،کوئی ہمیشہ کے لیے اس جہانِ فانی میں نہیں آیا ہے اور نہ ہی اللہ تعالی نے کسی کودوام بخشا ہے،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو اولوا لعزم خیر رسل میں سے ہیں ،ان کے لیے بھی ربِ قدیر نے ہمیشگی اور دوام نہیں بنایا ہے، تو ہمارے لیے دوام اور ہمیشگی کیسے ہو سکتی ہے؟
اس جہان سے رخصت ہونے والوں میں کچھ لوگ ایسے ہیں، جن کے جانے سے پوری قوم غم والم کی تصویر بن جاتی ہے اور ہر کس وناکس کے چہرے پر افسردگی کے آثار نظر آتے ہیں،انہی میں سے حضرت مولانا عبد السلام مدنی رحمہ اللہ کی شخصیت بھی ہے،آپ نے اپنی پوری زندگی درس وتدریس کی وادی کو سیراب کرتے ہوئے گزاری ،جامعہ رحمانیہ مدن پورہ ، بنارس سے عا لمیت کی سندحاصل کرنے کے بعد عالمِ اسلام کی مشہور درس گاہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں حصول تعلیم کے لیے عازم سفر ہوئے، مدینۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں چار سال(۱۳۹۶ھ مطابق۱۹۶۶ء تا ۱۳۹۰ھ مطابق۱۹۷۰ء) تک ماہر اساتذہ سے کسبِ فیض کے بعد لیسانس ( بی ، اے) کی ڈگری سے سرفراز ہوئے،کہا جاتا ہے کہ جامعہ رحمانیہ سے آپ نے اعزازی سندحاصل کی تھی؛ کیونکہ ابھی مرحلۂ عا لمیت ہی میں تھے کہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخلہ کا پروانہ مل گیا،مگر شیخ عبد السلام مدنی رحمہ اللہ نے خود نوشت سوانح میں لکھا ہے کہ انہوں نے کچھ دن فضیلت سال اول میں تعلیم حاصل کی اور جامعہ رحمانیہ میں ۱۹۶۰ء سے ۱۹۶۶ء تک حصول علم میں مصروف رہے۔
جس سال مولانا عبد السلام مدنی رحمہ اللہ کاجامعہ اسلامیہ میں داخلہ ہوا، اسی سال ڈاکٹر عبد الرحمن لیثی اور ڈاکٹر وصی اللہ بن محمد عباس حفظہما اللہ کا بھی داخلہ ہوا،محترم شیخ عبد القادر شیبۃ الحمد نے داخلہ کی منظوری دی اور داخلہ کی کارروائی کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا،سفر کا پورا خرچ جامعہ سلفیہ (مرکزی دارالعلوم) نے برداشت کیا اور مدینہ سے فراغت کے بعد مادر علمی جامعہ سلفیہ (مرکزی دارالعلوم )میں تدریسی خدمات انجام دینے کی تاکید کی گئی،اسی تاکید کی وفاداری کرتے ہوئے مولانا عبد السلام مدنی رحمہ اللہ اور ڈاکٹر عبد الرحمن لیثی حفظہ اللہ جامعہ سلفیہ ( مرکزی دارالعلوم) بنارس تشریف لائے تھے،اللہ سبحانہ وتعالی نے ڈاکٹر وصی اللہ محمد عباس حفظہ اللہ تعالی کے لیے کچھ اور ہی مقدر کر رکھا تھا،ان کے عہد وپیمان پر تقدیر غالب آگئی،اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَمَا تَشَاؤُوْنَ إِلَّا أن یَّشَاءَ اللّٰہ
آپ محنت ، کاوش اور علم وشعور سے مزین تھے،جہدِ مسلسل آپ کی زندگی کا جزو تھا،آپ کے شاگرد آپ کی محنت کا اعتراف کھلے دل سے کرتے ہیں،بے لاگ محنت اور شب وروز کی سعیِ پیہم نے آپ کو اساتذہ کے درمیان وقار بخشا اور انفرادی شان کا مالک بنادیا،آپ اصول کے پکے تھے اور مشکل حالات میں بھی اپنے اصولوں سے سے منحرف نہیں ہوتے تھے اور نہ کوئی سمجھوتہ کرتے تھے۔
آپ کلیۃ الدعوہ واصول الدین سے فارغ التحصیل تھے،مگر آپ کو فن حدیث میں جو درک تھا، وہ غیر معمولی تھا،جامعہ سلفیہ میں مشکاۃ المصابیح جلد ثانی، صحیح البخاری جلد اول ، صحیح مسلم جلد اول، سنن النسائی جلد ثانی اور اصولِ حدیث کی معتبر کتاب نزہۃ النظر شرح نخبۃ الفکر اور الباعث الحَثِیث یکے بعد دیگرے پڑھاتے رہے اور علم وفن کے گوہر لٹاتے رہے،راقم الحروف کو نہ آپ سے شرف تلمذ ہے اور نہ آپ کی صحبت سے فیض یاب ہے ، جامعہ میں جس وقت تدریسی خدمات کے لیے آیا ،اس وقت مولانا عبد السلام صاحب مدنی رحمہ اللہ سبک دوش ہو کر اپنے وطن لوٹ چکے تھے؛ بلکہ میری تقرری آپ ہی کی جگہ ہوئی ہے،آپ کے زیرِ درس کتاب سنن النسائی آپ کے جانے کے بعد میرے نصیب میں آئی۔
جن طلبہ نے آپ سے کسب فیض کیا ہے، ان کے مطابق آپ کو تدریس اور عبارت فہمی کا ملکہ تھا،آپ کا درس حشو وزوائد سے پاک ہوتا تھا، بالخصوص اصح الکتب بعد کتاب اللہ صحیح البخاری کی تدریس کا انداز نرالا اور پیاراتھا،سب سے پہلے حدیث پاک کی خواندگی ہوتی تھی،ا س کے بعد اسناد پر بحث ہوتی تھی، مبہم اور کنیت والے راویوں کی وضاحت کرتے ،استدلال پر زور صرف کرتے،فقہی اقوال اور ائمۂ کرام کے خیالات کی طرف ہاتھ پاؤں مارنے کے بجائے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بالواسطہ استدلال کرتے اور مسائل کا استنباط کرتے، طلبہ کوبراہِ راست حدیث سے استنباط کرنے پر ابھارتے ، کبھی کبھی حدیث سے ایسے مسائل مستنبط کرتے، جو انفرادی شان لیے ہوتے تھے،علما کہتے ہیں کہ صحیح بخاری میں سب سے اہم چیز فقہ البخاری فی تراجمہ ہے، استاد محترم اس پر خاص توجہ دیتے اور اختلافات میں جائے بغیر صحیح مفہوم کی رہنمائی کرتے،علاوہ ازیں حدیث کے مشکل اور غریب الفاظ اور اعراب کی بقدر ضرورت اصلاح کرتے، اگر کوئی ایسا مسئلہ آجاتا ،جو ما بہ النزاع ہوتا، تو آپ اس کے مالہ وما علیہ کو بیان کرتے اور اخیر میں اپنا محاکمہ پیش کرتے، جو اپنے اندر اجتہادی اور بسا اوقات انفرادی شان لیے ہوئے ہوتا تھا،کبھی کبھار درس میں ان مسائل پر بحث چھڑ جاتی ،جن میں آپ کو مخصوص درک اور تبحرتھا، تو ان پر خوب عمدہ بحث کرتے اور مخالف کے دلائل پر تنقید کرتے اور گھنٹی ختم ہونے کا احساس تک نہیں ہوتا تھا۔
مولانا کئی خوبیوں کے مالک تھے ،ایک خوبی یہ تھی کہ اپنی رائے کا اظہار جرأت مندانہ طور پر کرتے تھے اور اس میں کسی طرح کی مداہنت کو قبول نہیں کرتے تھے ،ایک دوسری اہم خوبی یہ تھی کہ مطالعہ کیے بغیر درس نہیں دیتے تھے اور نہ تیقن کے بغیر کوئی مسئلہ بتاتے تھے، جس دن مطالعہ نہیں کرتے ،بلا کسی جھجھک بیان کردیتے تھے کہ آج مطالعہ نہیں کر پایا ہوں؛ اس لیے درس نہیں ہوگا،آپ طلبہ کا خیال رکھتے ،گھنٹی ختم ہونے سے پانچ منٹ پہلے درس روک دیتے؛ تاکہ درس کے متعلق جو اشکال ہو، اس کا تشفی بخش جواب دیا جائے اور مسئلہ کو منقح کرکے ذہن نشیں کرا دیا جائے۔
مولانا عبد السلام صاحب مدنی رحمہ اللہ درس وتدریس کے ساتھ تصنیف وتالیف کا بھی عمدہ ذوق رکھتے تھے،گاہے گاہے کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے تھے، زیرِ درس جو کتابیں رہتی تھیں ،ان کا نوٹ تیار کرتے تھے ،دھیرے دھیرے یہ نوٹ حاشیہ کی شکل میں شائع ہوکر منصہ شہود پر آیا،یہ حاشیے عموماً آپ کا حاصلِ مطالعہ ہیں اور متقدمین علما کی تحریروں کا نچوڑ،آپ نے جن کتابوں پر حاشیہ آرائی کی ہے، ان میں سنن النسائی جلد ثانی کا حاشیہ بنام التعلق المنتقی ، مشکاۃ المصابیح جلد ثانی کا حاشیہ بنام التعلیق الملیح لکھ کر علم حدیث کی خدمت میں گراں قدر اضافہ کیا،اصولِ حدیث میں نزھۃ النظر پر حاشیہ اور تعلیق لکھی ،جس پر علماے عرب وعجم سے دادو تحسین حاصل کی ، ان کے علاوہ مختلف اوقات میں چند مقالات اورمضامین حوالۂ قرطاس کیا ،ماہنامہ ’’محدث ‘‘میں درسِ حدیث کا کالم آپ ہی کے قلم کا فیض ہے ،جو ’’درس حدیث ‘‘ کے نام سے مطبوع ہے،شنیدہے کہ مولانا مدنی رحمہ اللہ نے صحیح بخاری ، جلد اول اور صحیح مسلم ، جلد اول پر بھی مختصر حاشیہ لکھاہے ،جو مطبوع نہیں ہے ، امید ہے کہ آپ کے علمی وارثین اس کو منصہ شہو د پر لا نے کی کوشش کریں گے۔
مولانا عبد السلام مدنی رحمہ اللہ نے دعوت وتبلیغ کے میدان کو بھی زینت بخشی اور اسے اپنے خون جگر سے سینچا،دروس میں حاضری اور جلسوں میں شرکت کے ذریعے آپ نے قال اللہ وقال الرسول کی صدائے دل نواز سے قلوب واذہان کو منور کیا اور ان موضوعات کو اپنی گفتگو کا حصہ بنایا ،جو سماج اور معاشرے کی اصلاح میں مؤثر کردار ادا کرسکیں،آپ کی تقریر مدلل اور مبرہن ہوا کرتی تھی، انداز ناصحانہ تھا،نہ اس میں سختی تھی ،جو دلوں کو ناگوار گزرے اور نہ ہی کڑک اور تڑپ تھی ،جو قلوب کو بے زار کردے ؛ بلکہ سلجھے سلجھائے انداز کی تقریر تھی،تقریر کا یہی انداز ،جس میں مقرر اپنی بات کہہ لے اور سامع اسے سمجھ جائے ، قابل تعریف ہوتا ہے۔
مولانا ممدوح ۷/فروری ۱۹۴۴ء کو موضع ٹکریا ضلع سدھارتھ نگر میں پیدا ہوئے،ابجد کی تعلیم گاؤں کے مکتب مفتاح العلوم میں ہوئی،جامعہ سراج العلو م بونڈیہار ضلع بلرام پور میں ۱۹۵۲ء سے ۱۹۶۰ء تک رہ کر ابتدائی اور ثانوی تعلیم مکمل کی، اس کے بعد دو سال فارسی زبان سیکھی ،پھر جامعہ رحمانیہ مدن پورہ میں داخل درس ہوئے اور یہاں تفسیر، علوم تفسیر،حدیث، علوم حدیث ، فقہ ، اصول فقہ،نحو ، صرف ، عربی ادب اور دیگر علوم متداولہ کے حصول کے لیے ماہر اساتذہ کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کیا۔درس نظامی کے علاوہ عربی فارسی بورڈ الہ آباد سے مختلف زمانہ میں ’مولوی ‘،’عالم‘، ’فاضل ادب عربی ‘ کی ڈگری حاصل کی۔ آپ نے پوری تعلیم میں جن اساتذہ سے خوشہ چینی کی ان میں علامہ مولانا نذیر احمد رحمانی املوی، مولانا عبد الغفار حسن رحمانی،مولانااقبال احمد رحمانی ،مولانا محمد عابد رحمانی،علامہ ڈاکٹر تقی الدین الہلالی، علامہ محمد امین شنقیطی مولف اضواء البیان فی تفسیر القرآن بالقرآن، شیخ ممدوح فخری، شامی رحمہم اللہ تعالی اور علامہ شیخ عبد المحسن العباد حفظہ اللہ قابل ذکر ہیں۔ یہی وہ اساطین علم وفن ہیں جن کی نگرانی میں اور سایہ عاطفت میں مولاناعبد السلام مدنی رحمہ اللہ کو فن حدیث میں حذاقت ومہارت اور گہرائی حاصل ہوئی۔
شیخ الحدیث علامہ عبید اللہ رحمانی مبارک پوری رحمہ اللہ سے شاگردی کی نسبت اس اعتبار سے ہے کہ آپ کو ان سے اجازت حدیث کی سند حاصل کرنے کا شرف حاصل ہے۔ شیخ الحدیث رحمہ اللہ ،جامعہ سلفیہ(مرکزی دارالعلوم) کے تا حین حیات صدر تھے۔آپ کا معمول تھا کہ ماہ دو ماہ بعد جامعہ ضرور تشریف لاتے تھے اور جامعہ کے حالات کو بچشم خود دیکھتے تھے اورکلاس روم میں جا جاکرطریقہ تدریس کا معائنہ کرتے تھے ۔استاد کو درس کی تیاری اور پڑھانے کے متعلق ضروری ہدایتیں کرتے تھے۔بقول مولانامحمد مستقیم صاحب اس کا بہت فائدہ ہوتا تھا۔
شیخ الحدیث مبارک پوری جب جامعہ تشریف لاتے تو مولانا عبد السلام مدنی رحمہ اللہ آپ کی دل وجان سے خدمت کرتے تھے اور اسے اپنااخلاقی فریضہ سمجھتے تھے۔یہی خدمت گزاری شیخ الحدیث رحمہ اللہ سے قربت اور اعتمادکا ذریعہ بنی ۔ حدیث کے متعلق مولانامدنی رحمہ اللہ کے ذہن میں جو بھی اعتراضات اور اشکالات تھے یا حدیث کا معنی ا ورمفہوم متعین کرنے میں جو کچھ تردد تھا ،شیخ الحدیث رحمہ اللہ کے سامنے پیش کرتے اور تشفی بخش جواب سے محظوظ ہوتے ۔اس طرح مولانا عبد السلام صاحب مدنی رحمہ اللہ کو علم حدیث کی باریکیوں کے فہم وادراک کا ملکہ پیدا ہواجس کا فائدہ بعد میں یہ ہوا کہ مرعاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح کی پروف ریڈنگ آپ کے حصہ میں آئی ۔ شروع میں تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ کام تو بہت مشکل لگ رہا تھا ،مگر دھیرے دھیرے آسان ہوتا گیااور مولانا مدنی رحمہ اللہ پر شیخ الحدیث مبار ک پوری رحمہ اللہ کا اعتماد بڑھتا گیا۔ مولانا کی تبحر علمی اور ژ رف نگاہی میں اس پہلو کو طاق نسیاں نہیں کیا جا سکتا ہے،بلکہ اس کا کردار آپ کے استنباط میں دیکھا جا سکتا ہے۔
بیالیس (۴۲) سالہ تدریسی خدمات کے دوران آپ سے علم دین اخذ کرنے والوں کی تعداد حیطہ شمار سے باہر ہے ۔ذیل میں چند مستفیدین کے اسمائے گرامی ذکر کیے جاتے ہیں:ڈاکٹر رضاء اللہ محمد ادریس صاحب مدنی، سابق شیخ الجامعہ، جامعہ سلفیہ بنارس(رحمہ اللہ) مولانا عبد اللہ صاحب مدنی جھنڈا نگری(رحمہ اللہ) مولانا عبد اللہ سعود صاحب سلفی ،ناظم اعلی جامعہ سلفیہ بنارس،مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی،امیرمرکزی جمعیت اہل حدیث ہند،مولانا صلاح الدین مقبول احمد صاحب مدنی (دہلی ) مولانا عزیر شمس صاحب (مکہ مکرمہ)مولانا شہاب اللہ جنگ بہادر مدنی (شارجہ)ڈاکٹر عبد القیوم محمد شفیع صاحب مدنی (مقیم حال قطر) مولانا احسن جمیل صاحب مدنی(بنارس)سابق شیخ الجامعہ، جامعہ سلفیہ بنارس، مولانا شبیر احمد صاحب مدنی (اٹوا بازار)ڈاکٹر بدر الزماں صاحب مدنی(نیپال) مولانا رضاء اللہ عبد الکریم مدنی (ناظم تعلیمات سید میاں نذیر حسین محدث دہلوی، دہلی) ڈاکٹر عبید الرحمن مدنی(مدیر جامعہ الامام البخاری ، تلولی، ممبئی) مولانا عبد اللہ سلفی عمر پوری، مولانا مشتاق احمد کریمی (بہار)مولانا عزیز الرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ ،مولانا مظہر الحق عبد الشکور مدنی،مولانا محمد محسن سلفی املوی، مولانا ازہر عبد الرحمن رحمانی،مولانا صہیب حسن مدنی مبارک پوری، مولانا راشد حسن سلفی مبارک پوری اور حافظ ناصر الدین مبارک پوری وغیرہم۔ الحمد للہ، اس وقت جامعہ سلفیہ کانصف تدریسی عملہ مولانا محترم کے شاگردوں پر مشتمل ہے۔جن میں مولانا نعیم الدین صاحب مدنی سابق شیخ الجامعہ، مولانا محمد یونس صاحب مدنی، موجودہ شیخ الجامعہ ،مولانا محمد عبد القیوم مدنی ، مولانا سعید میسور مدنی ، ڈاکٹر عبد ا لصبور مدنی ،ڈاکٹر عبد الحلیم مدنی، مولانا محمد یوسف محمد عمر مدنی، مولانا سیف الرحمن مدنی ، مولانا نور الہدی سلفی، مولانا محمد ایوب سلفی،مولانا طاہر حسین سلفی ) حفظہم اللہ تعالی ہیں۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ استاد محترم رحمہ اللہ کی لغزشوں کو دامن عفو میں جگہ دے ۔ان پر رحم فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے، آمین۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں