بنام برادرم ہارون ملک۔۔۔ربیعہ فاطمہ بخاری

ایڈیٹر نوٹ :مکالمہ جہاں ایک لکھاری کے خیالات کو مضمون کی صورت  جگہ دیتا ہے ،وہیں وہ اس مضمون کے جواب   میں لکھنے والوں کی بھی حوصلہ افزائی کرتا ہے،مصنفہ نے اپنی پوسٹ پر ہونے والے اختلافی کمنٹس کے جواب میں  یہ مضمون لکھا ہے،اگر کسی کو ان کے  نقطہ نظر سے اختلاف ہے  تو وہ اپنے خیالات کا اظہار کرسکتا ہے،جس کے لیے مکالمہ حاضر ہے،ادارہ ہذا کا کسی   مصنف کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ۔مصنفہ کی تحریر اور اس کے جواب میں لکھے گئے ہارون ملک صاحب کے مضمون کے لنک نیچے موجود ہیں ۔

عذرِ گناہ، بدتراز گناہ۔۔۔ربیعہ فاطمہ بخاری

مکالمہ، ہم جنس پرستی پر ۔۔۔ ہارون ملک

(اس تحریر کو مذہب بیزاری کی عینک اتار کر پڑھنے کی درخواست ہے۔۔)

پرسوں میں نے ہم جنس پرستی کے حوالے سے ایک بلاگ لکھا اور بصد معذرت مجھے یوں محسوس ہوا کہ بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ دے دیا ہو۔ سب سے پہلے تو مجھے اس امر پر حیرت ہوئی کہ میرے انتہائی محترم اور قابل ناقدین میں سے کوئی ایک بھی میرے بلاگ کو پڑھ کریہ نہیں سمجھ سکا کہ اس بلاگ میں میرے بیان کئے گئے خیالات ایک اور تحریر کا ردِ عمل تھے۔ وہ تحریر BBC      Urdu        کی ایک رپورٹ تھی  ، یہ رپورٹ ایک ہم جنس پرست برطانوی پاکستانی کی کہانی ، خود اس کی اپنی زبانی تھی۔ اس شخص کا نام شامل وڑائچ ہے اور یہ ایک ‘گے’ ہے۔ اسے 2013 ء میں ایڈز کا مرض لاحق ہواجس کے بعد بقول اس کے، چند سال اس نے سخت پچھتاوے اور شرمندگی میں گزارے ، اس کا خیال تھا کہ اب وہ جلد ہی مر جائے گا اور سیدھا جہنم میں جائے گا، اور یہ کہ وہ تھا ہی اسی قابل اور اس کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔دو سال تک اس نے احساسِ ذلت کے تحت یہ بات صیغہء راز میں رکھی۔ اس کے الفا ظ ہیں کہ ایڈز کو ہم جنس پرستوں کی بیماری سمجھا جاتا ہے۔ لیکن گزرتے وقت نے  اس کے احساسِ ندامت اور ذلت کو کم کر دیا۔ اور اب اس نے اپنے گھر والوں کو اس سلسلے میں اعتماد میں لے لیا ہے اور انہوں نے اس سلسلے میں اس کے ساتھ ہر ممکن مدد کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ اور اب وڑائچ صاحب ایک جنسی کلینک پر کام کرتے ہیں اور لوگوں کو آگہی دیتے ہیں کہ ایڈز کا مطلب سزائے موت نہیں ہے بلکہ اس کا علاج موجود ہے اور صرف دو گولیاں روزانہ کھانا پڑتی ہیں۔۔

یہ تھا اس تحریر کا مختصر تعارف جس کے حوالے سے میں نے بلاگ لکھا اور میں نے اپنی تحریر میں صرف اس رپورٹ میں دئیے گئے اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کی تھی کہ ایڈز اتنی معمولی نوعیت کی بیماری نہیں جتنی کہ اس رپورٹ میں بنا کر پیش کی گئی تھی۔ اورمیرا دوسرا بنیادی فوکس اس بات پر تھا کہ آپ ہم جنس پرستی کو اپنے طرزِ زندگی کے طور پر اپنانا چاہتے ہیں ، ضرور اپنائیں لیکن اس کو نسلِ نو کے سامنے گلیمرائز کر کے یا اس سے متعلق معاشرے میں ایک عمومی طور پرپائے جانے والی شرم اور جھجھک کے تصور کو ارادتاً ختم کرنے کی کوشش نہ کریں، اور بر سرِ عام دعوتِ گناہ نہ دیں۔یہ تھا میری تحریر کا پسِ منظر اور مرکزی خیال۔۔

اب آتے ہیں برادرم ہارون ملک کے میری تحریر پر کئے گئے  اعتراضات کی طرف، سب سے پہلے تو انہوں نے میرے نقطہء نظر کو ‘پاپولر سٹانس ‘  قرار دیا ۔ حالانکہ فی زمانہ حقیقت اس کے برعکس ہے، آج کا سب سے ‘ان پاپولر’ سٹانس مذہب، خاص طور پر اسلام  اور اخلاقیات ہے۔ جس کو اپنی تضحیک کروانی ہو، طعن و تشنیع کا نشانہ بننا ہو، ‘اسلامیات اور مطالعہء پاکستان’ کا او ر تازہ ترین، ‘  خطبہء جمعہ’ کا طعنہ سننا ہو وہ اسلام کی بات کر لے۔ اور میری تحریر کا اگرچہ مرکزی خیال کسی بھی زاویے سے گے ازم کے دینی پہلو یا مذہب میں اس کی ممانعت وغیرہ کچھ بھی نہیں تھا۔ پھر بھی مجھے ملنے والے آدھے طعنوں کا فوکس یہی تھا۔

برادرم ہارون ملک کے ہاں شخصی آزادی کا جو تصور ہے اس پر گے ازم تو پورا اترتا ہے لیکن پتا نہیں کیوں انسسٹسزم کو یہ اس معیار پر پورا نہیں سمجھتے شاید اس لئے کہ مغرب میں ابھی تک یہ تصور مقبول نہیں ہوا۔ ورنہ اس عمل میں بھی ان کی عائد کردہ دونوں شرائط پوری ہوتی ہیں یعنی بلوغت اور ذاتی انتخاب۔ کیونکہ یہ دو شرائط جس بھی عمل میں پوری ہوتی ہوں وہ جائز ہوتا ہے کیونکہ ان کے ہاں شخصی آزادی کی کوئی مذہبی یا معاشرتی کسی بھی قسم کی کسی حدود کا کوئی تصور نہیں۔

میرا محترم کے ساتھ ایک لمبا چوڑا آن لائن مکالمہ ہوا جس میں مجھ پہ سوالات کی بوچھاڑ کی گئی جن کے میں نے حتی المقدور جواب دینے کی کوشش کی۔ لیکن میں نے ان سے تین سوالات کئے جن میں سے ایک کا جواب بھی مجھے نہیں ملا۔ پہلا تو یہ کہ آپ کے مطابق ہمیں کسی کے بھی جنسی رجحان پر بات کرنے کا کوئی حق نہیں توکو ئی بھی شخص جو انسانی آبادی کی ایک واضح اکثریت کی نظر میں ایک غلط جنسی رجحان رکھتا ہے اسے کس نے یہ حق دیا ہے کہ وہ بر سرِ عام اس کی ترغیب دے اور (ہماری نظر میں) ایک گناہ کو ترویج دینے کی کوشش کرے۔ دوم یہ کہ اگر کل کو مغرب میں انسسٹسزم کو قبولِ عام مل جاتا ہے تو کیا آپ اس کے حق میں بھی دلائل دینا شروع ہو جائیں گے ؟؟اور اگر نہیں تو اس کی بنیاد کیا ہو گی؟؟سوم یہ کہ آپ کے بقول گے لوگ فطری طور پر مردوں کی طرف رجحان رکھتے ہیں تو آپ ان لوگوں کو کس کیٹگری میں رکھیں گے جو ایسا کوئی پیدائشی رجحان نہیں رکھتے، عورتوں سے شادی کرتے ہیں، بچے پیدا کرتے ہیں لیکن شادی سے پہلے زندگی کے کسی سٹیج پر یا شادی شدہ ہونے کےبعد بھی عمر کے کسی نہ کسی حصےمیں اس عادت میں مبتلا ہوتے ہیں؟؟؟کیونکہ پاکستان میں اکثر لوگ جو اس عادت میں مبتلا ہیں وہ اسی کیٹگری سے تعلق رکھتے ہیں،’   پراپر گے’ کی جو اصطلاح آپ نے استعمال کی ہے وہ خالصتاً مغرب کی سوغات ہے جو نہ تو عورتوں میں دلچسپی لیتے ہیں اور نہ ہی بچوں کے جھنجھٹ میں پڑتے ہیں۔مجھے ان سوالات کے جواب نہیں دیے گئے۔

اب آتے ہیں ایڈز اور ہم جنس پرستی کے تعلق کی طرف۔ فاضل کالم نگار نے مجھ پر الزام لگایا کہ میں نے سائنس میں نئی تھیوری پیش کی ہے کہ ایڈز ہم جنس پرستی سے ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ کوئی چھوت کی بیماری نہیں۔ بالکل بجا کہ ایڈز ایک چھوت کی بیماری نہیں اورمجھے بھی اس حقیقت کا بخوبی ادراک ہے کہ یہ ایک sexually        transmitted       disease      ہے اور اس کیلئے ایک ڈونر کا ہونا بہت ضروری ہے۔ لیکن کیا آپ اس حقیقت سے انکار کریں گے کہ جتنے امکانات ایک unsafe     extra       marital       affair      میں ایڈز کے پھیلاوء کے ہوتے ہیں اتنے ہی غیر محفوظ ہم جنس پرستی خاص طور پر گےازم میں ہوتے ہیں اور میری تردید کرتے کرتے بھی میرے انتہائی محترم اور بزرگ ناقد سلطان محمود صاحب نے میری تائید کی ہے کہ ایڈز اور ہم جنس پرستی لازم و ملزوم نہیں ہیں ،گے سیکس کے دوران احتیاطی تدابیر اختیار کر کےاس سے بچا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ایڈز کے پھیلاوء کے امکانات بہرحال موجود ہیں۔ اور اگر یہ سائنس میں کسی نئی تھیوری کااضافہ ہے بھی تو اس کیلئے بہرحال میں کسی صورت قابلِ طعن زنی نہیں بلکہ ان توپوں کا رخ شامل وڑائچ کی طرف کر دیں کیونکہ یہ انہی کا ذاتی تجربہ تھا جس پر میں نے بحث کی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اپنی گفتگو کا اختتام انہی الفاظ پر کرنا چاہتی ہوں جو برادرم ہارون  ملک کے ساتھ میرا آخری مکالمہ تھا کہ  ہم لوگ دو الگ دنیاؤ ں کے باسی ہیں نہ آپ ہمارا نقطہء نظر سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہم آپ کا۔ ہمارا نقطہء نظر، ہماری ذہنی اپروچ، ہمارا زاویہء نگاہ کچھ بھی مشترک نہیں۔ اس لئے ہمارا مکالمہ بھی بے ثمر ہی رہے گا۔ اللّٰہ پاک ہر دو زاویہء ہائے نگاہ رکھنے والوں کی صراطِ مستقیم کی طرف رہنمائی فرمائے۔ اللّٰہ ہم سب کا حامیء وناصر ہو۔

Facebook Comments

ربیعہ فاطمہ بخاری
لاہور کی رہائشی ربیعہ فاطمہ بخاری پنجاب یونیورسٹی سے کمیونی کیشن سٹڈیز میں ماسٹرز ہیں۔ تدریس کے شعبے سے وابستہ رہی ہیں لیکن اب ایک خاتونِ خانہ کے طور پر زندگی گزار رہی ہوں۔ لکھنے کی صلاحیت پرانی ہے لیکن قلم آزمانے کا وقت اب آیا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply