پی ٹی آئی کا دماغ نہیں رہا۔۔۔نجم ولی خان

جناب اسد عمر کو پی ٹی آئی کا دماغ کہاجاتا تھا، یہ میں نہیں وہ کہتے تھے جومحترمہ ریحام خان کو مادر ملت بھی کہہ لیتے تھے، مجھے اگر اپنے ملک کی معیشت بارے انتہا درجے کی تشویش نہ ہوتی تو میں اس وقت قہقہے لگاتا مگریہ مقا م افسوس کا ہے، آہ و بکا کا ہے کہ ایک شخص ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے اور قوم کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھنے کے بعداس وقت باعزت اندا ز میں رخصت کر دیا گیا ہے جب بجٹ کی تیاری کا عمل بھی شروع ہو چکا ہے۔ یہ غلط موقعے پر لیا گیا ایک درست فیصلہ تھا، درست وقت وہ ہوتا جب بجٹ پیش کر دیا جاتا مگر بھیجنے والی حقیقی قوتوں کو یقین ہو گیا ہے کہ جناب اسد عمر میں نیا بجٹ تیا ر کرنے کی اہلیت ہی نہیں ۔ عین ممکن ہے اسد عمر کے رخصت ہونے کے بعد بجٹ اتنا برا اور ناقابل برداشت نہ رہے جتنی اُمید کی جا رہی ہے۔ جواز تو یہ بھی درست ہے کہ جب خزانہ ہی نہیں رہا تو پھر وزیر خزانہ کی بھی ضرورت نہیں، آہ، جس نے ایک کروڑ نوکریاں دینی تھیں وہ خود بے روزگار ہو گیا۔

اچھے اور نفیس لوگ چلے جانے والوں کے لئے برے الفاظ استعمال نہیں کرتے، میں نے بھی یہاں کچھ اچھی باتیں تلاش کرنے کے لئے گھنٹوں صرف کئے ہیں۔ پہلی اچھی بات یہ ہے کہ عمران خان صاحب نے8 مہینوں میں پہلا درست فیصلہ ڈیلیورکیا ہے اور اسد عمر صاحب نے اسے قبول کیا ہے مگراس کے بعد جناب وزیراعظم نے انہیں پیش کش کی کہ وہ خزانے کی بجائے توانائی کے وزیر بن جائیں ، اب یہاں پاکستا ن میں براہ راست توانائی کی کوئی وزارت نہیں ، اس وزارت کی تشریح وزارت پٹرولیم کے طور پر بھی کی جاسکتی ہے اور وزارت بجلی و پانی کے طور پر بھی۔ یہاں اسد عمر کی ذاتی خوبی اور پوری پاکستانی قوم پر احسان ہے کہ انہوں نے یہ وزارت قبول کرنے سے انکار کر دیا ورنہ انہوں نے جو حال خزانے کا کیا ہے وہی حال توانائی کے شعبے کا کرتے اور جس طرح انہوں نے ریکارڈ مہنگائی کی ہے وہ یقینی طور پرپٹرول کی قلت کا ایک نیا ریکارڈ قائم کرتے یابجلی کی لوڈ شیڈنگ میں پیپلزپارٹی دور کا ریکارڈ توڑ دیتے۔ اس وقت بھی بطور وزیر خزانہ ان کی توانائی کے شعبے میں خدمات کا اندازہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے سرکلر ڈیبٹ کی صورت میں لگایا جا سکتا ہے اور اگر تجویز بجلی اور پانی کی وزارت ہی کی تھی تو وزیراعظم نے وزارت بجلی و پانی کی تباہی کے لئے پاکستان کے سب سے پہلے آمر کے بیٹے کی صلاحیتوں کا غلط اندازہ لگایا، عمر ایوب خان توانائی کے شعبے کا کم و بیش وہی حال کریں گے جو معیشت کا اسد عمر نے کیا مگر اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اسے تسلیم کرنا ہوگا کہ محکمے کو تباہ کرنے میں ان کی دلچسپی اور رفتار بہرحال اسد عمر سے کم ہے۔ تجویز تھی کہ اسد عمر کو سمندر کی لہریں گننے کی وزارت دے دی جائے مگراس کے بعد کراچی کی خیر نہیں تھی۔

ہمارے نیوز چینلز اس ہفتے کے شروع میں ہی قرار دے رہے تھے کہ اسد عمر رخصت ہو رہے ہیں مگر حکومت نہیں مان رہی تھی بلکہ دو چینلوں کو تو اس پر باقاعدہ نوٹس بھی جاری کر دئیے گئے مگریہ پی ٹی آئی کا ہی اعزازہے کہ اس کے بارے ہر غلط خبر، درست خبر ثابت ہوتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ نیا وزیر خزانہ کون ہوگا اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق جناب شوکت ترین موجودہ اقتصادی صورتحال کے پیش نظر بے عزت ہونے کی یہ عظیم پیش کش مسترد کر چکے ہیں مگر دوسری طرف مشرف دور کے ہئیر اسٹائیل کنگ ڈاکٹر سلمان شاہ نے حکومت کو مشورے دینے شروع کر دئیے ہیں کہ وہ فوری طور پر آئی ایم ایف کا پیکج قبول کر لے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت فوری طور پر نئے وزیر خزانہ کا تقرر کرے ۔ اگر سلمان شاہ آئی ایم ایف کے ذریعے توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو مشرف دور کا ایک اور وزیر موجودہ سیٹ اپ کا حصہ بن جائے گا اور رفتہ رفتہ اس کابینہ میں اجنبی شائد خان صاحب ہی رہ جائیں۔ کچھ حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسد عمر کی رخصتی کی وجہ معیشت کی بری حالت نہیں بلکہ پارٹی کی اندرونی دھڑے بندی ہے کہ اسد عمر، جہانگیر ترین کے مخالف تصور کئے جاتے تھے۔

شروع میں کہا کہ جناب اسد عمر پی ٹی آئی کا دماغ سمجھے جاتے تھے، سووہ اب نہیں رہے ، سوال یہ کیا جا رہا ہے کہ اگر پی ٹی آئی دماغ کے ساتھ اس کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی تھی تو بغیر دماغ کے کیا کرے گی۔ ویسے بھی اکنامکس کے ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کے اصول کے تحت ایسے دماغ بہت قیمتی سمجھے جاتے ہیں جو ہزاروں سروں سے چند گرام ملیں۔اسد عمر پٹرول چوالیس روپے لیٹر بیچنے کے حامی تھے اور اپنے خواب یوںپورے کئے ڈالر ایک سو چوالیس کا کر گئے۔ جاتے جاتے انہوں نے آخری ’ خوش خبری‘ یہ سنائی تھی کہ ہر وہ شے مہنگی کی جائے گی جو نواز لیگ نے نہیں کی تھی۔مجھے مولانا فضل الرحمان سے ( غلط یا درست طور پر) منسوب بات یاد آگئی کہ اسد عمر ملک کا نااہل ترین آدمی ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی میں اس سے زیادہ اہل اورباصلاحیت بھی کوئی نہیں ۔ حمزہ علی عباسی نے کہا ہے کہ پیغام بہت اونچا اور واضح ہے کہ چاہے تم پارٹی میں کتنا ہی بڑا نام کیوں نہیں ہو، چاہے تم وزیراعظم عمران خان کے کتنے ہی قریب کیوں نہیں ہو،تم توقعات کے مطابق ڈیلیور نہیں کرو گے تو تمہیں جانا پڑے گا۔ مجھے بعض لوگوں کی ’کاں چٹا‘ کرنے کی صلاحیت پر رشک آتا ہے جوگوبر کے بطور خوراک فوائد بیان کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آپ چاہے خود کو کتنی ہی بڑی توپ چیز کیوں نہ سمجھ رہے ہوں آپ کو اقتدار کی خاطر قربان کیا جاسکتا ہے ۔ جہاں جہانگیر ترین کی قربانی دی جا چکی ہو وہاں اسد عمر کی رخصتی کیا معنی رکھتی ہے،غیر مصدقہ قول کے مطابق بلی کے جب پاﺅں جلنے لگتے ہیں تو وہ بچوں کوپیروں تلے دبا لیتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وزیراعظم نے پٹرولیم کے وزیر غلام سرور خان سے بھی استعفیٰ لے لیا ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ اسد عمر کو پٹرولیم کا وزیر ہی بنانا چاہتے تھے مگر اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ حکومت ایک کروڑ نوکریاں پیدا کرنے میں بہت سنجیدہ ہے اور وہ سب سے پہلے نئے وزیروں کی نئی نوکریاں پیدا کر رہی ہے۔ ویسے اگر آپ مجھ سے پوچھیں تونام چاہے سلمان شاہ، حفیظ پاشا ، حفیظ شیخ ، شمشاد اختر اور عشرت حسین کے آتے رہیں، میری نظر میں اسد عمر کا ایک ہی متبادل ہے اور وہ مولانا خادم رضوی ہیں جنہوں نے اسد عمر کے مقابلے میں ہی اقتصادی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک کو قرضوں اور سود سے پاک کرنے کا مقدس اوربابرکت راستہ تجویز کیا تھاکہ حکومت تمام لئے گئے سودی قرضوں کے معاہدے منسوخ کر دے، سود تو ہرگز نہ دے اور اصل قرض بارے بھی کہا جائے کہ جب پیسے ہوں گے تب دے دیں گے اور اگر کوئی قرض خواہ اصرار کرے تو اسے کہہ دیا جائے ” اے آیا پیا جے غوری“، ہم اعلانات اور کارکردگی کے حوالے سے اسی آئی کیو لیول والے نئے پاکستان میں رہ رہے ہیں۔

Facebook Comments

نجم ولی خان
ڈائریکٹر جنرل پاکستان ریلوے،کالمسٹ،اینکر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply