قرة العین طاہرہ۔۔۔۔۔ شبیر سومرو

وہ انیسویں صدی کے وسط کی ایسی مثالی شاعرہ، مبلغہ اور عالمہ تھیں جن کے حسن، تخلیقی عشقیہ، شاعری، مذہب کے مختلف موضوعات پر عملی مہارت اور عورتوں کی آزادی کے حوالے سے عملی جدوجہد کے باعث انہیں آج بھی بہت ہی اشتیاق اور انبساط سے یاد کیا جاتا ہے۔ شہرت کی ان وجوہات کے علاوہ ان کا آبائی مذہب اسلام ترک کرکے ایک نئے مذہب کو اختیار کرنے اور دن رات اس کی تبلیغ کرنے، حتیٰ کہ اس میں اپنی جان قربان کرنے کی وجہ سے بھی جانا جاتا ہے۔

جی ہاں، یہ ذکر ہے انہی قرة العین طاہرہ کا، جن کی شاعری نے علامہ اقبالؒ جیسے آفاقی شاعر، ٹیگور جیسے دانشور شاعر، جواہر لال نہرو جیسے مفکر سیاستدان اور سروجنی نائیڈو جیسی لبرل خاتون کو بھی متاثر کیا اور یہ لوگ قرة العین طاہرہ کی شاعری اور ان کے حالاتِ زندگی جاننے کے بے حد مشتاق رہے۔
ویسے تو ان کی زندگی کھلی کتاب کی طرح رہی۔ انہوں نے ہر کام اور ہر کارنامہ برملا ڈنکے کی چوٹ پر کیا مگر اس وقت کی ایرانی حکومت نے انہیں سزائے موت دینے کے بعد ان کی شاعری اور دیگر تحریریں بھی جلا کر راکھ کر دی تھیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ جب انیسویں صدی کے ابتدائی اور وسطی زمانے کا ایران عورتوں کی تعلیم اور ان کی آزادی کے خلاف انتہاپسندی کا مظاہرہ کر رہا تھا، عین اسی زمانے میں اپنے عہد کے سب سے بڑے علماءبھائیوں کے گھر میں قرت العین، ایک عورت ہر طرح کی تعلیم حاصل کر رہی تھی جو ان دونوں میں سے چھوٹے بھائی حاجی ملاصالح کی لاڈلی بیٹی اور ان کے بڑے بھائی حاجی ملاتقی کی ہونے والی بہو تھیں۔
یہ سب قرة العین کی خداداد ذہانت، شاعرانہ اور فلسفیانہ مہارت اور اپنے زمانے کی عورتوں سے میلوں آگے ہونے کا نتیجہ تھا کہ ان کے والد انہیں خود گھر میں بیٹھا کر پڑھانے لگے تھے۔
قرة العین طاہرہ سے متعلق مستند مواد کی سخت کمی ہے۔ ان کی شخصیت اور زندگی کے حالات پر صرف ایک انگریزی کتاب میسر ہے، جسے ان کی موت کی پون صدی بعد ان کی ایک مداح خاتون مارتھا روٹ نے برسوں کی تحقیق کے بعد لکھا تھا۔
اس واحد کتاب میں بھی قرة العین طاہرہ کا پیدائشی نام نہیں دیا گیا۔ وہ جنہیں گھر میں ان کے چاہنے والے والد ”زرّیں تاج“ کہتے تھے، باقی گھر والوں یا عزیزوں کے لئے وہ ”اُمِ سلمیٰ“ تھیں۔ جب انہوں نے بزرگ شیعہ عالم سیّدکاظم رشتی سے مذہبی معاملات سے متعلق خط وکتابت شروع کی تو انہوں نے انہیں اپنی آنکھوں کا تارا یعنی ”قرت العین“ کہا۔ جب علی محمد باب کا نیا لایا ہوا بابی مذہب انہوں نے اختیار کیا تو ان کے ممدوح باب نے انہیں ”طاہرہ“ یعنی پاک یا خالص کا خطاب دیا۔ بابی رہنما اور عام ارکان احتراماً اُمِ عالم پکارتے تھے۔ ان سب حوالوں میں ان کا پیدائشی نام کہیں سامنے نہیں آتا۔ مگر اس موضوع پر برسوں کا جمع کیا ہوا ریکارڈ کھنگالنے پر ہمارے سامنے ان کا اصلی یعنی پیدائشی نام بھی سامنے آجاتا ہے اور یہ بلاشبہ بڑی کامیابی سمجھی جا سکتی ہے۔ قرة العین طاہرہ کا پیدائشی نام ”فاطمہ برغانی“ تھا۔ برغانی ان کے خاندان کی ذات تھی، جس کے باعث ان کے والد یا تایا کے ناموں کے ساتھ بھی کہیں کہیں برغانی لگا ہوا نظر آجاتا ہے۔
قرة العین طاہرہ کی پیدائش کا سنہ بھی مصدقہ نہیں ہے اور بتایا جاتا ہے کہ 1817ءسے 1820ءکے دوران پیدا ہوئیں۔ ان کی جنم بھومی قزوین شہر تھا، جو اب تہران کے پھیلاﺅ کی وجہ سے اس کے مضافات میں شمار ہونے لگا ہے۔ قزوین میں ان کی بڑی سی حویلی کی باقیات آج بھی موجود ہیں۔
قرة العین اپنی خداداد صلاحیتوں اور مطالعے کی مسلسل جستجو سے اس قدر عالم فاضل ہو گئی تھیں کہ ایک وقت میں ایران کے سو کے لگ بھگ جید علماءسے ان کا مظاہرہ ہوا اور اس اکیلی لڑکی نے ان سب کو اپنے سوالات سے زِچ کرکے رکھ دیا جبکہ خود ان کے سوالات کے جوابات نہایت روانی اور بے باکی سے دیتی رہی تھیں۔ اس مناظرے نُما سلسلہ ہائے بحث کے باعث ملامحمد صالح کی اس باصلاحیت دُختر کی شہرت کو چار چاند لگ گئے اور پہلے جہاں قہوہ خانوں میں ان کی عشقیہ شاعری کی باتیں ہوا کرتی تھیں، اب خانقاہوں، مسجدوں اور مدرسوں میں ان کی مذہبی معلومات، موشگافیوں اور ملاﺅں کو بحث میں ہرانے کی حیرت ناک باتیں گونجنے لگی تھیں۔ وہ اپنی مذہبی معلومات کی تشریحات کے لئے اتنی مشتاق تھیں کہ اپنے چھوٹے بھائی کے توسط سے اس زمانے کے بہت بڑے نابغہ عالم سیّدکاظم رشتی سے خط وکتابت کرنے لگیں، جو کربلا میں رہتے تھے۔
ان کے والد اور تایا نے ان کی اُٹھان، علم سے لگن کے باوجود ان کی شادی کا فیصلہ کیا اور اس طرح اُمِ سلمیٰ اپنے تایازاد ملامحمد کی دُلہن بن کر ان کے گھر آگئیں، مگر اس نئی زندگی نے بھی ایک طرح سے ان کی معلومات، علمی مشاغل اور مطالعے ومراقبے کی عادات پر کوئی اثر نہ ڈالا۔ ان کے دُولہا ملامحمد پہلے ہی اپنی چچازاد اور منگیتر کے شاعرانہ وعلمی مرتبے سے دبے دبے سے رہتے تھے۔ اب اپنے گھر میں ان کو دن رات مطالعے، مراقبے اور مناجاتوں میں ڈوبے دیکھا تو اور رُعب میں آگئے اور ان کی کسی بھی بات پر یا لاپروایانہ روّیے پر کبھی اعتراض نہ کرتے۔ وہ اپنے کمرے میں بند ہو کر اپنی شاعری ترنم سے پڑھا کرتیں یا سرود بجایا کرتیں تو ملامحمد باہر کھڑے سُنا کرتے اور جھوما کرتے مگر کبھی بھی اپنی باصلاحیت بیوی کو مجبور نہ کرسکے کہ وہ انہیں سامنے بیٹھ کر اپنی شاعری کا سرونوازی سے محظوظ کرسکیں۔ یہاں تک کہ ان کے والد اور اُمِ سلمیٰ کے سسر ملامحمد صالح اس روش سے بے زار ہو کر بیٹے کو ڈانٹتے کہ وہ بیوی کو منع کرے کہ اپنی شاعری نہ پڑھا کرے اور نہ ہی سرود بجایا کرے، معاشرے میں ”بدنامی“ ہور ہی ہے! مگر ملامحمد اتنی ہمت کہاں سے لاتے کہ ایسی بیوی کو اس کے کسی عمل، کام سے منع کرپاتے؟
سو یہ سلسلہ جاری رہا اور اس دوران وہ دریا کے دو کناروں کی طرح ذہنی طور پر تو دُور رہے لیکن ازدواجی بندھن کے باعث تین بچوں کے والدین بھی ہوگئے۔ دو بیٹوں ابراہیم اور اسماعیل کے نام تو ملتے ہیں لیکن ان کی بیٹی کا نام ہمیں کتابوں میں نہیں ملتا، جو آگے چل کر اپنی ماں کی جدائی میں زندگی ہار گئی تھی۔ جب اُمِ سلمیٰ کربلا میں سیّدکاظم رشتی کے دورس میں شرکت کرنے کی غرض سے اپنی چھوٹی بہن مرضیہ اور ان کے شوہر کے ساتھ قزوین سے کربلا چلی آئی تھیں۔ ان کے سسر نے شدید مخالفت کی تھی مگر وہ اپنے شوہر ملامحمد کی اجازت سے بچے انہی کے پاس چھوڑ کر چلی گئی تھیں۔
یوں ان کا تعلق گھر، بچوں، شوہر، والدین اور قزوین سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا تھا۔ حالانکہ بعد میں حالات کے جبر کے تحت انہیں دومرتبہ اپنے گھر لایا گیا مگر وہ موقع ملتے ہی پھر نکل بھاگیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے کربلا میں سیّد کاظم رشتی کے انتقال کے بعد ان کا مدرسہ سنبھال لیا تھا۔ یہاں پہنچ کر بھی ان کی بے چین طبیعت کو قرار نہ تھا اور وہ کسی غیرمرئی محبوب کی جستجو میں، ان کے خواب دیکھتیں، ان کے فراق میں اشعار کہتیں اور رو رو کر انہیں یاد کرتیں۔
سیّدکاظم رشتی کے شاگرد جو ان کے کہنے پر نیا رہبر یا نیا اُستاد تلاش کرنے کے لئے ایران کے طول وعرض میں پھیل گئے تھے، انہوں نے اُمِ سلمیٰ کو اطلاع بہم پہنچائی کہ شیراز میں ایک نوجوان علی محمد ابھرا ہے، جو خود کو ”باب“ کہتا ہے اور نئی شریعت، نیا مذہب لانے کی باتیں کرتا ہے۔ اُمِ سلمیٰ کو یقین ہو گیا کہ وہ جس محبوب کی تلاش میں ہیں، رویا میں جسے دیکھتی ہیں کہ نیا نظام لا رہا ہے، وہ یہی ”باب“ ہے، انہوں نے ان سے خط وکتابت کی، جس کے نتیجے میں وہ اس نئے ”مذہب“ کے رنگ میں رنگی گئیں اور اب دن رات اس کی تبلیغ، تشریح وتوضیع کرنے لگیں۔ اس مذہب کے پیروکار ”بابی“ کہلانے لگے تھے۔
علی محمد باب نے خود کو ”مہدی موعود“ کے طور پر پیش کیا تھا، جس کے باعث ایران کی شیعہ مسلم حکومت اس کی دُشمن ہو گئی تھی، یہ حکومت بس نام کی حکومت تھی، اصل کاروبار سلطنت اس دور کے طاقتور علماءچلا رہے تھے۔ بادشاہ ناصرالدین قاچار ان کے آگے بے بس تھے اور ان کی ہر جائزوناجائز بات مانتے چلے جاتے تھے۔
محمد علی باب نے اُمِ سلمیٰ کو ”طاہرہ“ (The Pure) کا خطاب دیا جبکہ اس سے بہت پہلے سیّدکاظم رشتی خط کتاب میں ان کی صلاحیتوں اور علم وفضل سے متاثر ہو کر انہیں اپنی آنکھو ں کی ٹھنڈک یعنی ”قرت العین“ قرار دے چکے تھے۔ حیرت ناک اتفاق یہ ہے کہ قرة العین طاہرہ زندگی بھر ان دو ممدوحین سے کبھی بالمشافہ مل نہ سکیں۔ جب کاظم رشتی کے درس میں شرکت کے لئے قزوین چھوڑ کر کربلا آئیں تو ان کی آمد سے محض دس روز پہلے ہی سیّدکاظم رشتی انتقال کر چکے تھے، جس کے بعد دُنیا کے دستور کے برخلاف طاہرہ ان کے سوگ میں ان کے مرد شاگردوں کے درمیان جا کر اعتکاف میں بیٹھ گئیں اور جب سوگ کا رنگ ہلکا پڑنے لگا تھا تو انہوں نے سیّدکاظم رشتی کی جگہ درس وتدریس شروع کردی تھی۔ یہ نئی روش کہ ایک عورت مردوں کو درس دیتی ہے، بہت مشتہر ہوئی اور لوگوں کو حیران کرتی رہی۔ دوسرے جب بھی انہوں نے ”باب“ سے ملنے کے لئے کوشش کی، وہ تبلیغ کے باعث کسی اور شہر نکل چکے تھے۔ یوں ایک دوسرے کی جانب آفاقی اشتیاق رکھنے کے باوجود وہ کبھی مل نہ پائے۔ پھر حکومت وقت نے علی محمد باب اور ان حواریوں کو گرفتار کرلیا تو طاہرہ بھی اپنا تبلیغی سلسلہ روپوشی کی حالت میں نبھانے لگیں۔ وہ شہر شہر بابیوں کے ساتھ گھومتیں، لوگوں کی لعنت ملامت برداشت کرتیں، یہاں تک کہ لوگ ان پر پتھر بھی برساتے مگر وہ باز نہ آتیں اور کہتیں تو فقط اتنا کہ اس محبوب کی باتیں بیان کرنے میں جو بھی تکلیف آئیں، وہ کم ہیں۔ یوں حکومتی عمال، اہلکاروں اور بابی گروہ کے مابین آنکھ مچولی برسوں جاری رہی، بابی اپنی تبلیغی روشن میں انتہاپسند ہو چکے تھے۔ وہ نہ صرف عام ایرانی لوگوں پر سختیاں کرتے بلکہ ہنگامہ آرائی سے بھی باز نہ آتے تھے۔ اس لئے حکومت نے علماءکے دباﺅ پر اس فتنے کو کچلنے کی کوششیں شروع کردیں۔
حکومت نے طاہرہ کو کربلا چھوڑنے کا حکم دیا تو وہ بغداد چلی آئیں۔ ان کے ساتھ ان کے بابی ساتھی بھی تھے، جو حسن بن صباح کے فدائین کی طرح کسی کی بھی جان لینے یا باب اور طاہرہ کے حکم کے تحت اپنی جان دینے کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ ان بابیوں کے علاوہ طاہرہ کے حُسنِ جہاں سوز، علم وفضل اور شاعرانہ مرتبے سے متاثر ہو کر مفتی بغداد اور دیگر کئی اہم شیعہ علماءبھی بابی ”دین“ قبول کر چکے تھے …. اور یہ حکومتِ وقت کے لئے لمحہ ¿ فکریہ تھا۔ حکومتی علماءنے بغداد کے گورنر پر دباﺅ ڈالا کہ چونکہ طاہرہ ایرانی النسل ہیں، اس لئے انہیں عراق سے نکال دیا جائے تاکہ ایران، اپنے وطن جا کر اپنے اس نئے دین کی تبلیغ کریں، یہاں لوگوں کو خراب نہ کریں۔ بالآخر 1847ءمیں ترکی کے خلیفہ کے احکامات پر طاہرہ کو عزت واحترام سے عراق سے ایران بھجوا دیا گیا۔ یہ قافلہ جہاں سے گذرتا تھا، لوگ ان پر پتھر برساتے اور پھٹکار کرتے تھے کہ انہوں نے مذہب کے ساتھ عجب کھلواڑ کی تھی۔ کِرمان شاہ اور کرند کے شہروں میں ان کو پڑاﺅ کا موقع ملا تو طاہرہ یہاں بھی باز نہ آئیں اور کھلے عام بابی مذہب کی جانب لوگوں کو مائل کرنے کے لئے اپنے حُسن اور حُسنِ بیان سے کام لینے لگیں۔ یہاں انہوں نے سب سے بڑے مقامی مجتہد عبداللہ بہبانی سے مناظرہ کرکے انہیں اپنے دلائل سے لاچار کردیا تھا، جس پر انہوں نے مجبور ہو کر طاہرہ کے والد ملامحمد صالح کو خط لکھا کہ وہ آکر اپنی بیٹی کو کِرمان شاہ سے لے جائیں۔ اس خط میں انہوں نے لکھا تھا:
”آپ کی باصلاحیت بیٹی محض علمی بحث نہیں کرتیں بلکہ دیوانگی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ وہ کوئی مذہب نہیں، جس کی یہ بات یا تبلیغ کرتی ہیں بلکہ قرآن پاک کی آیتوں کی تاویلیں ہیں۔ وہ ”باب“ سے ملنے کے لئے اب ”ماہ کو“ جانے کی تیاریاں کر رہی ہیں۔ براہِ کرم آپ آکر ان کو یہاں سے لے جائیں۔ گھر کی زندگی کے لئے ضروری ہے کہ اسے بابی مذہب کی تبلیغ کرنے کی بجائے قزوین میں رکھا جائے۔ عورتوں کو آزادی دینے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ کسی کام کی نہ رہیں اور جہاں جی چاہے پھرتی رہیں۔ آزادیِ افکار تو خوب ہے مگر یہ جس آزادی کا مظاہرہ ہو رہا ہے، وہ قابلِ قبول نہیں“۔
یہ خط ملتے ہی ملامحمد صالح نے اپنے بیٹے، طاہرہ کے چھوٹے بھائی کو اسے لینے بھجوا دیا۔چھوٹے بھائی کو برسوں بعد سامنے دیکھ کر طاہرہ کی شفقت انہیں مجبور کرنے لگی کہ وہ اسے گلے لگالیں مگر وہ بہائی مذہب اختیار کرنے کے بعد خود کو اور بابیوں کو پاک اور باقی دُنیا کے لوگوں کو ”ناپاک“ سمجھنے لگی تھیں، سو خود پر قابو پاکر بھائی کو دیکھتی رہیں اور پھر اپنے بابی ساتھیوں کو مختصر ٹولی کو لے کر بھائی کے ساتھ واپس قزوین آگئیں۔ یہاں بھی والدین، اولاد، سسرال سے انہوں نے کوئی تعلق نہ رکھا، محض کمرے میں بند رہ کر مراقبے اور مناجات میں گم رہیں، حتیٰ کہ اپنی بیٹی کے ملنے آنے پر بھی نظر اُٹھا کر اسے نہ دیکھا اور وہ بچی مایوس لوٹ گئی تھی۔
ان کے سسر نے جب سامنے آکر سیّدکاظم رشتی اور شیخ احمد احسائی کو بُرا بھلا کہا کہ ان کی وجہ سے دین میں فتنہ پھیلا ہے اور ان کی بہو اپنا مذہب ترک کر کے بابی بن گئی ہے تو طاہرہ نے نہایت متانت سے محض اتنا کہا: ”چچا! میں تمہارا منہ خون سے بھرا ہوا دیکھ رہی ہوں“ اور پھر وہ مراقبے میں محو ہوگئیں۔
اسی رات ان کے سسر ملامحمد تقی کو کسی نے خنجر کے وار کر کے قتل کردیا۔ ان کے منہ کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ ملاتقی امامِ جمعہ یعنی حکومت کے سب سے بڑے عالم تھے، اس لےے ان کے قتل پر صفِ ماتم بچھ گئی۔ ان کے بیٹے ملامحمد نے قتل کا الزام اپنی اہلیہ قرة العین طاہرہ پر عائد کیا تو وہ گرفتار کرلی گئیں مگر ان کی گرفتاری کی خبر مشہور ہونے پر ایک بابی سرفروش میرزاصالح نے آکر خود کو پیش کیا اور اعتراف کیا کہ قاتل وہ ہے۔ اس کی نشاندہی پر جب آلہ ¿ قتل خنجر بھی ایک پُل کے نیچے سے برآمد ہوگیا تو طاہرہ کو آزاد کردیا گیا۔ وہ ایک بار پھر ماں باپ کے گھر کے تہہ خانے میں قید ہو کر بیٹھ گئی۔ موقع ملتے ہی وہ پھر گھر سے نکل گئی۔
ملاتقی کا قاتل بابی میرزاصالح جیل سے بھاگ نکلا تو ملامحمد نے شاہِ ایران سے احتجاج کیا، جس پر اسے کہا گیا کہ وہ جا کر قاتل کے عوض جیل خانے سے کسی اور بابی کو نکال کر ہلاک کرے۔ اس پر ملامحمد اور اس کے ساتھیوں نے درجن بھر بابیوں کو لے جا کر ملامحمدتقی کی قبر پر اذیتیں دے کر ہلاک کر ڈالا۔
ادھر قرة العین ایک بار پھر نگرنگر روپوشی کی حالت میں گھوم رہی تھی اور بابی دین کی تبلیغ کرتی پھر رہی تھی۔ وہ بدشت میں بابی رہنماﺅں اور سرفروشوں کے ساتھ خاص اجلاس کر کے باب کو آزاد کرانے کا منصوبہ بنارہی تھی۔ فیصلہ کر کے وہ قافلہ وہاں سے نکلا تو راستے میں حکومتی فوجیوں نے انہیں گھیر کر گرفتار کرلیا۔
ادھر باب کو فوجی چہریق سے لے کر تبریز آگئے۔ انگریز ڈاکٹروں سے ان کا معائنہ کرایا گیا تاکہ یہ ثابت ہو کہ وہ مجنون یا ذہنی مریض تو نہیں؟ ڈاکٹروں نے اسے نارمل قرار دے دیا تو اسے پھر قید میں ڈال دیا گیا جہاں وہ اپنا کلام ”البیان“ مرتب کرنے لگا۔
بادشاہ نے یہ جواب پاکر اپنے بال نوچنا شروع کردیئے اور اپنے منہ بڑبڑانے لگا: ”میں بادشاہ ہوں؟ …. یہ کیسی میری بادشاہت ہے، جسے قلندری ٹھوکر مار دیتی ہے؟ اس بادشاہت کا کیا فائدہ!“۔
ابھی وہ اسی غم وغصّے کے عالم میں تھا کہ امیرنظام آکر آگاہ کرتا ہے کہ بابی فتنے کے ساتھ جنگ شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔ بادشاہ سلامت کیا حکم دیتے ہیں کہ اس فتنے سے کیسے نمٹا جائے؟
اس پر بادشاہ غیض وغضب میں حکم جاری کرتا ہے: ”اس فتنے کو یکسر کچل دو۔ ان کا نام ونشان تک مٹا دو۔ خدا اور بندوں کے درمیان فتنوں کو ہوا دینے کا جرم ناقابلِ معافی ہے“۔
اس حکم کے تحت پورے ایران میں بابی لوگوں کو کچلنے کا کام شروع ہو جاتا ہے۔ کچھ ان میں سے ملک چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں، بیشتر مارے جاتے ہیں۔
بادشاہ ایک بار پھر اپنا مقدر آزمانے چوری چھپے محمودخان فلانتر کے گھر پہ آکر طاہرہ سے ملاقات کر کے انہیں قائل کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ دینِ اسلام پر واپس آجائیں اور اس سے شادی کرلیں مگر طاہرہ کا حسبِ سابق وہی جواب ہوتا ہے: ”مجھے آخر کیوں بلایا گیا ہے بادشاہ؟“
”تم باب کے مذہب سے تائب نہیں ہوسکتی ہو؟ میں تمہاری جان بخشی کا وعدہ کرتا ہوں“۔
یہ جان کر بالآخر تو جانِ آفریں کے سپرد کرنا تو ہے نا؟ …. جلد یا بے دیر۔ بادشاہ ناصرالدین شاہ قاچار نے اب بھی اُمید کا دامن نہ چھوڑا: ”بھلا دیوانگی کی زندگی بھی کوئی زندگی ہے؟“
”بادشاہ! تم دیوانگی پتہ نہیں کس کو کہتے ہو؟ ہم دونوں میں سے کون دیوانہ ہے؟ میں تمہیں اپنی طرف بلاتی ہوں۔ دیکھو نئی دُنیا کا عالمی مذہب تمہارے دروازے پر دستک دے رہا ہے“۔
بادشاہ نے مایوسی سے سرجھکا لیا اور غضبناک لہجے میں گرجا: ”لے جاﺅ، اس گستاخ اور زبان دراز عورت کو!“
طاہرہ کو ایک بار پھر قید کردیا گیا۔ اگلے دن بادشاہ پر قاتلانہ حملہ ہوا تو اس کی پاداش میں بچے کھچے بابیوں کا بھی قلع قمع شروع کردیا گیا۔
طاہرہ بھی نیا سفید اطلسی جوڑا پہن کر، ہارسنگھار کر کے تیار ہو کر بیٹھ گئیں۔ کلانتر کی بیٹی ماہِ تاباں جو ان کی مداح تھیں، پوچھنے لگیں کہ مادر! یہ کہاں کی تیاری ہے؟ تو اس کو بہت عجیب جواب ملا: ”مجھے برہنگی سے سخت نفرت ہے!“
بالآخر وقتِ آخرت آگیا تھا۔ شاہ کے وفادار امیر فوجیوں کے ساتھ آئے اور انہیں اپنے جلو میں لے کر اہلخانی (شاہی) باغ میں لے آئے۔ امیرسردار کل عزیز خاں نے ایک حبشی جلاد کو بلا کر حکم دیا کہ باغ میں جو عورت کھڑی ہے، اس کو ختم کر کے آجاﺅ۔
مشیدی جلاد گیا مگر انہی قدموں پر لوٹ آیا اور کہنے لگا: ”نہیں، مجھ سے یہ نہ ہوگا…. اتنی حسین صورت کا میں گلا نہیں گھونٹ سکتا“۔ سردار نے اسے ٹھوکریں مار کر ڈرایا دھمکایا، تیزھے پلائی تو وہ لڑکھڑاتا دوبارہ گیا اور تھوڑی دیر میں آکر رونے پیٹنے اور ان لوگوں کی مذمت کرنے لگا کہ مجھ سے آج کتنا بڑا گناہ کا کام کرایا ہے۔
سارے امیر اور ان کے حواری باغ کی جانب بھاگے۔ وہاں طاہرہ زمین پر پڑی آخری سانس لے رہی تھیں، باریک رومال رسّی کی طرح ان کی لمبی صراحی دار گردن میں گھس گیا تھا۔ ان لوگوں نے طاہرہ کو دھکیل کر قریبی کنویں میں گرا دیا اور اُوپر سے پتھر اور مٹی ڈال کر کنواں پاٹ دیا گیا۔
آج وہ ایلخانی باغ تو قزوین میں اُجڑی ہوئی حالت میں موجود ہے مگر اس کنویں کا نام ونشان نہیں، جس میں قرة العین طاہرہ کو نیم زندہ حالت میں دفن کیا گیا تھا۔ ان کی آبائی حویلی، ملامحمد تقی اور ملامحمد صالح کے مدرسوں کے کھنڈرات باقی ہیں۔ قرة العین طاہرہ سے متعلق معلومات ملنا مشکل امر ہے۔ ان کی شاعری البتہ زبان ومکان سے ماورا ہو کر دُنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے۔
گر بَتو افتدم نظر چہرہ بہ چہرہ روبہ رو
شرح وہم غم ترا نکتہ بہ نکتہ، مُو بہ مُو
٭….٭….٭

قرة العین طاہرہ سے متاثر ہونے والی عالمی شخصیات
ایسی عالمی شخصیات کی تعداد بلاشبہ سیکڑوں میں ہوگی، جو قرة العین طاہرہ کی شخصیت، شاعری، اس کی بہادری اور اٹل ارادے سے متاثر ہوئیں مگر ہم یہاں ان چند شخصیات ہی کے نام دے سکتے ہیں، جن سے ہم واقف رہے ہیں۔ ان میں ہمارے علامہ اقبالؒ، پروفیسر ہدایت حسین، سرشیخ عبدالقادر، سروجنی نائیڈو، جواہرلال نہرو، سادھو واسوانی، رابندر ناتھ ٹیگور، شیخ ایاز، سوبھوگیا پخندانی، فیض احمد فیض، فراز، خواجہ حسن نظامی کے علاوہ دُنیا کے مختلف ملکوں کے شاہی خاندان بھی طاہرہ کی شاعری، تعلیمات سے متاثر رہے ہیں اور ان میں سے کچھ نے بہائی مذہب بھی اختیار کرلیا۔ ان میں رومانیہ کی ملکہ این میری، چیک سلواکیہ کے سابق صدر تھامس مارزیک، روس کے جنرل فورل، ہالینڈ کی ملکہ زامن ہوف، یوگوسلاویہ کا شہزادہ پال، جاپان کے دانشور ناشوما شامل تھے۔ علامہ اقبالؒ نے قرة العین طاہرہ کی مداح، ان کی زندگی پر تحقیق کرنے والی امریکن اسکالر مارتھا رُوٹ سے ملاقات کر کے ان سے طاہرہ کی شاعری اور ان کی تحقیقات کا مواد بھی حاصل کیا تھا۔
٭….٭….٭

Advertisements
julia rana solicitors london

”طاہرہ“ کی بائیوگرافر مارتھاروٹ
مارتھاروٹ امریکی ریاست اوہائیو میں 1872ءمیں 10اگست کو پیدا ہوئیں۔ شکاگو یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے انہوں نے صحافت کا شعبہ اختیار کیا۔ انہوں نے بہائی مذہب اور قرة العین طاہرہ سے متعلق مطالعہ کیا تو 1908ءمیں عیسائیت ترک کر کے بہائی ہوگئیں۔ بہائی مذہب اختیار کر کے وہ 1915ءمیں دُنیا کے سفر پر نکل پڑیں تاکہ پوری دُنیا میں امن کا پیغام پھیلائیں اور لوگوں کو باب، بہاءاللہ اور قرة العین طاہرہ کی تعلیمات سے آگاہ کریں۔ انہوں نے امریکہ، یورپ، ایشیا، افریقہ اور آسٹریلیا کے کئی سفر کر کے لوگوں کو لیکچرز دیئے۔ پاکستان کے شہر کراچی اور سندھ کے دیگر شہروں میں بھی مارتھا روٹ کئی ماہ تک گھومتی اور بہائی مذہب کی تبلیغ کرتی رہی تھیں۔ 1930ءمیں ایران گئیں اور وہاں طاہرہ کی زندگی سے متعلق تحقیقات کیں، ان کے پس ماندگان سے ملیں اور وہ مقامات دیکھے، جہاں طاہرہ رہی تھیں، تعلیم حاصل کی تھی اور پھر بہائی مذہب کی تبلیغ کے لےے جہاں جہاں ٹھہرتی رہی ہیں، ان تحقیقات کو مارتھا روٹ نے کتابی صورت میں شائع کرایا۔
٭…..

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply