حوصلہ دینے اور گُر بتانے والیوں کے نام۔۔صائمہ حیات

بے فکری کے کیا خوبصورت دن تھے۔ ہم نے یونیورسٹی کی مصروفیات کو نمٹانے کے بعد شہر بھر میں ہونے والی ادبی و ثقافتی تقریبات میں شرکت کو اپنا معمول بنا لیا تھا۔ ان سرگرمیوں کی بدولت ہم شہر کی ادبی، سیاسی اور فنون لطیفہ کی اہم شخصیات سے روشناس اور متعارف ہوئے۔

شہر کی جس ادبی شخصیت سے سب سے پہلے ہمارا تعارف ہوا وہ اردو ادب کی بہت اہم اور معتبر ادیبہ زاہدہ حنا صاحبہ تھیں۔ بچپن سے ہی ان کے کالم جنگ اخبار میں پڑھتے چلے آ رہے تھے۔ جس ادیب کی تحریروں سے آپ کی بچپن سے شناسائی ہو اور کبھی زندگی میں وہ دن بھی آئے جب آپ کو اس لکھاری سے براہ راست ملنے کا شرف حاصل ہو جائے تو بالکل یوں محسوس  ہوتا ہے جیسے آپ زمین پر نہیں بلکہ ہواؤں میں اُڑ رہے ہوں۔

ہماری خوش قسمتی تھی کہ پہلی ملاقات کے بعد ان سے محبت کی جو ڈور بندھی وہ آج تک قائم ہے اور ان کی بے پناہ محبت اور شفقت ہماری زندگی کا بیش بہا اثاثہ ہے۔
زاہدہ حنا صاحبہ کی محبت اور خلوص نے ہمیں اُن کا گرویدہ بنا لیا تھا۔ ہم ان سے ملنے کے بہانے سوچا کرتے تھے اور کسی نہ کسی کام کی غرض سے ان کے آفس آنے کی اجازت طلب کیا کرتے تھے۔ یہ ان کا بڑا پن تھا کہ وہ ہمیشہ اپنی حد درجہ مصروفیات کے باوجود ہم سے ملاقات کا وقت طے کر لیا کرتی تھیں اور ہم دیوانہ وار وقت پر ان کے آفس پہنچ جاتے اور پھر کسی نہ کسی موضوع پر ان کے خیالات جاننے کی کو شش کرتے تھے۔ ان کی گفتگو کے ساتھ ہم چائے اور بسکٹ سے بھی لطف اندوز ہوتے۔

مجھے آج اُن کے ساتھ ہونے والی ایک مختصر سی نشست یاد آرہی ہے۔ جب میری عزیز دوست صدف نے ان سے ایک سوال کیا تھا۔ صدف نے اُن سے پوچھا تھا کہ میڈم آپ کی نظر میں لڑکیوں کو خودمختار بنانے میں کیا چیز اہم کردار ادا کر رہی ہے اور آئندہ بھی کرے گی؟ میڈم کا جواب مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے۔ اُنہوں نے صدف کے سوال پر مسکراتے ہوئے جواب دیا تھا کہ
“ٹیکنالوجی۔۔۔ اور بطورِ خاص انٹر نیٹ کی ایجاد اور اس کے ساتھ لیپ ٹاپ کی بدولت آج کی عورت کو جو خودمختاری اور  آزادی حاصل ہو رہی ہے اس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔۔۔ اس کے علاوہ آج کل کی لڑکیوں کو فوری طور پر ڈرائیونگ بھی ضرور سیکھ لینی چاہیے تا کہ ان میں اپنی زندگی کو خود سے ڈرائیو کرنے کا اعتماد پیدا ہو اور وہ کسی کی محتاج نہ رہیں۔”

آج اتنے برسوں بعد مجھے میڈم زاہدہ حنا کے یہ الفاظ یاد آئے اور بے اختیار انہیں سلیوٹ کرنے کو دل چاہ رہا ہے۔

صدف جس نے یہ سوال پوچھا تھا آج وہ اسی انٹرنیٹ کی سہولت اور اپنی قابلیت کی بنیاد پر “ارسمس منڈس اسکالرشپ” پر آئرلینڈ کی ڈبلن سٹی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی مکمل کر چکی ہے اور ان دنوں کرونا وائرس کے ایک پروجیکٹ پر بطور سائنٹیفک ریسرچر کام کر رہی ہے۔

یہ سچ ہے کہ تم سوچ پر پہرے بٹھا سکتے ہو۔

گھر سے باہر نکلنے پر پابندی لگا سکتے ہو۔

تحفظ کے نام پر عورت کو چادر اور چار دیواری کے پُر فریب جال اور مذہب کی آڑ لے کر اسے اپنے حصار میں قید بھی کر سکتے ہو۔۔۔ اس کی آزادی اور خود مختاری کو اپنی طاقت سے سلب کر سکتے ہو۔۔۔ لیکن اگر تم نہیں روک سکتے تو اپنے گھر میں آنے والے انٹرنیٹ اور وائی فائی کے سگنلز کو نہیں روک سکتے۔۔۔ اس کے  آگے کوئی بند، کوئی باڑ، کوئی حصار نہیں باندھ سکتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

آج کے دور کی عورت اس خاموش لیکن بڑے موئثر اور کاری ہتھیار سے لیس ہے۔ تم چاہتے ہوئے بھی اس کے پَر نہیں کاٹ سکتے اور نہ  ہی اس کی پرواز کو روک سکتے ہو۔۔۔
2021 کا عورتوں کے حقوق کا عالمی دن زاہدہ حنا اور اُن جیسی تمام عورتوں کے نام جو عورت کو آزاد اور با اختیار ہونے کا حوصلہ دیتی ہیں اور انہیں ایسا کرنے کے گُر بتاتی ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply