ایران، ترکی، یونان اور سپین کا ڈنکی روٹ غربا کا روٹ تھا اور غریب خاندانوں کے ان بچوں کے لیے تھا جن پر یہاں کے سسٹم اور حاکموں نے زندگی تنگ کر دی گئی تھی۔وہ غربت کے چنگل سے کسی طرح بھی نکل جانا چاہتے تھے۔مار کر یا مر کر کسی بھی طرح۔ وہ بیگانگی اور بے کسی کی ایک مثال تھے کہ تعلیم کے اخراجات وہ برداشت نہیں کر سکتے تھے روزگار کے مواقع انہیں دستیاب نہیں تھے اور اگر ہوتے بھی تو اتنے لوگوں میں سے کتنوں کو بیس تیس ہزار کی ملازمت مل سکنی تھی۔اب تو انجنئیر کو تیس چالیس ہزار کی ملازمت ملنا بھی ایک عجوبہ تصور ہوتا ہے اس پر ماں باپ کی معاشی حالت سدھرنے کے امکان بھی نہ ہونے کے برابر۔
دوئم اس میں ڈنکی روٹ میں ٹائم فیکٹر بھی تھا کہ کہیں پہنچنے کے لیے دو تین ماہ اور بسا اوقات ایک سال تک کا عرصہ لگ سکتا تھا اور واقعتاَ لگا بھی کہ ایک چودہ سالہ لڑکا ایک سال تک ترکیہ میں ایک مہربان کے گھر میں مقیم رہا۔اگلی منزل یونان بھی نہ پہنچ سکا اور اس کے پلّے واپسی کے لیے مطلوبہ رقم بھی نہیں تھی۔والدین کا اصرار تھا کہ اب واپس نہ آنا یہاں تو گھر میں مشکل سے گزارہ چل رہا ہے ایجنٹوں کو واپسی کے لیے اتنی مطلوبہ رقم ادا کرنے کی کوئی سبیل نہیں۔سوئم اس میں بارڈر پر گولی لگنے اور زخمی ہونے یا موت واقع ہونے کے چانس زیادہ ہوتے تھے۔لانچوں کے غیرقانونی لمبے سفر میں بھی یہی مسائل تھے۔جان جوکھوں میں ڈالنا کسے کہتے ہیں یہ بس وہ لڑکے ہی بتا سکتے تھے۔
اب امریکہ وایا ڈنکی روٹ نئی دریافت ہے اور یہ ان غربا اور غربا کے بچوں کا مسئلہ نہیں۔یہ اونچی گیم ہے اور امرا کا ڈنکی روٹ ہے۔اس سے قبل پیرس بھی ڈنکی روٹ کا شکار ہوا تھا اور الا ماشاللہ ہماری قومی لاجواب سروس اس میں سہولت کار تھی۔ادھر پینتیس لاکھ روپیہ ادا ہوا ادھر آپ بغیر ویزا اور ٹکٹ کے اس لاجواب لوگ آرام دہ وڑائچ طیارہ کے ذریعے اپنے ملکِ عزیز سے ہمیشہ کے لیے نکل گئے۔بعد میں سوشل میڈیا پر یورپ پہنچنے پر مبارک بادی پوسٹیں گردش کرتی تھیں۔
یوں تو پاکستان کیا بہت سارے غریب ممالک میں نئے نئے طریقے آزماتے ہیں اور انسانی سمگلنگ کا ذریعہ بنتے ہیں مگر ہمارا ملک اور ہمارا ضلع ہمارا ضلع نئے نئے ڈنکی روٹ دریافت کرنے کا ماہر ہے۔ابھی اپنی مایہ ناز وڑائچ طیارے کے سٹاف کے ذریعے فرانس کے دل پیرس میں بغیر ویزا اور ٹکٹ اترنے کی سیاہی خشک نہیں ہوئی تھی کہ معلوم ہوا کہ ارحم امریکہ جا رہا ہے اور اس کی شادی بھی ہونے والی ہے۔
شادی اور امریکہ پہنچنے کی نوید ایک دوسرے کے ساتھ جڑے تھے۔
ارحم کا تھوڑا تعارف کروانا ضروری ہے۔ارحم کے خاندان کے کم و بیش سارے افراد امریکہ اور کینیڈا نکل چکے ہیں۔یہ سلسلہ دس پندرہ سال پہلے شروع ہوا تھا اور ان میں ایک بھی قانونی طریقے سے وہاں نہیں پہنچا تھا اسی لیے ان کے حوصلے بھی بلند تھے اور امریکہ جانا گویا ان کے لیے قطعاً مشکل بھی نہ تھا۔۔چند سال قبل تک ان ممالک میں جانا بیس پچیس لاکھ کا کھیل تھا اب ایک کروڑ نقد کا ہو چکا ہے نہ ایک روپیہ کم نہ ایک روپیہ زیادہ۔ارحم اور اس کے گھر والوں کے نزدیک یورپ کے ممالک کی حیثیت عرب ممالک کے برابر ہو چکی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ یورپ میں بھوک، کساد بازاری، مہنگائی اور برے حالات ہیں اب ہم اگر یہاں سے نکلیں گے تو سیدھا کینیڈا اور امریکہ جائیں گے۔مڈل ایسٹ جانے والے نوجوان روزگار کے لیے جاتے ہیں اور سال چھ ماہ کے بعد واپس آتے ہیں۔کچھ دن قیام کر کے پھر چلے جاتے ہیں۔مگر امریکہ اور یورپ جانے والے کبھی نہ واپس آنے کے لیے جاتے ہیں۔
اب امریکہ بذریعہ ڈنکی روٹ متعارف کرانے کا سہرا تو کسی عالمی گینگ کے سر ہو گا مگر ہمارے ضلع کے امرا کے لڑکے اس کے لیے دیوانے ہو چکے ہیں۔یہ ڈنکی روٹ دنیا کی نمبر ون ائر کمپنیوں کے ذریعے سر انجام پاتا ہے یہاں وڑائچ طیارہ والی کارستانی کی گنجائش نہیں۔اس لیے ان کمپنیوں کا نام ہی تو ان کی پہچان ہے وہ کبھی ایسے دو نمبر کاموں میں منہ کالا نہیں کرتے۔طریقہ یہ ہے کہ یہاں سے لڑکے باقاعدہ ویزہ کے ذریعے میکسکو پہنچائے جاتے ہیں۔میکسیکو سے پھر وہی ہمارا آزمودہ ڈنکی روٹ اپنایا جاتا ہے اور امریکہ میں داخل کر دیا جاتا ہے۔یہ سارا کام ایک باقاعدہ طریقہ سے انجام پاتا ہے۔ میکسیکو سے ایک عدد گوری پاکستان لائی جاتی ہے اسے باقاعدہ مسلمان کر کے دولہے کو اس کے ساتھ روانہ کر دیا جاتا ہے۔اس ڈنکی روٹ پر محض ایک کروڑ روپیہ صرف ہوتا ہے ستر لاکھ ایجنٹس کے اور باقی جیب خرچ کے لیے ساتھ بھیجے جاتے ہیں۔
صرف میکسیکو نہیں وسطی امریکہ کے ایسے ایسے ممالک ہیں جن کے ناموں سے بھی ہم واقف نہیں وہ ان لڑکوں کا ایک سٹاپ ہوتا ہے۔جیسے ایک ملک بیلائز ہے جس کا دارالخلافہ بیلوموپان نام کا ہے وہاں سے بھی امریکہ میں داخل ہونے لیے انتظامات موجود ہوتے ہیں اور وہاں سے بھی تارکین ِوطن غیر قانونی پر بارڈر کراس کرتے ہیں۔
امریکہ پہنچ کر امرا کے یہ بچے ٹیکسی چلاتے ہیں۔ادب آداب کے قائل ہو جاتے ہیں قانون کی پابندی کرتے ہیں اور ٹیکسی چلانے کے اوقات چنتے ہیں۔ان کے لیے پرائم ٹائم صبح چار بجے شروع ہوتا ہے اور سات آٹھ بجے تک چلتا ہے۔اس دوران کسٹمر ان کو ٹپ دیتا ہے تو یہ شکریہ تھینک یو کہہ کر دس دس بیس بیس ڈالر وصول کرتے ہیں۔یہ بخشش دن کے اوقات میں کم ہی ملنے کی توقع ہوتی ہے۔ایک سال ٹیکسی چلانے پر وہ ایک کروڑ روپیہ کما لیتے ہیں۔ تحریک خلافت کے دوران صرف پچاس ہزار لوگوں نے کافروں کی زمین یعنی اس دھرتی سے ہجرت کی تھی۔مگر یہ لوگ بہت پڑھے لکھے تھے اور ان کی شعور کی سطح عام آدمی سے زیادہ تھی۔وہ ہمارے علاقوں سے گزر کر ہی اسلامی ملک افغانستان گئے تھے۔یہ فتوٰی ابوالکلام آزاد نے دیا تھا۔پاسپورٹ کا نظام بیسویں صدی کا تحفہ ہے ورنہ موجودہ حالات میں تو ہر دوسرا پاکستانی اس ڈنکی روٹ کا انتخاب کر لیتا اور کسی فتویٰ کا طلب گار بھی نہ ہوتا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں