لاؤڈ سپیکر۔۔۔عنبر عابر

جب ہمارے گاؤں میں پہلی بار لاؤڈ اسپیکر متعارف ہوا تھا تو اسے دیکھ کر پہلی نظر میں ہی ادھیڑ عمر ہاشم اپنا دل ہار بیٹھے تھے۔چونکہ قاری تھے اس لئے آواز میں قدرتی طور پر گرج تھی یا شاید اس کی وجہ بیشتر اوقات بچوں پر گرجنا تھا، سو لاؤڈ اسپیکر کیلئے خود کو آسمان والے کی طرف سے موزوں ترین تصور کرنے میں حق بجانب تھے۔لاؤڈ اسپیکر ہاتھ آتے ہی صاحب نے اسے اپنا تن من دھن سونپ دیا۔
صبح کاذب کے وقت جب ابھی انسانوں نے کھیتوں کا رخ نہیں کیا ہوتا تھا، موصوف لاؤڈ اسپیکر میں وعظ فرما رہے ہوتے اور اذان سے پہلے ہی مسلمانوں کو نماز پڑھنے کی تلقین کر رہے ہوتے۔آپ کے وعظ کا اکثر حصہ ٹماٹر پیاز کے ریٹ، فصل کی متوقع پیداوار،مربعے کنال کا حساب اور مخالفین کو اپنی زمینوں تک محدود رہنے کی دھمکیوں پر مشتمل ہوتا۔آخر میں دو چار من گھڑت مسائل جو اپنے پرکھوں سے ازبر کئے تھے بیان کردیتے اور چیلنج کے سے انداز میں کہتے۔”اگر کسی کو ان مسائل میں شک ہو تو وہ مولوی صاحب سے پوچھ سکتا ہے“
یوں وہ ساری ذمہ داری مولوی صاحب کے ناتواں کندھوں پر ڈال کر خود حاجی بن جاتے۔کوئی دوسرا آپ کا بیان سنتا یا نہ سنتا مولوی صاحب ضرور سنتے اور ہمہ تن گوش ہوکر سنتے کیونکہ دن کے وقت گاؤں کے بڑے بوڑھے قاری ہاشم کے ذکرکردہ مسائل پوچھ پوچھ کر ان کا جینا دو بھر کردیتے تھے۔وہ لمحات قابل دید ہوتے جب مولوی صاحب درست مسئلہ بتاتے تھے تو قاری صاحب سنجیدہ لہجے میں ساتھ ساتھ یہ بولتے رہتے۔”بالکل بالکل میری بات کا کم و بیش یہی مطلب تھا“
آپ کی “بیان باری“ سے گاؤں کے لوگ بالعموم جبکہ عمر رسیدہ حضرت گل بالخصوص تنگ تھا۔وجہ یہ تھی کہ حضرت گل فصل میں بٹیریں پکڑنے کیلئے جونہی جال لگاتا آپ کا پرشور وعظ سن کر وہ ساری کی ساری اڑن چھو ہوجاتیں۔یہ دیکھ کر حضرت گل ایک روانی و بے ساختگی سے دیسی گالیاں اگلنا شروع ہوجاتا جس کا اختتام ان لونڈوں کو پتھر اور کنکر مارنے پر ہوتا جو علی الصباح اس کے کھیتوں میں مخصوص نشست باندھے بیٹھے ہوتے۔
ایک دن جبکہ گاؤں کے بچے بوڑھے صبح کی نماز کیلئے مسجد کا رخ کر رہے تھے یک دم قاری صاحب کی لاؤڈ اسپیکر میں گونجتی آواز دم توڑ گئی اور اس کی جگہ دھینگا مشتی کی آوازیں آنے لگیں۔مسجد جاکر معلوم ہوا کہ منہ اندھیرے حضرت گل اور قاری صاحب ایک دوسرے کو نوچ رہے تھے۔تحقیق سے معلوم ہوا کہ لڑائی کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ دونوں ایک دوسرے کو گھور رہے تھے!
صلح صفائی کی کوشش شروع ہوئی تو حضرت گل نے یہ شرط رکھی کہ چونکہ قاری صاحب نے وہی لاؤڈ اسپیکر جس میں وہ اپنی کریہہ آواز میں ٹماٹروں کے ریٹ بتاتا تھا کسی لاٹھی کی طرح کس کر اس کی پیٹھ پر مارا ہے اس لئے آئندہ کیلئے وہ لاؤڈ اسپیکر استعمال نہیں کریگا۔
قاری صاحب سخت مشکل میں پڑ گئے تھے۔انہوں نے پیسے دے کر حضرت گل کو راضی کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔چار و ناچار قاری صاحب کو لاؤڈ اسپیکر سے ہاتھ دھونا پڑے۔
لاؤڈ اسپیکر سے جدائی کے بعد قاری صاحب کمزور پڑ گئے اور اکثر بیمار رہنے لگے۔آپ اکثر فرماتے۔”اگر حضرت گل مجھے پھانسی پر چڑھا دیتا تو مجھے اتنی تکلیف نہ ہوتی جتنی اس پابندی سے ہوئی خدا اس جیسا کم ظرف دشمن کسی دشمن کو بھی نہ دے“
قاری صاحب آج بھی کبھی کبھار ڈرپ کے سٹینڈ کو لاؤڈ اسپیکر سمجھ کر اول فول بکنا شروع ہوجاتے ہیں۔انہوں نے اپنے پوتوں کو نصیحت کی ہے کہ جب اسے دفن کیا جائے تو ساتھ میں ایک عدد لاؤڈ اسپیکر بھی اس کے ساتھ دفنا دیا جائے کیونکہ یہی ایک صورت ہے جس کے ذریعے وہ منکر نکیر کو اپنا دکھڑا سنا سکتا ہے!

Advertisements
julia rana solicitors london

آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply