قرآن گمراہی نہیں ۔۔۔۔۔۔ سلمان اسلم

انقلاب اور تبدیلی لانے کے لیے دنیا پوری میں اک نعرہ مشہور ہے کہ اصل تبدیلی یا انقلاب قلم سے آتی  ہے نہ کہ تلوار سے۔ اس بات میں کتنی صداقت ہے اور کتنے کوئی انقلاب یا تبدیلیاں اس دنیا پوری میں اسی مقولے کے مصداق رونما ہوئی ہیں یہ سردست ہمارا موضوع نہیں۔ اسی  حوالے سے اگر سوچااور پرکھا جائے تو انسانی ذہن ، سوچ و فکر میں دوسرے زوایے  مٹاکر اپنا مخصوص نقط نظر کے حامل زوایہ بٹھانے کے لیے بھی زور بازو نہیں بلکہ الفاظ کے سحر اور طاقت کارگر ثابت ہوتے ہیں۔ اس کی عکس بندی کے لیے مجھے کسی دشت یا صحراؤں کے طواف نہیں کرنے پڑے بلکہ اپنے گھر چاردیواری کے اندر پایا ، دیکھا اور محسوس کیا۔ اور یہ ہر دوسرے گھر میں چل رہا ہوتا ہے بس اسکو دیکھنے اور محسوس کرنے کے لیے اس خول سے باہر آنا پڑتا ہے۔

اک عجیب سا مشاہدہ ہے ، یہ رویہ اور نصوص بھرا مزاج ان گھرانوں کا زینتی طوق بنتا /بنا ہوا ہے جہاں پیری مریدی کے واویلے اور شور وغوغے ہوتے ہیں ۔ پیری مریدی کے لفظ آنے پر یہاں اپنا ذاتی نقطہ  نظر بیان کرتا چلوں ورنہ مجھے بدعقیدہ اور بےدین  سمجھے جانے میں   دیر نہیں لگے گی۔
شہر بغداد کی  عظیم ہستی جناب شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ کا قول مبارک ہے ۔ ” جو قرآن و حدیث ( علم اور فہم) کے بغیر تصوف کو گیا تو وہ ہلاک ہوا ، اور جو قرآن وحدیث کے ( علم اور فہم) کے بعد یاساتھ تصوف تک گیا تو اس نے فلاح پائی ۔” (مفہوم)

اب اس قول کو سامنے رکھ  کر دور حاضر کی  پیری مریدی کو پرکھیں تو دودھ کا دودھ پانی کا پانی ازخود سامنے آجائے گا۔ اسی تناظرے میں اپنے مشاہدے کو بھی اوپر لکھ دیا۔ واللہ اعلم بالصواب۔
میں اپنے مشاہدے کی بنیاد تین مختلف بندوں سے ملے ہوئے اک ہی طرح کے جواب پہ رکھتاہوں ۔ قبل از  کتب درج ذیل میں سوال وجوابات من وعن الفاظ سے نہیں اپنے یادداشتی فہم پہ لکھ رہا ہوں ۔

الف سے سوال) یار پڑھنےکی عادت ڈالو ، ہر قسم کی کتاب پڑھا کرو (دینی مسلک سے ماوراء ہوکر) ۔۔۔
جواب): نہیں نہیں ہر کتاب پڑھنی نہیں چاہیے یا پڑھنے والی نہیں ہوتی۔ لوگوں نے عجیب عجیب عقائد لکھے ہوتے ہیں ۔ میں تو کتاب پڑھنے سے پہلے بھی فلاں استاد سے پوچھتا ہوں جو وہ تجویز کردے وہی پڑھتا ہوں اسکے علاوہ کوئی اور نہیں۔
الف سوال) تو یار صحیح اور غلط کی تمیز والا شعور تو اللہ نے ہر بنی نوع کو عطا کیا ہے۔ جو چیز اچھا تاثر نہ دے اسےچھوڑ دو اورجو اچھا لگے اسکو اٹھا لو یا اپنا لو۔
جواب) نہیں نہیں ہمیں عقائد کے ضمن میں عجیب و غریب طرز سے ہونے والی گفتگو میں سے کدھر صحیح اور غلط کا پتہ چلتا ہے۔ یعنی وہ تو بڑے عجیب عجیب وار کرتے ہیں عقیدہ خراب کرنے کے لیے۔

ب سوال) موصوف سے بزرگ حضرات نے پوچھ گچھ کرتے ہوئے پوچھا یہ کن کن محافل میں بیٹھتے ہو۔ یعنی کیا سرگرمیاں کرتے ہو تم لوگ یہ جو نیا ٹولہ بنائے ہوئے ہو ؟
جواب) ہم دوست آپس میں مل بیٹھتے ہیں اور اک سورة قرآن میں سے منتخب کرتے ہیں یا کچھ حصہ۔ سب کو اسکا مطالعہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں اور پھر محفل میں اسکو اک دوسروے کے سامنے بیان کرتے ہیں کہ کس نے کیا کیا پڑھا تفسیر سے ۔ اس محفل کو ہم درس قرآن کہتے ہیں ۔

بزرگان کا نقط نظر : یہ لو ، اس کام ( درس قرآن) کے لیے آٹھ سال مدرسہ میں گزارنے پڑتے ہیں تب جا کے یہ علما یا مولوی صاحبان کہہ لو اس قابل بنتے ہیں کہ قرآن کا ترجمہ سیکھ کر دوسروں کو سکھاتے یا بیان کرتے ہیں۔
نوٹ: بزرگوں کے نقطہ  نظر اس احتمال کا موجب ہو سکتا ہے کہ موصوف نے درس قرآن کی اصطلاح کو واضح نہیں کیا تھا۔ کہ ہمارا درس قرآن سے مطلب و مقصد اک دوسرے کو قرآن سکھانا نہیں بلکہ اک دوسرے کے ساتھ قرآن کی اپنی تعلیم جو ہم نے ازخود مطالعے سے سمجھے ہوتے ہیں اسکو شیئر کرنا ہوتا ہے۔

پ سوال) موصوف کو اپنے ہی خاندان کے اک فرد نے میسج داغا کہ مجھے فلاں سورہ کے متعلق کچھ تفصیل بتا دو تاکہ میں آگے کچھ لوگوں کو بیان کر سکوں ان کو سمجھا سکوں ۔
جواب) جناب آپ قرآن کی تفسیر اٹھا لو اس سے پڑھنا شروع کرو ایسے میں بہت کچھ سمجھ میں آجائے گا۔
پ کا دوسرا سوال) وہ توٹھیک ہے مگر ، ہماری اتنی سمجھ نہیں ہے ۔ اور پھر یہ ڈر رہتا ہے کہ کچھ غلط نہ ہوجائے ۔

جواب) جناب جب ذہن پہلے سے بنا کے ہی بیٹھ گئے ہو تو پھرٹھیک کی امید کیسی؟  قرآن کو اللہ نے نہایت آسان انداز میں نازل فرمایا ہے۔ کوئی کچھ غلط نہیں ہوتا ، جہاں سمجھ نہ لگے تو پوچھ لینا۔

(ج سے موصوف کی گفتگو)
ج) ہمارا سمسٹر کا امتحان تھا ختم ہوگیا۔ پیپرز اچھے رہے ۔
موصوف) اچھا اچھا ۔ ویسے کبھی اتنی فکر دین اور قرآن کی بابت بھی کی ہے؟ کبھی اس بات کا بھی دکھ ہوا ہے کہ قرآن سمجھ میں نہیں آرہا؟ کبھی اس بات پہ کھانا نہ کھایا ہو کہ آج نماز قضا ہوگئی یا قرآن کی تلاوت رہ گئی ؟

ج کا جواب) بات تو درست ہے ۔ کبھی یہ خیال نہیں کیا۔ مگر قرآن کا ترجمہ ہم خود سے کیسے پڑھ سکتے ہیں ؟ اس سے   ذہن میں بہت سارے سوال پیدا ہوتے ہیں جو پریشان کرتے ہیں پھر۔ اور ہمارے ٹیچر نے بھی یہی تجویز کیا تھا کہ قرآن کی تفسیر یوں خود سے نہیں پڑھنا چاہیے ، سمجھ نہ آنے میں انسان گمراہ ہو جاتا ہے۔

موصوف) استغفر اللہ ۔ ۔ ۔ ۔
جب  آپکو سکول کے نصاب کی  کتاب میں کچھ سمجھ نہیں آتا تو تب کیا کرتے ہو ؟ ٹیچر ہی سے پوچھتے ہو نا تو وہی انداز یہاں بھی اپناؤ  اور رہی بات قرآن کی تفسیر کو خود سے پڑھنے سے انسان گمراہ ہوتا ہے ۔ تو معاذا للہ ثم معاذ اللہ ۔ اللہ کی کتاب بھی کسی کو گمراہ کرتی ہے ۔ آپکے ٹیچر کا دماغ چل گیا ہے ۔

درجہ بالا کچھ سوالات کا اگر تجزیہ کیا جائے تو شیطان مردود اور اسکے حوارین کس طرح سے انسان کو ذہنی طور پر حبس بے جا میں قید کر رکھا ہے۔ انہی پیری مریدی ، علم اور استاد کا رعب و دھاک بٹھانے کے لیے کس قسم کے تاویلات گھڑ  کر لوگوں کو دین سے خوف کی تلوار کے ذریعے دور کر رہے ہیں ۔ بس اپنی مریدی یا شاگرد رعایا کو ثواب دارین کے چکر میں چکرا رہے ہیں اور انہیں اس سے آگے بڑھنے نہیں دے رہے۔ کوئی اسکو یہ نہیں بتلا رہا کہ قرآن ہی واحد ہدایت دینے والی کتاب ہے۔
قرآن پہ ایمان لانے سے قبل اللہ نے اسکی دلالت میں دوسری ہی آیت میں شہادت دے دی ۔
ذالک الکتاب لاریب فیہ ، ھدی للمتقین ہ (سورہ بقرہ آیت 2)
” اس کتاب میں کوئی شک نہیں اور متقین کے لیے ہدایت ہے ۔” (مفہوم)
تو شرط کیا رکھی  آپکو ہدایت چاہیے تو اس کے لیے متقی ہونا پڑے گا۔ اللہ کا خوف دل میں پیدا کرنا پڑے گا۔ لیکن اس خوف کا مطلب یہ نہیں کہ قرآن کو ازخود پڑھونگا تو معاذ اللہ ثم معاذ اللہ یہ گمراہ کر دے گا۔ متقی کا مطلب ہے اللہ کے خوف کی خاطر حرام کو چھوڑ دینا ہے ، گناہ سے کنارہ کشی کرنا ، باطل نظریات و عقائد  کو ذہن سے نکال باہر کرنا ہے۔ اپنے باطن کو مصفا و مشفا بناکر تب یہ کتاب ہدایت کا ذریعہ بنے گی ۔
اک اور جگہ اللہ فرماتا ہے ۔

مَاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡکَ الۡقُرۡاٰنَ لِتَشۡقٰۤی ۙ﴿۲﴾ اِلَّا تَذۡکِرَۃً لِّمَنۡ یَّخۡشٰی ۙ﴿۳﴾
ہم نے یہ قرآن تجھ پر اس لئے نہیں اتارا کہ تو مشقت میں پڑ جائے ۔ بلکہ اس کی نصیحت کے لئے جو اللہ سے ڈرتا ہے ۔ ( سورہ طہ: 2)

یعنی قرآن اللہ نے کسی کو تکلیف میں مبتلا کرنے کے لیے، کسی خوف و حزن میں یا پریشانی سے دوچار کرنے کے لیے نازل نہیں فرمایا۔ یہ تو ان لوگوں کو نصیحت دینے یا دلوانے کے لیے ہے جو اللہ سے ڈرتے ہوں۔ اور ہم نے کیا کیا۔ قرآن کو اک خوبصورت لحاف میں تہہ کر رکھے طاق میں سجا دیا اور ساتھ میں دل پہ یہ خوف طاری کر دیا کہ ترجمہ و تفسیر خود سے مطالعہ کرنے سے انسان گمراہ ہوتا ہے (معاذاللہ ثم معاذ اللہ ) تو پھر نصیحت کیسے اور کہاں سے آئے گی ؟

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَتۡکُمۡ مَّوۡعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوۡرِ ۬ ۙ وَ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۵۷﴾
اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک ایسی چیز آئی ہے جو نصیحت ہے اور دلوں میں جو روگ ہیں ان کے لئے شفا ہے اور رہنمائی کرنے والی ہے اور رحمت ہے ایمان والوں کے لئے ۔ (یونس 57)

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَکُمۡ بُرۡہَانٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکُمۡ نُوۡرًا مُّبِیۡنًا ﴿۱۷۴﴾
اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے سند اور دلیل آپہنچی اور ہم نے تمہاری جانب واضح اور صاف نور اتار دیا ہے ۔ (النسآء : 174)

اِنَّ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ یَہۡدِیۡ لِلَّتِیۡ ہِیَ اَقۡوَمُ وَ یُبَشِّرُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ الَّذِیۡنَ یَعۡمَلُوۡنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمۡ اَجۡرًا کَبِیۡرًا ۙ﴿۹﴾
یقیناً یہ قرآن وہ راستہ دکھاتا ہے جو بہت ہی سیدھا ہے اور ایمان والوں کو جو نیک اعمال کرتے ہیں اس بات کی خوشخبری دیتا ہے کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے ۔ ( اسرآء : 9)

وَ اِنَّہٗ لَتَذۡکِرَۃٌ لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۴۸﴾
یقیناً یہ قرآن پرہیزگاروں کے لئے نصیحت ہے ۔ (الحآقہ : 48)

قرآن کی  درجہ بالا چند آیات سے یہ واضح پیغام مل رہا ہے کہ اللہ نے بگڑی ہوئی انسانیت ، نافرمان اور گمراہی و جہالت میں گرے ہو لوگوں کے لیے ہی نور ہدایت قرآن مجید فرقان حمید نازل فرمایا تاکہ اس کو سیکھ کر اپنے عمل میں لائے اور اپنی زندگی کو راہ راست پہ لگادیں ۔ معاذ اللہ ثم معاذ اللہ اگر قرآن گمراہ کرتا تو اس کے نازل کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی؟ اور نہ پھر اسکو “نور مبین ” کہا جاتا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اللہ کرے یہ باتیں ہماری  سمجھ و عمل میں آجائے ۔۔۔ آمین

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply