پختون خواہ انتظامیہ اور دیرینہ دوست کا ویزہ انکار

قبلہ آصف محمود صاحب عمران خان اور تحریک انصاف کو نرگسیت کا شکار کہتے ہیں۔ لیکن یہاں پر پورا خطہ ہی نرگسیت کا شکار نظر آتا ہے۔ چینی حکام نے پختون خوا کی صوبائی حکومت کے نمائندوں کو ویزا دینے سے انکار کردیا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ویزا انکار کی وجوہات کو ابھی بیان نہیں کیا گیا۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ پختون خوا انتظامیہ کے نمائندوں میں کیا دہشت گرد شامل تھے یا انتہائی مطلوب افراد تھے؟ ان افراد میں چند بیوروکریٹس اور حکومتی عہدیداران شامل تھے جنہوں نے چین کے ویزے کے لیے اپلائی کیا تھا لیکن چینی حکومت نے جواز بتائے بغیر ویزا دینے سے انکار کردیا۔ اس سارے معاملے میں بحث کے لیے تین نکات سامنے آتے ہیں جن سے شاید یہ معاملہ سمجھ میں آ سکے۔

پہلا نقطہ، اگر ہم اندھی تقلید کی پٹی اتار کر سوچیں تو ہمیں یہ سمندر سے گہری دوستی اپنی گہرائی میں غوطے لگوا رہی ہے۔ چینی ایک تاجر قوم ہے اور کاروباری لوگ اپنا مفاد دیکھتے ہیں نہ کہ دوسرے کی بہبود کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں۔ چین جو بھی ہمارے لیے کررہا ہے، وہ نہ ہی خیرات ہے اور نہ ہی کوئی نوازش ہے۔ اقتصادی راہداری بھاری سودی قرضوں کے عوض بن رہی ہے جو ہمارے آنے والے بچے بھی شاید نہ اتار سکیں۔ جہاں پر اقتصادی راہداری کا بننا ہمارے لیے قابل فخر ہے، وہاں اس کی تکمیل چینی معیشت کو نئی جان بخشے گی۔ چینی معیشت جو سمندری پانیوں پر امریکی اور بھارتی اثرورسوخ کی وجہ سے اپنی استطاعت کے مطابق کام نہیں کررہی اور سہمے ہوئے انداز سے اپنا مال مارکیٹوں میں پہنچاتی ہے۔ اقتصادی راہداری کی تکمیل سے یہی معیشت اژدہا بن کر امریکی اور بھارتی سامراج کی عالمی معیشت صاف کردے گی۔ اس لیے اقتصادی راہداری کی تکمیل عالمی طاقت چین کے لیے ضروری ہے۔ اس لیے بجائے جذباتی ہونے کے ، ہمیں بھی کاروباری سوچ رکھ کر سوچنا چاہیے۔

دوسرا نقطہ، حکومتوں کے باہمی اختلافات ہوتے رہتے ہیں۔ پارٹیاں آمنے سامنے ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن یہ سب ملکی مفاد اور علاقائی مفاد کی خاطر ہوتا ہے۔ پختون خوا حکومت کا آج کل وفاق کے ساتھ مغربی روٹ کے تناظر میں تنازعہ چل رہا ہے، جس کے متعلق پختون خوا حکومت ہائی کورٹ بھی جاچکی ہے کیونکہ اطلاعات کے مطابق مغربی روٹ کو چینی سفارت خانے نے اقتصادی راہداری کا حصہ قرار نہیں دیا تھا۔ یہ تنازعہ وفاق اور صوبائی حکومت کے درمیان ہے اور اگر اس معاملے میں چینی حکومت فریق بنتی ہے تو یہ اندرونی معاملات میں دخل اندازی متصور ہوگی جوکہ قومی مفاد کے منافی ہے۔ سفارت کاری اور حکومت سازی دوالگ چیزیں ہیں۔ اس لئے اگر چینی حکومت نے اس معاملے کی بنیاد پر ویزا دینے سے انکار کیا ہے تو ان کو جان لینا چاہیے کہ کل کلاں اگر عمران خان جیسا ہارڈ لائنر وزیراعظم بن گیا تو پھر اس کا بدلہ کون دے گا؟ اس لئے حکومتوں کے درمیان اختلاف کو اندرونی طور پر حل ہونے دیا جائے اور ڈکٹیشن دیتے ہوئے فریق نہ ہی بنا جائے تو اچھا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

تیسرا نقطہ، عمران خان کی چائنہ کے بارے میں پالیسی واضح نہیں ہے۔ اقوام متحدہ میں چین، انڈیا کے خلاف ہمارا واحد ہتھیار ہے اور چین نے ہر معاملے پر ہمارا ساتھ دیا ہے۔ حافظ سعید ہویا مسعود اظہر یا پھر ذکی الرحمان لکھوی ہوں، ان تمام کے بارے میں عالمی برادری کے سامنے دوٹوک موقف اپنایا۔ لیکن عمران خان اور تحریک انصاف کی کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آتی۔ قومی جماعتوں کے مختلف ممالک کے سفارت خانوں سے تعلقات ہوتے ہیں۔ لیکن شاید اقتصادی راہداری کے ایشو میں تحریک انصاف نے اپنی انا کی تسکین کی خاطر اتنا سخت موقف اپنایا کہ چینی حکومت بددل ہوکر ویزا دینے سے ہی انکاری ہو گئی۔ اس لئے اس معاملے کو تحریک کے منصوبہ ساز ذرا نرمی سے لیں اور اپنے روابط کو بہتر بنائیں۔ صرف نعرے لگانے اور تقریریں کرنا ہی قیادت نہیں کہلاتا۔

Facebook Comments

محمود شفیع بھٹی
ایک معمولی دکاندار کا بیٹا ہوں۔ زندگی کے صرف دو مقاصد ہیں فوجداری کا اچھا وکیل بننا اور بطور کالم نگار لفظوں پر گرفت مضبوط کرنا۔غریب ہوں، حقیر ہوں، مزدور ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply