سائرہ کا کیا قصور تھا؟۔۔۔ نعیم الدین جمالی

وہ ایک عام سی لڑکی تھی،ننھی منھی اور کھلونے جیسے، والدین کے ناز ونخروں میں پلی بڑھی تھی، روایت اور سماج سے بغاوت کرکے والدین اسے پڑھانا چاہتے تھے ۔ کالج میں جب وہ تھی تو اس کی عمر سترہ سال تھی جب اس کے چاچو نے سائرہ کے والد سے کہا لڑکی بڑی ہوگئی ہے، میرا بیٹا بھی جوان ہے ، ہم ان دونوں کی ایک ساتھ منگنی کرلیتے ہیں، کہیں کل کوئی ہمیں طعنہ نہ دے کہ نوجوان لڑکیوں کو بٹھا رکھا ہے، سائرہ کے والد نے کہا بچی انٹر پاس کرلے پھر منگنی کرلیں گے، سائرہ کے چاچو بہت جلد باز تھے. مجبوراً انٹر کے سال پڑھائی کے دوران سائرہ کی منگنی اپنے کزن سے ہوگئی تھی.
اگلے دن کزن نے شادی کی شرط لگالی کہ اب یہ لڑکی آگے نہیں پڑھے گی، بس میں مرد ہوں اسے کھلاؤں گا، پلاؤں گا .عورت ذات کو تعلیم کی کیا ضرورت ہے.؟؟
سائرہ کے والد بیٹی کے رشتے کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے، سوچا اگر رشتہ ٹوٹ گیا تو آج کل رشتے ملنا کتنا مشکل ہے۔انہوں نے شادی کی حامی بھرلی، ایک ماہ بعد سائرہ کی اپنے کزن کے ساتھ دھوم دھام سے شادی ہوگئی، ڈھول ڈھمکے  ہوئے، چھوٹی بچیوں نے اپنی بلوچی زبان میں روایتی گیت گائے، نکاح ہوا، گھر والوں نے آنسو پونچھتے بیٹی کو رخصت کیا۔
بیٹی! اللہ تیرا نصیب بھلا کرے.
بیٹی! تجھے خوشیاں ہی خوشیاں ملیں .
والدین، بہن بھائی اور عزیز واقارب نے دعاؤں کے ساتھ سائرہ کو رخصت کیا، لیکن کیا پتا تھا سائرہ کا نصیب کچھ اور ہی، سائرہ کی تقدیر میں کچھ اور لکھا جاچکا تھا.
شادی کو ایک دو سال گذرے شوہر کو بچے کی شدید خواہش تھی، لیکن سائرہ کسی بیماری کی وجہ سے ماں نہ بن سکی، ٹیسٹ اور علاج ہوئے لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا، اب ہر دن سائرہ مرتی اور جیتی، صبح شام شوہر اس کو طعنے دیتا، تم میرے کام کی نہیں نکل جاؤ گھر سے، وہ معصوم سا چہرا بنا کر پلو سے آنسو چھپا کر خوب روتی ۔
ایک دن شوہر نے واقعی ظلم  کرکے اس کو گھر سے نکال دیا.
والدین پر قیامت توٹ گئی، بیٹی گھر آکر بیٹھ گئی،وہ کریں تو کیا کریں.
سات سال ہوگئے ہیں وہ والدین کے گھر ایک زندہ لاش بن کر قبرستان میں مردے کی طرح خاموش جی رہی ہے۔
اس کے شوہر نے دوسری شادی کرلی ہے، اس کو دو تین بچے بھی ہیں، لیکن اب سائرہ روز اپنے سابق شوہر اور اس کے بچوں کو یاد کرکے گھنٹوں روتی ہے.
وہ میرے ساتھ پانچویں تک ساتھ پڑھی تھی، پھر نہ جانے کون کہاں رہا، کل اس نے مجھے میسنجر میں ایک میسج کیا کہ میں فلاں ہوں.
جی بتائیں کیا کام ہے؟
میں نے میسج کا جواب دیا، اس نے اپنی پوری آتم کتھا سنا دی،اب وہ جینا نہیں چاہتی، مرجانا چاہتی ہے،
میں نے اسے تسلی دی کہ آپ پریشان نہ ہوں اللہ آپ کے حق میں بہتر فیصلہ فرمائیں گے۔اس کو بہت سے واقعات سنا سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ اب زندگی سے مکمل مایوس تھی، والدین بہن بھائی سب اس سے تنگ تھے۔ایسے بہت سے واقعات آپ نے بھی سنے ہوں گے۔سائرہ جیسی ہزاروں لڑکیوں کی خواہشات اور زندگی قربان ہوتی دیکھی ہوگی۔
اس میں نہ سائرہ قصور وار تھی نہ اس کے والد،
اگر بچے کی پیدائش نہیں ہورہی تھی، وہ خدائی فیصلہ تھا۔
باقی شوہر نے اسے گھر سے نکال کر خود تو اپنی زندگی نئی نویلی دلہن سے سجا لی، لیکن سائرہ کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔
کتنا ہی اچھا ہوتا کہ وہ سائرہ کو رکھ کر وہ دوسری شادی کرلیتا۔
بچوں کے ساتھ سائرہ کی زندگی بھی سنور جاتی۔
سائرہ کے والدین بھی خوش رہتے، سائرہ کو خوش رکھنے سے خدا بھی اس کے شوہر سے خوش رہتا۔

Facebook Comments

نعیم الدین
لکھنے پڑہنے والا ایک ادنی طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply