آئیے اپنے ہیرو تلاش کریں ۔۔۔۔۔۔آصف محمود

کیا اس قوم کی قسمت میں یہی لکھا ہے کہ یہ شاہ معظم نوا ز شریف ، کوہ بصیرت قبلہ آصف زرداری ، شاہِ ذی شان عمران خان ، درویش زمان سراج الحق ، مدبر عصر فضل الرحمن وغیرہ وغیرہ اور ان کے نورتنوں اور مصاحبین خاص کے حصے کا بے وقوف بن کر ان کے فضائل بیان کرتی رہے ، ان کی دیومالائی کہانیوں پر دادو تحسین کے ڈونگرے برساتی رہے اورا ن کی مافوق الفطرت خوبیوں پر بغلیں بجاتی رہے یا اس کے پاس اتنا وقت ہے کہ گلی کوچوں میں موجود اپنے ہی جیسے ان کرداروں پر نگاہ ڈالے جو غیر معروف سہی مگر کردار کا ہمالہ ہیں اور جن کے گھر کے راستوں میں کوئی کہکشاں نہیں ہے مگر ان کی دہلیز پر کردار قوس قزح کی صورت رنگ بکھیرے ہوئے ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں جن کی بدولت سماج میں خیر موجود ہے ۔ سیدنا مسیح علیہ السلام کے الفاظ مستعار لوں تو یہ لوگ زمین کا نمک ہیں ۔ یہ ہمارے مقامی ہیرو ہیں۔

پل بھر کو رک جائیے ۔ آنکھیں بند کیجیے اور یادوں کے دریچے کھول لیجیے ۔ گلی محلے ، گاؤں شہر میں کتنے ہی بڑے لوگ آپ نے دیکھے ہوں گے۔ سراپا ایثار ، سراپا کردار، گمنام مگر عظیم لوگ۔ بڑے لوگ ۔ یہ ہمارے ہیرو ہیں ۔ ہمارے مقامی ہیرو ۔ ہمارے اصلی ہیرو۔ کبھی آپ نے سوچا ہم ان کا تذکرہ کیوں نہیں کرتے ؟ ہم کسی نفسیاتی آزار کا شکار ہیں یا احساس کمتری نے ہمیں آن لیا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کارپوریٹ کلچر نے ہیرو کے تصور کو بھی برانڈڈ کر دیا ہو اور اب مقامی اور غیر معروف کرداروں کی بات کرتے ہوئے ایک حجاب اور احساس کمتری آپ کو شکنجے میں لے لیتا ہو؟ کیا یہ سارا سماج بانجھ ہے اور اس میں ہیرو صرف وہ ہیں جو سیاست اور اقتدار کے کھیل میں نمایاں ہیں اور صاحب منصب ہیں؟ کیا سماج نے اپنا فکری بانکپن ان چند کرداروں اور ان کے کارندوں کے ہاتھ گروی رکھ دیا ہے؟

آج جب کنپٹیاں سفید ہو چکی ہیں ، میں اپنی زندگی کے ہیرو ڈھونڈنے نکلا ہوں ۔ اس تلاش میں معلوم ہوا کہ میرا سماج تو بڑے کرداروں سے بھرا پڑا تھا ، بس ہوا یہ کہ جب تک سمجھ آتی ان میں سے اکثر نے مٹی اوڑھ لی ۔ بچے شام کو ہوم ورک کرتے وقت دوسری مرتبہ کوئی سوال پوچھیں تو کوفت ہونے لگتی ہے۔ کل بھی ایسا ہی ہوا ۔ پھر مجھے پرائمری سکول کے اپنے اساتذہ یاد آگئے۔ سلانوالی کے استاد سلطان صاحب ، دھریمہ کے استاد رمضان صاحب اور سرگودھا کے استاد ملک احمد شیر صاحب ۔ پڑھا تے نہیں تھے ، وہ اپنا خون جگر جلا تے تھے ۔ کتنی تنخواہ ہوتی ہو گی؟ چند ہزار؟ پھر یہ کیا معاملہ ہے کہ آج مجھ سے میرے اپنے بچے پڑھنا چاہیں تو اکتاہٹ ہونے لگتی ہے لیکن میرے اساتذہ نے مجھے یوں پڑھایا کہ آج سوچ رہا ہوں تو حیرت زدہ ہو کر بیٹھا ہوں کہ کوئی اپنے کام کے ساتھ اتنا مخلص بھی ہو سکتا ہے . یہ سب میرے ہیرو تھے ۔ بس احساس اب ہوا جب یہ بھی معلوم نہیں ان میں سے کتنے زندہ ہیں اور کتنے اپنے رب کے حضور پہنچ گئے۔

میری پرورش گاؤں میں میرے نانا کے گھر میں ہوئی ۔ چودھری ظہیر الدین گوندل ۔آج جب انہیں مٹی اوڑھے قریبا ایک عشرہ ہونے کو ہے معلوم ہوا کہ وہ بھی ایک ہیرو تھے۔ جس شخص کو زندگی بھر نہ جھوٹ بولتے سنا ہو نہ اونچا بولتے، جس نے کبھی کسی کا برانہ چاہا ہو، جس کے حریف بھی اس کے کردار اور دیانت کی گواہی دیتے ہوں ۔ میں کہہ سکتا ہوں میں نے کردار ، متانت ، دیانت اور شرافت کو ان میں مجسم دیکھا ہے۔

حضرت مولانا شہاب الدین بھی میرے ہیرو ہی تھے ۔ دیوبند مکتب فکر کے ایک جید عالم دین ۔ ان کی محفل میں حد ادب سے لوگ ہاتھ باندھے سر جھکائے حاضر ہوتے تھے لیکن وہ مجھ سے کرکٹ میچ کی کمنٹری سنا کرتے تھے کہ آج کیا ہوا ۔ تب میں سمجھتا تھا شاید وہ بھی کرکٹ کو پسند کرتے ہیں لیکن بہت بعد میں احساس ہوا کہ کہانی تو کچھ اور تھی ۔ ہوا یہ کہ میں گاؤں سے ایک روز شہر آیا ، چھوٹے بھائی نے کہا مولانا صاحب کی کوئی تصویر نہیں کسی طرح اگر ایک فوٹو بن جائے ۔ میں نے کہا یہ کون سی بات ہے کیمرہ مجھے دو ۔ میں کیمرہ لے کر مسجد چلا گیا ۔ مولانا نوافل پڑھ رہے تھے میں نے سامنے کھڑے ہو کر فوٹو بنا لی۔کیمرے کی فلیش آن ہوئی اور مولانا نے نماز توڑ دی غصے سے ان کا چہرہ سرخ تھا ۔ انہوں نے مجھ سے کیمرہ لے لیا اور مجھے حیرت ہوئی کہ پھر واپس کر دیا اور دوبارہ نماز میں مشغول ہو گئے۔ ایک سچے داعی کی طرح انہوں نے جان لیا کہ اس نامعقول کو ڈانٹ دیا تو ایسا نہ ہو دین ہی سے دور ہو جائے۔ وہ مجھ سے بے تکلف ہو گئے اور میرے موج میلے کے راستے ایک ایک کر کے بند کرنا شروع کر دیے۔ صبح کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھنا کوئی آسان کام نہ تھا ۔ ایک روزمولانا نے پوچھ لیا تم صبح کی نماز میں غائب کیوں ہوتے ہو؟ میں نے جھوٹ بول دیا واک پر جاتا ہوں وہیں نماز پڑھتا ہوں ۔ فرمایا واہ یہ تو بہت اچھا ہوا کل سے ایسا کرو مجھے بھی لے جایا کرو واک بھی کرلیا کریں گے اور وہیں نماز بھی پڑھ لیا کریں گے۔ اب اس سے تو آسان کام تھا جا کر نماز پڑھ لی جائے اور واپس آ کر سوجایا جائے۔ میں نے نماز شروع کر دی اور انہوں نے پھر واک کا نہیں پوچھا ۔میں خوش ہوا بھول گئے۔ اب احساس ہوا ہے بھولے نہیں تھے ان کا مقصد پورا ہو گیا تھا ۔

ایک شام میں ایف سکس سے نکلا تو مارکیٹ میں ایک عورت پنسلیں بیچ رہی تھی ۔میں نے ایک پنسل خریدی اور پچاس روپے دے کر آگے بڑھ گیا ۔ اس نے آواز دے کر روکا اور بقایا پیسے تھما کر سخت لہجے میں کہا : بھکاری نہیں ہوں ۔ معلوم نہیں یہ بوڑھی ماں کون تھی لیکن یہ میری ہیرو تھی ۔ ایف سکس ہی میں ایک صاحب ایک پارک میں کوڑا اکٹھا کرنے والے بچوں کو اکٹھا کر کے انہیں روز پڑھا رہے ہوتے ہیں ۔ معلوم نہیں یہ صاحب کون ہیں لیکن یہ میرے ہیرو ہیں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب میرے ہیرو ہیں ۔لاس اینجلس میں اولمپک گیمز میں پاکستان کے لے میڈل جیتنے والی گیارہ سالہ معذور نایاب میری ہیرو ہیں ۔اسلامیہ کالج کے ریٹائرڈ سیکیورٹی گارڈ سید باچا میرے ہیرو ہیں جنہوں نے پنشن کی رقم سے سٹیشنری کی دکان کھولی اور طلباء کو سستی چیزیں دینا شروع کر دیں ۔ اب سوچنا شروع کیا ہے تو فہرست طویل ہوتی جا رہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

آئیے ہم سب اپنے ارد گرد اپنے ہیروز تلاش کریں۔اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply