Mister Trump how do you do?
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے دو ٹوک موقف اپنایا جس کی ناقدین بھی تعریف کرنے سے رُک نہیں سکے انہوں نے امریکہ کو للکار دی اور صحیح جھاڑ دی جس کی امریکا کو ضرورت تھی۔ڈونلڈ ٹرمپ کی بیان بازی ماضی قریب میں بے نتیجہ ختم ہوئی ان کا کردار ایک ضدی غصیلے بچے جیسا ہے جو یہ کہتا ہے کہ فلاں نے میرا کھلونا توڑ دیا۔ٹرمپ نے کہا کہ پاکستان ہم سے 1.3 بلین ڈالر لیتا ہے بدلے میں ہمارے کسی کام نہیں آتا میں نے اب یہ پاکستان کو دیئے جانے والی یہ رقم بند کر دی ہے۔ ان کا کام شکایت کے انبار لگانا ہے انہیں اپنے منصب کی بھی پرواہ نہیں حالیہ Thanks giving day پر انہوں نے اپنے کردار کو امریکا کی مضبوطی کے لئے مثالی قرار دے دیا۔ ٹرمپ نے اتنی بڑکیں ماری ہیں جن سے ان کو پلٹنا پڑا ہے۔ اس سے پہلے DPRK سے بیان بازی کا دور چلا شدید دھمکی آمیز رویہ اختیار کرتے ہوئے ٹرمپ نے سخت بیان داغے اور پھر بعد میں پیچھے ہٹنا پڑا اور مفاہمت اختیار کرنا پڑی ۔شمالی کوریا کے وزیر خارجہ نے اقوامِ متحدہ میں تقریر کر کے امریکہ کے تصنع و بناوٹ اور دِکھاوے پر تقریر کر کے اس کی راتوں کی نیندیں اڑا دیں تھیں اور اس کے بعد ٹرمپ ساری عائد کی گئی پابندیاں بھول گئے اور شمالی کوریا کے صدر کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ٹرمپ کو یہ بھی پتہ تھا کہ وہیں امریکہ کی اسلحے کی مارکیٹ بھی ہے دوسری جانب مشرقی چین کے سمندر پر بھی اس نے گہری نظر رکھی تھی پھر بھی بڑی بڑی باتیں کیں جن سے یوٹرن لینا پڑا۔
ایران کو امریکہ پھر سے گیدڑ بھبکیاں دے رہا ہے ٹرمپ نے اوبامہ کے ایران سے کئے جانے والے معاہدے کو بیوقوفی قرار دیا۔ جبکہ دوسری طرف نیوکلئیر میں جدت لانے پر شمالی کوریہ کے آگے بے بس ہے کیونکہ جنوبی کوریہ امریکہ کے لئے ڈیرے ڈال کر دیگر قوتوں پر نظر رکھنے کی آماجگاہ بنا ہوا ہے اور یہ یہاں سے جاپان،روس اور چین کی انڈسٹری کو بھی بہتر پرکھ سکتا ہے اس سے جڑنے کے لئے شمالی کوریہ واحد راستہ ہے۔ امریکہ کو اپنے مفادات کی پڑی رہی اور یہ اپنا کام نکال کر ٹِشو پیپر کی طرح ممالک کو استعمال کرتا رہا،درحقیقت امریکہ کا تعلق ایسا ہے کہ یہ (Ogler) بنا ہوا ہے اپنے مفاد کی تکمیل کی تمنا ء لئے سوپر پاورر للچائی نظروں سے اپنی منوانے کی ٹھان رکھی ہے۔ امریکہ میں سی آئی اے اور برسرِاقتدار حکومت کا ہمیشہ آپس میں منہ پھولارہا کیونکہ دونوں ایک دوسرے کو ڈائریکشن دینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن چلنی کسی ایک کی ہی ہوتی ہے اورہمیشہ سے سی آئی اے اپنی من مانی کروا رہی ہے۔ٹرمپ کا خیال ہے کہ وہ عقل و دانش کا منبع ہیں کئی مرتبہ ان کے بیانات کے بعد پینٹاگون سے سخت ردعمل آیا سی آئی اے اور نیشنل سکیورٹی کونسل کی آراء بھی صدر ٹرمپ سے مختلف رہیں یہ کہا گیا کہ ٹرمپ کو تربیت کی اور سیکھنے کی ضرورت ہے جبکہ ٹرمپ خود کو بڑے اعلیٰ د رجے کا دانشور سمجھتے ہیں جبکہ وہ پرلے سے بھی نیچے ہیں ان کا خیال ہے کہ وہ جہاں دیدہ بصیرت رکھتے ہیں میڈیا میں بھی تجزیہ کاروں کو ان سے ٹریننگ لینی چاہیے۔ ٹرمپ بڑ بولے، نیم پاگل ہیں یا سر پھرے ہیں ۔یہ تاثر عام کیا جا رہا لیکن یہاں یہ بات بھی مدِنظر رکھی جائے کہ ٹرمپ بزلہ سنجی رکھنے والی شخصیت ہیں جن سے اس طرح کے بیان جان بوجھ کر دلوائے جاتے ہیں کیونکہ مجھے اس بات کا شائبہ بھی نہیں کہ امریکا اتنا باخبر ہو اور اسے پاکستان کی قربانیوں 95000 جانوں کے ضیائع کا ادراک نہ ہو یہ پتہ نہ ہو امریکہ کی جنگ میں پاکستان کیسے کود گیا اور اپنے آپ کو اس جھلساتی آگ میں جھنجھوڑ ڈالا۔
ان پبلسٹی اسٹنٹس سے ڈونلڈ ٹرمپ کا گراف نیچے آتا ہے وہیں امریکہ کو چلانے والی قوتیں فائدہ اٹھاتی ہیں۔ روس،ترکی اور ایران سے سخت جواب ملنے کے بعد ٹرمپ کے ان کے لئے انداز اور تکلم میں نرمی پیدا ہوگئی تھی۔ روس کے صدر پیوٹن نے کہا کہ پاکستان ایک cemetery ہے اور یہ کیسے ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے مزے کی بات ہے کہ روس اور امریکہ کے صدر دونوں گہرے دوست ہیں ان کی حرکات و سکنات ایک دوسرے کے مترادف ہیں۔مسٹر ٹرمپ کا تاثر ایک ایسے شخص کا بنا دیا گیا ہے جو اپنے دماغی خلل کی وجہ سے کچھ بھی کہہ جاتا ہے وہ ہزیان میں کسی کو بھی وارننگ دے دیتا ہے سوپر پاور ہونے کی مسند رکھنے کے بعد طاقت کے نشے میں چُور ہے۔ لیکن میرا تجزیہ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ ٹرمپ اور پینٹاگون ایک پیج پر نہیں۔یہ دباؤ ڈالنے کے پریشر میں لا کر اپنی تباہ کن ڈیمانڈ پوری کرنے کا بھی تو عندیہ ہے لیکن اب جب آگے سے منہ توڑ جواب ملتا ہے تو مصالحت پسندی پر اتر آنا پلان کا حصہ ہوتا ہے۔ مجھے امریکی صدر سے جواب چاہیے مسٹر ٹرمپ are you really relegating Pakistan? یا پھر نئے مفادات کے ریلے کی زد میں پاکستان کو لانے کے لئے اتاؤلے ہوئے چلے جا رہے ہیں؟ اگر آپ کی یہ قبیح حکمتِ عملی ہے تو سن لیجئے پاکستان کے غیور عوام آپ کی کسی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے اور ببانگِ دہل آپ کے ہر الزام کا جواب دیا جاتا رہے گا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں