مغرب اور مشرق کے اخلاقیات کا موازنہ۔۔۔۔نصیر اللہ خان

اسلام مساوات یعنی برابری کا دین ہے اور پیغمبر مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم انسانی اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیے گئے۔ ان کے اخلاق کے دوست تو کیا دشمن بھی معترف تھے۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم تمام عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ زمانہ گواہ ہے کہ ان کی دوراندیشی اور بصیرت سے دنیا میں انقلاب آیا۔ ان کے دورِ حیات میں ریاستِ مدینہ جیسی جدید ریاست کی داغ بیل ڈالی گئی۔یہ بھی ماننا پڑے گا کہ دوسرے ادیان کے متعصب اشخاص کو چھوڑ کر عمومی طور پر پیشوائیت آپؐ کے اعلیٰ ظرف اور شخصیت کی معترف ہے۔
قارئین، جائزہ لیتے ہیں کہ مشرق کے لوگوں کا اخلاق مغرب سے کس طرح بدلا ہوا ہے؟ کسی بھی معاشرے کے اخلاق اور معیشت کا اندازہ اس کی سیاست، معیشت، اقتصاد، ریاستی تنظیم، تہذیب وتمدن اور کلچر وغیرہ سے مشروط اور اس کے اخلاق کا آئینہ دار ہوتا ہے۔
مجھے یہ ماننے میں تامل نہیں کہ مشرق کے ساتھ مغرب میں بھی معاشرتی برائیاں موجود ہیں۔ مغرب میں بھی چوری، ڈکیتی، کرپشن، بے حیائی اور مادر پدر آزاد لوگ رہتے ہیں۔ مشرق میں بھی کم اخلاقی برائیاں نہیں۔ بے راہ روی کا پیمانہ ہم ان کی حکومت اور دین کو ٹھہراسکتے ہیں اور نہ ہی مشرق مغربی ممالک کے لادین ہونے کی وجہ سے ان کو انسانیت سے پرے دھکیلنا ہی اسلام اور مشرق کی خدمت گردانا جاسکتا ہے۔ اس طرح اگر سائنس اور ٹیکنالوجی کو ہی موردِ الزام ٹھہراکر اپنے دل کی بھڑاس نکالیں، تو اس صورت ہم مسلمان تو رہ سکتے ہیں، لیکن صحیح طور پراسلام کی روح کو نہیں سمجھ سکتے۔ آپ سب کو معلوم ہے کہ مغربی ایجادات کی وجہ سے ہم ان کے صارف بنے ہوئے ہیں، یعنی ان کے ’’بے نیفشریز‘‘ بنے بیٹھے ہیں۔ ہمارامغرب کی معیشت، اقتصاد، ترقی اور ٹیکنالوجی کے ساتھ موازنہ ممکن ہی نہیں۔ سننے میں آتا ہے کہ ہم ایک صدی ہر ایک چیز میں ان سے پیچھے ہیں۔ چاہے وہ برطانیہ کی پارلیمانی جمہوریت ہو یا امریکہ کی صدارتی جمہوری نظام، وہاں تعلیم، صحت، معیشت،اقتصاد، زراعت اور شرحِ آبادی وغیرہ کو سائنسی بنیادوں پر حل کیا گیا ہے۔ روزگار کے مواقع ہوں یا معیشت کی بہتری، فلسفہ کی تعلیم ہو یا سماجیات، میڈیکل سائنس ہو یا دیگر سائنس  ہر جگہ وہ انتہائی جدیدیت کے حامل ہیں۔ انسانوں کا تو وہ خیال رکھتے ہی ہیں، لیکن جانور بھی ان کی پہنچ سے دور نہیں۔ الغرض ترقی پذیر ممالک کو صحت ریلیف اور امداد وغیرہ مغربی ممالک فراہم کرتے ہیں۔ سمندر کی گہرائی میں اور خلا کی وسعتوں میں انسانوں کی بہتری کا سامان ڈھونڈتے ہیں۔ ہم ازکارِ رفتہ میں اپنی بھلائی جانتے ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ مغرب کی اقتصادی ترقی نشاۃِ ثانیہ کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے۔جاگیر داری اور زمینداری ختم ہوئی، اب بات سرمایہ داری نظام پرآکر رُکی ہوئی ہے بلکہ سرمایہ داری سے ایک قدم آگے ’’نیو سرمایہ داری‘‘ ان کی منزل ٹھہری ہے۔ مغربی یاست میں موروثیت کا خاتمہ ہوا۔ سوشل جسٹس اور سوشل ڈیموکریسی کی طرف سفر رواں دواں ہے۔ اور ہم دائرہ میں گھوم رہے ہیں۔
وہاں انسانی برابری کے لیے اقدامات اٹھائے گئے۔ امتیازات کو ختم کیا گیا۔ غریب مزدور اور سرمایہ دار کے حقوق یکساں بنائے گئے۔ یہاں مسئلہ تعصب، ذات پات اوربرادری ازم کا ہے۔ ہمیں اس کی ترقی کا موازنہ کرتے غیر جانبداری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ معروض کے سائنسی پیمانے پر ترقی کے اہداف کی منزل کا تعین کرنا ہے۔ تما م تعصبات کو بالائے طاق رکھنا ہوگا اور ان سوالوں کے جوابات ڈھونڈنا ہوں گے۔
آخر ہم مغرب اور مشرق کے اخلاقیات کا موازنہ کرتے ہوئے کیوں تعصب برتتے ہیں؟ اگر مشرق و مغرب میں کچھ اچھائیاں ہیں، تو اسے قبول کرنے سے کیوں گریزاں ہیں؟ آئیے دیکھتے ہیں کہ ہمارے مجموعی اخلاق میں کیا فرق ہے ؟ کیا ہمارے ہاں سچ اور جھوٹ کے پیمانے دیگر ہیں؟ کیا ہم مسلمان ہوکر بری الذمہ ہو جاتے ہیں؟ کیا مغرب میں انسانیت ناپید ہے؟ کیا سب سسٹم کی خرابی ہے؟ کیا وہاں اچھائی سرے سے ناپید ہے؟
میں دل پر ہاتھ کر کہتا ہوں کہ ہمارا معاشرتی اخلاقی نظام ان کے مرتب کردہ انسانی اخلاقی نظام کا مقابلہ کسی طرح نہیں کرسکتا۔ اس دعوے کے ثبوت کے لیے حکومت سے لے کر اداروں کی کارکردگی اور عوام سے لے کر اشرافیہ کی بدمعاشیاں دیکھنے کے قابل اور سوالیہ نشان ہیں۔ یہ بات نہیں ہے کہ ہم میں استعداد نہیں رہا اور یا ہمارے اخلاقی نظام میں بہتری نہیں آسکتی۔ یہ بات بھی نہیں کہ ہم ان سے مرعوب ہیں۔ ہمارے اخلاق اور سیاسی نظام بالکل تبدیل ہوسکتے ہیں۔ کیوں کہ ہم حامل دین و شریعت ہیں۔ دونوں جہاں کے دعویدار ہیں۔ دراصل یہ دنیا انسانوں کی مشترکہ ملکیت ہے۔ فرضی لکیریں انسانوں میں تفاوت کا سبب بنی ہوئی ہیں ۔ ایک بات مگر یہ بھی ہے کہ مغرب کے حکمران انتہائی چالاک اور شیطان خصلت ہیں۔ اپنی رعایا کے لیے ترقی پذیر ممالک کا خون چوستے ہوئے نہیں چوکتے۔ اپنی مملکتوں کا نظام بہتر بنانے کے لیے ہمارے ملکوں میں گماشتے رکھتے ہیں۔ ہمارے وسائل لوٹنے کے طریقے سوچتے رہتے ہیں۔ یہی آلۂ کار خوئے غلامی میں پختہ تر ہوچکے ہیں۔ پارلیمنٹ کے ذریعے غیر ممالک کی پالیسیوں کو یہاں پر لایا جاتا ہے۔ مغربی طاقتوں نے شیطانی نظام کا ایسا جال بنایا ہوا ہے کہ اس میں ترقی پذیر ممالک خود بخود پھنس جاتے ہیں۔ ان سب کے باوجود ان کے عوام بہرحال جن کو زندگی کی ہر آسائش اور سہولت میسر ہے، وہ انسانیت کا درد رکھتے ہیں۔ اپنے حقوق کے علاوہ عراق اور افغانستان، شام اور لیبیا کے لیے مظاہرے اور جلسے کرتے ہیں۔ شیطانی حکمران پروپیگنڈا کرتے ہیں اور اپنے معصوم عوام سے جھوٹ بولتے ہیں۔ عوام اپنے لیڈرز کو جرم میں پکڑے جانے کی صورت ان کو اقتدار اور پارٹیوں تک سے محروم کر دیتے ہیں، لیکن ان لیڈروں کا حسد پھر بھی کم نہیں ہوتا۔البتہ یہاں پر ایسا کچھ نہیں۔ مغرب کی جنگی پالیسی کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک کے لاکھوں لوگوں کو شہید، بچوں کو یتیم اور عورتوں کو بیوہ کیا جاتا ہے، وہاں ان کی انسانیت ختم ہوجاتی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے حکمران استحصالی طبقات سے آزادی کا نہیں سوچتے۔ عوام دو وقت کی روٹی کے لیے خوار ہو رہے ہیں۔ صحت اور تعلیم کی کیا کہنے! یہاں تک کہ انسانی بنیادی حقوق تک معطل ہیں۔ قانون کی حکمرانی کا خواب ادھورا ہے۔ امتیازات اور تعصبات کا ایک سمندر ہے جس میں عوام اور خواص غوطہ زن ہیں۔ تعلیم اور صحت کا نظام طبقاتی طور پر بنایا گیا ہے۔ روزگار کچھ نہیں اورگرانی کا زور ہے۔دہشت گردی اور شدت پسندی نے عوام کا بھرکس نکال دیا ہے۔ گلی، کوچہ اور نالے زہر آلود اور گندگی کا ڈھیر ہیں۔ حفظانِ صحت کے اصول اور بہترین خوراک ناپید ہے۔ پھر بھی ہم حکومت سے تبدیلی لانے کے خواہش مند ہیں۔ البتہ پھر بھی ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ دونوں جہاں ہمارے ہیں۔
قارئین کرام! ہم غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں قلا بازیاں کھا رہے ہیں۔ ہم پھر بھی یہی فرضی سوچ رکھتے ہیں کہ یہ معاشرتی اخلاق کے حوالہ سے ہمار ے اخلاق کا مقابلہ کسی طرح نہیں کرسکتے۔

Facebook Comments

نصیر اللہ خان
وکالت کے شعبے سے منسلک ہوکرقانون کی پریکٹس کرتا ہوں۔ قانونی،سماجی اور معاشرتی مضامین پر اخباروں اور ویب سائٹس پر لکھنا پڑھنامیرا مشغلہ ہے ۔ شعوراورآگاہی کا پرچار اپنا عین فریضہ سمجھتا ہوں۔ پولیٹکل سائنس میں ایم اے کیا ہےاس لئے پولیٹکل موضوعات اورمروجہ سیاست پر تعمیری ،تنقیدی جائزے لکھ کرسیاست دانوں ، حکام اعلی اور قارئین کرام کیساتھ اپنا نقطۂ نظر،فہم اور فکر شریک کرتا ہو۔ قانون،تاریخ، سائنس اور جنرل نالج کی کتابوں سے دلی طور پر لگاؤ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply