امت مسلمہ کا زوال اورسیرت نبی ﷺ۔۔۔۔۔ عائشہ یاسین

قرآن کریم میں ارشاد ہوا کہ۔۔۔

“ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ ٪﴿۹)”

“وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا تاکہ اسے اور تمام مذاہب پر غالب کر دے اگرچہ مشرکین ناخوش ہوں ۔”

اللہ تعالی نے تمام کائنات تخلیق کی ۔ کہکشاں اور قوس قزح کے رنگ بکھیرے۔ چاند، تارے اور سیارے بنائے۔ سورج کو منور کیا۔ آسمان کو وسعت بخشی ۔ زمین کو ٹھنڈا کیا اور کن فیکن کی گونج نے تخلیق کا عمل جاری رکھا۔ کائنات کے وجود میں آتے ہی اللہ تعالی نے اس کی حدین مقرر کی اور ایک نظام کے تحت یہ عالم رواں ہوا۔ فرشتے اور جنات کو پیدا کیا اور آدم کو اس کا خلیفہ مقرر کیا۔
آدم کی تخلیق اور آدم کو زمین پر اتارنے کے بعد ایک لاکھ چالیس ہزار پیغمبروں اور انبیاء کا سلسلہ شروع کیا اور اس سلسلے کی آخری کڑی سرکار دو عالم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو ٹھہرایا اور امت مسلمہ کو اپنی پسندیدہ قوم ہونے کا اعزاز بخشا۔

قرآن کریم میں ارشاد ہوا کہ

“وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖۤ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصِّدِّیۡقُوۡنَ ٭ۖ وَ الشُّہَدَآءُ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ؕ لَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ وَ نُوۡرُہُمۡ ؕ وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ الۡجَحِیۡمِ ﴿٪۱۹﴾ ”

“اللہ اور اس کے رسول پر جو ایمان رکھتے ہیں وہی لوگ اپنے رب کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں ان کے لئے ان کا اجر اور ان کا نور ہے ، اور جو لوگ کفر کرتے ہیں اور ہماری آیتوں کو جھٹلاتے ہیں وہ جہنمی ہیں ۔ ”
(سورہ حدید 19)

ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم محسن انسانیت تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کے بھیجے گئے۔ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو افضل بنایا اور کائنات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے استوار کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت جامع اور مکمل تھی ۔اس بات کا اقرار صرف دنیا کے مسلمان ہی نہیں کرتے بلکہ غیر مسلم بھی تصدیق کرتے ہیں۔
دنیا کے تمام مذاہب کے سیاسی، مذہبی اور سماجی اسکالر، مفکرین، مورخین اور دانشور متفق ہیں کہ آپؐ کی ذاتِ اقدس میں وہ تمام خوبیاں، صفات اور صلاحیتیں تھیں جو کسی عالمی رہنما میں ہونی چاہئے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بہترین معلم ، رہنما اور رہبر بھی ہیں تو ساتھ ہی اعلی قیادت اور سیاسی رہنما بھی۔ اس کا اعلی نمونہ ہمیں ریاست مدینہ کی صورت میں ملتی ہے جہاں متوازن نظام عدل و انصاف مرتب کیا گیا جس کی مثال رہتی دنیا تک قائم رہے گی۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس قوم کو اللہ نےمنتخب کیا ہو اور جو قوم سیدالزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امتی ہو وہ کیسے زوال پذیر ہو سکتی ہے؟ واقعی یہ لمحہ فکریہ ہے کہ مسلمان نا صرف وسطی ایشیاء بلکہ دنیا کے ہر کونے میں اپنی شناخت اور تشخص کھو بیٹھے ہیں۔ جبکہ ہم اب بھی اللہ کی آخری کتاب قرآن مجید کے امین ہیں ۔ہمارے سینے قرآن کو حرف بہ حرف سموئے ہوئے ہیں مگر پھر بھی ہم دنیا میں ناکام اور شکست خوردہ ہیں ۔ ہم نے اپنا مقام گنوادیا ہے۔ ہم تنزل کا شکار ہیں جبکہ دیگر مذاہب ہم سے زیادہ ترقی یافتہ اور منظم ہے۔ مسلم ممالک کی تعداد 50 سے زائد ہے پر پھر بھی مسلمان اپنی مستحکم جگہ بنانے میں ناکام ہوچکے ہیں ۔

جس کی مثال مسلم ممالک پر بے جا پابندی اور جنگیں ہیں۔ دنیا میں ہر خطے میں مسلمانوں کو جنگ و جدل کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور نسل کشی کی جارہی ہے لیکن افسوس دنیا کی دوسری بڑی قوم ہونے کے باوجود یہود و نصارا اب بھی ہم پر مسلط ہیں اور ہر طرح کے ظلم کا نشانہ بنا رہے ہیں یہاں تک کہ گستخانہ حرکات و سکنات ہر بھی کوئی شنوائی نہیں؟
ایسا کیوں ہے؟ بحیثیت مسلم ہم اپنی سالمیت منوانے میں کیوں ناکام ہیں؟ کیا ہم میں دوسری قوم کے مقابلے اہلیت نہیں یا ہم اپنی ارتقاء اور اہداف کو نظر انداز کر رہے ہیں؟ اس کا صرف ایک جواب ہے کہ ہم نے اپنے دین کو فراموش کرکے سیرت طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھلا دیا ہے۔ ہم بھول چکے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کامیاب زندگی کے ساتھ ساتھ کامیاب ریاستی نظام کو مرتب کیا۔آپؐ بہترین منتظم تھے۔ آپؐ اپنی ذات میں ایک مکمل ادارہ تھے۔ سیاسی، سماجی، سربراہی ہر لحاظ سے اکمل تھے۔ اس کی شہادت ابوطالب سے لے کر مائیکل ہارٹ تک، ہرقل روم سے لے کر جان کیننگ تک، قریشی سردار سہیل سے لے کر روبوزول اسمتھ تک، چرچ آف انگلینڈ کے سربراہ ڈاکٹر روون ولیمز سے لے کر کیرن آرم اسٹرانگ تک، ایلفرڈکولیم،منٹگمری ، وِل ڈیوراں ، سرو لیمیور،جے ایچ ڈینیسن،جان ڈیون پورٹ، یہ اور ان جیسے بیسیوں یورپین اسکالر اور مستشرقین ہیں جو آپؐ کی شان اقدس میں مدح سرائی کرتے نظر آتے ہیں۔ علامہ اقبال ؒ مسولینی سے ملے تو دوران گفتگو علامہؒ نے حضورؐ کی اس پالیسی کا ذکر کیا کہ شہر کی آبادی میں غیرضروری اضافے کے بجائے دوسرے شہر آباد کیے جائیں۔ تو مسولینی یہ سن بولا کہ شہری آبادی کی منصوبہ بندی کا اس سے بہتر حل دنیا میں موجود نہیں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اسلام وہ واحد مذہب ہے جوجامع اصول زندگی پیش کرتا ہے ۔اگر امت مسلمہ اپنی وجود کی بقاء چاہتی ہے تو اس کو اپنی صف میں متحد ہوکر سیرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنی ہوگی۔ ہر اس قانون کو ماننا ہوگا اور ان کے ہر پہلو ی تقلید کرنی ہوگی جس سے انسانیت کو معراج ملا۔ بلا تفریق اتحاد قائم کرکے ایک طاقت بننا پڑے گا۔ کلمہ حق کو بلند کرنا ہوگا۔ وقت کی ضرورت اور حکمت سے کام لینا ہوگا ۔محبت اور اخوت کا دامن تھامنا ہوگا اور علم و فہم سے وقت کی ڈور کو تھامنا ہوگا۔ اپنے اندر سے احساس کمتری کی فضا کو چاک کرنا پڑے گا۔ گوکہ مسلمانوں کے لیے یہ دور بڑا کٹھن ہے۔ ہم کو ٹکڑوں میں تقسیم کرکے کمزور کردیا گیا مگر ہم سیرت طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تھام کر ایک جگہ متحد پکڑ دوبارہ مضبوط اور طاقتور قوم بن سکتے ہیں ۔ کیونکہ ہمارے رب نے ہم سے ہماری کامیابی کا وعدہ کررکھا ہے گو کہ ہم اپنے اعمال میں صالح ہوں اور اپنے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہوں تو وہ وقت دور نہیں کہ ہم اللہ کی عزیز قوم میں شامل ہوجائیں۔
تو کیوں نہ آج کے دن یہ شور شرابا کرنے کے بجائے سنت نبی کو اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ادب و احترام اور خاموشی کو اختیار کرتے ہیں۔اپنے گھروں،گھروں ،گلی اور محلوں کے ساتھ ساتھ دل کی بغیر کو بھی اختلاف سے پاک کر کے محنتوں کے قمقموں سے روشن کرتے ہیں۔ قانون کی بالادستی کرکے اس کے اطلاق میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ امن کا پیغام دے کر بھائی چارہ کی فضا قائم کرتے ہیں ۔معاشرے میں انسانیت کا بول بالا کرتے ہیں ۔خود کو ایک صف میں لاکر صرف مسلمان کر چھوڑتے ہیں اور خود کو اپنے آقا و مولا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کا پیروکار بناتے ہیں ۔آمین ۔
اللہ ہمارا حافظ و ناصر ہو۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply