ففتھ جنریشن وار کیا ہے؟۔۔۔۔۔ شجاعت بشیر عباسی

 بے چین ،پُرتعصب اور معاشی عدم استحکام کے موجودہ دور کے پیچھے جو کہانی کار فرما ہے اسے ففتھ جنریشن وار کہا جاتا ہے۔ بے شمار اسلحے فوج اور ایٹمی ہتھیاروں کی حامل آج کی دنیا میں جنگی حکمت عملیوں میں بھی ایک دوسرے کے دشمنوں نے تبدیلیاں کی ہیں اور انہی  تبدیلیوں کو ففتھ جنریشن وار کہا جاتا ہے۔ ففتھ جنریشن وار کے عموماً تین طریقے اب تک کامیاب تصور کیے جاتے ہیں ۔۔

1. اس پہلے طریقے میں دشمن اپنے حریف ملک کے اندر موجود جاسوسوں کے  ذریعے خانہ جنگی یا پھر داخلی انتشار کی فضا قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اسکے لیے زیادہ تر مذہبی سیاسی اور شدت پسندانہ خیالات کے حامل افراد کو کبھی پیسے اور دیگر لالچ کے   ذریعے یا پھر ایسے افراد کی نفسیاتی الجھنوں کو اپنے حق میں استعمال کرتے ہوئے اپنے مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں

  2۔ہر ریاست اپنے مختلف نظریات کی بدولت معرض وجود میں آتی ہے اور یہی نظریات آئین اور قانون کی شکل میں اس ریاست پہ لاگو کیے جاتے ہیں۔لہذا ففتھ جنریشن وار کے دوسرے طریقے کے   ذریعے ریاست کے بنیادی تصورات کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کر کے ریاست کی بنیاد کو کھوکھلا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

 3.۔اپنی مخالف ریاست کے بارے میں بین الاقوامی سطح پر شدت سے منفی پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے اور باقی تمام ممالک کو یہ پیغام مسلسل پہنچایا جاتا ہے کہ   فلاں ریاست تمام اقوام کے لیے خطرے سے خالی نہیں اسکے لیے عموماً اس ریاست کے اندرونی خلفشار کو بین الاقوامی پرنٹ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے  ذریعے تمام اقوامِ عالم تک پہنچایا جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ان تین طریقوں کے علاوہ بھی کئی اور حربے اختیار کیے جاتے ہیں اپنے دشمن کو کمزور کرنے کے لیے۔کسی بھی ملک کی افواج اور عوام کے درمیان یا پھر مذہب علماء اور عام عوام کے درمیان مختلف طریقوں سے دوریاں بڑھائی جاتی ہیں ۔اسکے علاوہ عوام کے درمیان سیاسی گروہی فرقہ پرستی اور صوبائی تقسیم پیدا کی جاتی ہے۔ جب دشمن اپنے یہ تمام ٹارگٹ حاصل کر لیتا ہے تو اسکے بعد پھر پوری طاقت سے اس پر حملہ کیا جاتا ہے چونکہ پہلے سے مضبوط حکمت عملی سے مخالف ریاست کی بنیادوں کو کھوکھلا کیا جا چکا ہوتا ہے اسی لیے فتح یقینی ہوتی ہے۔ اب ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ  ہم بطورِ پاکستانی کس حد تک اس ففتھ جنریشن وار کا شکار ہو چکے اور ہمیں اپنے بچاؤ  کے لیے کیا کرنا چاہیے؟۔۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply