کنٹرولڈ میڈیا ریاست۔۔۔۔۔ سبط حسن گیلانی

یہ سرنامہ کلام میرا نہیں، بلکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے الفاظ ہیں جو انہوں نے  فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت کرتے ہوے ادا کیے۔ انکا کہنا تھا کہ ہم ایک کنٹرولڈ میڈیا ریاست کے اندر جی رہے ہیں، اور معلوم نہیں کونسی قوتیں حکومت چلا رہی ہیں۔یہ بات اب بغیر کسی شک و شبہ کے کہی جا سکتی ہے کہ میڈیا اس وقت پابند سلاسل ہے۔ بڑی ہنر مندی سے میڈیا کی چائنا کٹنگ   جیسی پلاٹنگ ہو رہی ہے۔ بہت سارے باخبر صحافی بھی اس بات سے اتفاق کرتے نظر آتے ہیں کہ پرویز مشرف دؤر میں میڈیا کو بے پناہ آزادی اور وسعت ملی۔ یہ بات نظر بظاہر درست معلوم ہوتی ہے مگر حقیقی مقاصد کچھ اور تھے اس وسعت قلبی کے پیچھے جس کا ادراک بہت کم لوگوں کو تھا۔ میڈیا کی اصل قوت اس کا حجم اور پھیلاو نہیں ہوتا بلکہ اس کا پروفیشنل ہونا ہوتا ہے۔ جیسا کہ ایک صحافی کی اصل قوت اور عزت اس کے پیشے کے بنیادی اصولوں سے منسلک رہنا اور عوام کے مفادات پر کوئی سمجھوتا نہ کرنا ہوتی ہے ٹھیک اسی طرح ایک میڈیا ہاوس خواہ وہ پرنٹ ہو یا الیکٹرونک جب تک وہ اپنے بنیادی پیشہ ورانہ اصول و ضوابط کا پابند ہے اور ان پرکوئی سمجھوتا نہیں کرتا وہ معزز بھی ہے اور طاقتور بھی۔ مگر بدقسمتی سے ایسا ہو نہیں سکا۔ تھوک کے حساب سے غیر پیشہ ورانہ عناصر کالیکٹرونک چینلز کے بازار میں نمودار ہونااس میڈیا کے خلاف ایک سوچی سمجھی سازش تھی۔ پیشہ ورانہ صحافتی اقدار کا ماضی رکھنے والے یعنی وہ لوگ جن کا پرنٹ میڈیا سے پرانا تعلق تھا، وہ بہت کم لوگ تھے۔ صرف ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جا سکنے والے۔ زیادہ تر وہ لوگ تھے جن کا صحافت و ذرائع ابلاغ سے دور دور کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ کوئی سونے کا کاروباری تھا کوئی گھی والا کوئی تمباکو والا تو کوئی پراپرٹی ایجنٹ اور کوئی کھرا کاروباری ایک سے دو نہیں بلکہ پانچ پیدا کرنے کی ہوس میں مبتلا۔ان میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جس کو جمہوریت یا آزادی راے جیسی کسی شے سے کوئی دلچسپی ہو۔ اب چینلز کی اجازت ملنے کی دیر تھی کہ اینکرز کی بھرتی کے سنٹرز کھل گئے۔ وہ لوگ جو پرنٹ میڈیا سے پہلے سے منسلک تھے انہوں نے کسی نہ کسی حد تک بنیادی تقاضوں کا خیال رکھا کہ اینکر پرسن کی کرسی پر اسے بٹھایا جائے جو کم از کم درست زبان بولنے پر قادر ہو، کم از کم اتنی قدرت کہ کتابچے کو کُتا بچہ اور مجتہد کو مچھندر نہ پڑھنے والا ہو۔ خبر اطلاع تجزیے رپورٹ بیان اور کالم کے درمیان فرق جاننے والا ہو۔ لیکن اس احتیاط کے باوجود بھی بہت سارے ایسے لوگ گھس آنے میں کامیاب ہو گئے جو ہر گز اس کام کے لائق نہیں تھے۔

دوسری طرف وہ چینلز مالکان تھے جنہیں نہ ان باتوں کا شعور تھا نہ شوق۔ چنانچہ ایسے ایسے لوگ درجہ صحافت پر فائز ہوئے جن کا صحافت اخبار کتاب شعر نظم نثرسے وہی تعلق تھا جو ایک دینیات کے استاد کا سائنس و ٹیکنالوجی سے ہوتا ہے۔ان میں سے کچھ تو وہ تھے جو بولنے پر قادر تھے کسی بھی موضوع پر بغیر سوچے سمجھے بولے چلے جانے کی صلاحیتوں سے مالا مال تھے۔ ان کے لیے تو الیکٹرونک میڈیا بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا والا محاورہ سچ ثابت ہوا۔ غیر جمہوری قوتوں نے ایسے عناصر کی پیٹھ پر ہاتھ رکھا تو خود کو اس میدان کا پہلوان سمجھنے لگے۔ جمہوری قوتوں کو اور جمہوریت کو وہ ایسے چیلنج کرنے لگے جیسے اکھاڑوں میں پہلوان ایک دوسرے کو کرتے ہیں، مگر بہت سارے وہ بھی تھے جن کا کسی اکھاڑے اور کسی پہلوان سے کوئی تعلق بھی نہیں تھا مگر وہ خود ہی رضا کارانہ طور پر لنگر لنگوٹ کس کر اس میدان میں اُترے اور خود کو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفا دار ثابت کرنے کی مہم پر جُت گئے۔

چنانچہ میڈیا کی اس بہتی گنگا کے ساتھ وہی حشر ہوا جسے پنجابی زبان میں ”انہھی پیے تے کُتی چٹے“ کہا جاتا ہے یعنی اندھی پی رہی ہے اور کتیا چاٹ رہی ہے۔ یہ ساری صورت حال غیر جمہوری قوتوں کے حق میں تھی۔ لیکن اس کے باوجود گو چند ایک ہی مگر ایسے صحافی بھی اس منظر نامے پر اُبھرے جو صحیح معنوں میں صحافی تھے۔ جو صحافیانہ اقدارعوامی مفادات جمہوریت اور آزادی اظہار کی اہمیت سے واقف تھے اور اس پر سمجھوتا کرنے پر تیار نہیں تھے۔ چناچہ غیر پیشہ ورانہ کھلاڑیوں سے جو صحافت کا لبادہ اوڑھے ہوے تھے ان صحافیوں کے خلاف پروپیگنڈہ کروایا جانے لگا۔ انہیں غیر محب وطن دشمنوں کا ایجنٹ اور لفافہ صحافی قرار دیا جانے لگا۔ آج جب کہ ایک ایسی حکومت برسر اقتدار ہے جسے ہم تو جمہوری سمجھنا چاہتے ہیں مگر دنیا ایسا نہیں سمجھتی، یہ حکومت آزاد صحافت کے ساتھ کھڑی نہیں ہے بلکہ صحافت اور آزادی اظہار کو غیر جمہوری قوتوں کی ایما پر ایک خاص اور محدود سانچے میں ڈھالنا چاہتی ہے۔ وہ عوام کو بتا رہی ہے کہ میڈیا کے کچھ خاص حلقے ہمارے اس لیے خلاف ہیں کہ ہم اشتہارات کی شکل میں ان کی بے جا مراعات کے خلاف ہیں۔ یہ حکومت ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت جس کا ڈرافٹ ان کا اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا بھی نہیں ہے پر عمل درآمد چاہتی ہے۔ یہ بظاہر صحافیوں کے خلاف نہیں ہے ایسا ظاہر کر رہی ہے اور اپنا دباؤ میڈیا مالکان پر رکھے ہوئے ہے۔ میڈیا مالکان اشتہارات نہ ملنے کا رونا رو رہے ہیں، وہ بیک وقت بڑی بڑی عمارتیں اور پلازے بھی تعمیر کر رہے ہیں ائیر لائنز کھڑی کر رہے ہیں مگر دس بیس تیس پچاس اور ایک لاکھ والے پیشہ ور صحافیوں کو بے روزگار کر رہے ہیں۔اور اس مندے دھندے کا بہانا کھڑا کر کے ان قدآور صحافیوں کو نکال باہر کیا جا رہا ہے جو اپنے نظریات پر سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں۔یہ بنیادی طور پر چومکھی لڑائی ہے جو آزادی اظہار کے خلاف لڑی جا رہی ہے۔ وہ غیر پیشہ ورانہ عناصر جن کا صحافت سے بنیادی طور پر کوئی تعلق نہیں تھا مگر میڈیا کی آڑ میں خاصے طاقتور ہو چکے تھے انہیں بھی لگام ڈالنا ہے اگرچہ وہ بغیر لگام کے ہی سر جھکا کر سدھائے ہوئے ٹٹو کی طرح چل رہے تھے۔دوسرے وہ جن کا تعلق صحافت سے تھا اور پرنٹ میڈیا سے الیکٹرونک میڈیا میں داخل ہو کر خود کو بادشاہ گر سمجھ رہے تھے ان کی مشقیں کسنا ہیں۔ ان لوگوں نے اگرچہ کچھ ہاتھ پاؤں ہلائے مگر جلد ہی ”راہ راست“ پر آ گئے۔ اور تیسرا اور اصل ہدف کہ جمہوریت اور آزادی اظہار پر یقین رکھنے والی آوازوں کو خاموش کروانا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ تیسرا ہدف کس حد تک حاصل ہو پاتا ہے یہ مستقبل قریب میں معلوم ہو جائے گا۔ عمومی طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ اس مقصد میں کماحقہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکے گی کیونکہ جدید مواصلاتی ذرائع ابلاغ اب ایسا روپ دھار چکے ہیں جن پر جدید اور طاقتور ریاستوں کا بھی پوری طرح بس نہیں چل رہا۔بنی نوع انسان اب اپنی طویل قربانیوں سے حاصل کی ہوئی آزادیوں اور علم کے بل بوتے پراتنا بے بس نہیں رہا کہ اسے پھر سے ماضی کی بے بسی اور تاریکی میں دھکیلا جا سکے۔ آزادی اظہار پر یقین نہ رکھنے والی قوتوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی قدیم استحصالی سوچ کی تنگ نالیوں سے باہر نکلیں اور اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ آزادی اظہار پر پابندیوں سے اگر وقتی طور پر کچھ مقاصد حاصل کر بھی لیے گئے تو وہ کبھی بھی ملک و قوم کی بہتری و ترقی میں ممدو معاون ثابت نہیں ہو سکیں گے۔

Facebook Comments

سبطِ حسن گیلانی
سبط حسن برطانیہ میں مقیم ہیں مگر دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ آپ روزنامہ جنگ لندن سے بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply