میرے سکول۔۔۔اعظم معراج

یہ تصویر میرے دوسرے سکول کی ہے جو کہ اس وقت ایک زیر تعمیرچرچ تھا اور آج کل پریسبٹرین چرچ قلعہ دیدار سنگھ ہے اس چرچ کے زیر تعمیر احاطے میں1967ء میں عارضی پرائمری اسکول قائم تھا یہ میرا دوسرا اسکول تھا۔ میرا پہلا اسکول جہاں پہلے دن امی مجھے انگلی پکڑ کر چھوڑ آئی تھیں ۔ وہ اسکول میرے ننھیال منڈی مرید کے مین جی ٹی روڈ پر واقع تھا۔ منڈی مرید کے لاہور سے تقریباً25کلو میٹر دور مین جی روڈ پر ایک قصبہ ہے۔یہ پرائمری اسکول لاہور چرچ کونسل کے زیر انتظام ماسٹر ڈیوڈ اور ان کی اہلیہ سسٹر روزی چلاتی تھی مسیحی مذہبی اداروں کی دوسری اور بہت سی جائیدادوں کی طرح مین جی ٹی روڈ پر واقع  یہ جائیداد بھی کب کی بک چکی ہے اور اب اگر آپ جی ٹی روڈ پر سفر کرتے ہوئے لاہور سے گوجرانوالہ کی طرف جائیں توجی ٹی روڈ پر بائیں طرف آپ کو منڈی مرید کے شروع میں ہی زینب میرج ہال اور المدینہ سروس اسٹیشن نظر آتے ہیں یہ میرے پہلے اسکول پر ہی بنے ہوئے ہیں۔

یہ اسکول پنجاب کے راویتی اسکولوں کی طرح چار دیواری سے بے نیاز تھا ایک چھوٹی سی عمارت جس کے سامنے ایک چھوٹا سا برآمدہ تھا باہر احاطے میں ایک بڑا تلاب تھا جس میں بطخیں تیرتی رہتی تھیں اور تالاب کنارے ایک نلکا لگا ہوا تھا جس کے سامنے تھوڑی سی جگہ پر پکی انٹیں لگا کر اسے کھرے (کھرے کا متبادل لفظ اگر اردو میں دستیاب ہے تو پلیز راہنمائی کریں) کی شکل دے دی گئی تھی۔کیونکہ ان دنوں میں اورامی منڈی مرید کے میرے ننھیال میں مقیم تھے والد صاحب سندھ میں ضلع ٹھٹھہ کی تحصیل جاتی میں زمین آباد کرنے میں مصروف تھے۔ جب امی مجھے پہلے دن اسکول لے کر گئی تو میرے لئے تالاب میں تیرتی بطخیں دلچسپی کاباعث تھی اور نلکے کے آگے بچوں کاچھوٹا سا ہجوم تھا جو اپنی تختیاں دھو رہے تھے ایک چھوٹی سی نالی کے ذریعے پانی بہتا ہوا تالاب میں جا رہا تھا اسکول میں شائد آدھی چھٹی یعنی بریک کا وقت تھا کیونکہ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ تختیاں دھونے کا کام آدھی چھٹی میں ہی انجام دیا جاتا تھا اسکول سے اس پہلے تعارف کی کوئی اوربات مجھے یاد نہیں بس اتنا یاد ہے امی نے چار دیواری سے بے نیاز احاطے میں کرسی میز لگائے ماسٹر ڈیوڈ سے داخلے کے معاملات طے کیے میں نے تالاب بطخوں اور تختیوں دھوتے بچوں کا جائزہ لیا۔ دوسرے دن امی نے مجھے بڑے اہتمام سے تیار کیا۔ پہلی خاص تیاری انہوں نے یہ کی کہ میرے چھوٹے ماموں منور جو کہ ان دنوں اسی اسکول میں چوتھی یا پانچویں جماعت میں پڑھتے تھے ان کی ٹوٹی ہوئی تختی جسے حرف عام میں پھٹی بھی کہتے ہیں اور ایک الف ب والا قاعدہ اور دوسری خاص تیاری یہ کی تھی کہ امی نے کئی دن پہلے سے ہی اپنے ایک ماموں جو منڈی مرید کے میں ہی درزی کا کام کرتے تھے اور میرے ننھیال میں جب بھی ان بزرگ کا ذکر آتا تو ان کی ایک وجہ شہرت تو ریٹائرڈ فوجی ہونا زیر بحث آتا لیکن خاندان بھر میں ان کی دوسری وجہ شہرت یہ تھیں کہ وہ پینٹ بھی سی لیتے تھے۔

چھوٹے سے قصبے منڈی مرید کے ایک مزید چھوٹے سے محلے حدو کے میں قریبی گاؤں چھاؤنی سے آ کر آباد ہوئے ان مسیحی کھیت مزدوروں کے خاندان کے لئے 60 کی دہائی میں پینٹ سی لینا بہت بڑی بات تھی۔ پینٹ بھی سی لینے کے فن کا ذکر ایسے رشک سے ہوتا تھا جیسے آج اتنا رشک کسی بزرگ کے مائیکرو سافٹ پروفیشنل ہونے سے بھی نہ ہوتا ہو۔ امی نے میرے اسکول جانے کے پہلے دن کو یادگار بنانے کے لئے اپنے ماموں کی خدمات حاصل کی اور ان سے میرے لئے پینٹ سلوا دی اور یہ پینٹ کوئی عام پینٹ نہ تھی بلکہ اس میں گیلس بھی لگے ہوئے تھے رنگ بھی شائد کالا دھاری دھار تھا گھر میں میرا رونا دھونا تو پینٹ پہننے پر ہی شروع ہو گیا کیونکہ میرے لئے وہ پہلا اس طرح کا فارمل لباس تھا۔ میں اس سے پہلے صرف الاسٹک والے پنجامے ہی پہنتا تھا جو اس گیلسوں والی پینٹ کے مقابلے میں بڑا آرام دہ لباس تھا اور یہ بھی ہمارے گھرانے کی شہری اور تہذیب یافتہ ہونے کی انتہا تھی ورنہ میرے دھیال قلعہ دیدار سنگھ میں جو کہ ایک قصبہ تھا اور یہاں ننھیال منڈی مرید کے میں بھی جو ایک قصبہ بلکہ چھوٹا شہر تھا شادی بیاہوں میں مجھ سے بڑے بلکہ کافی بڑے ایسے مہمان بچے بھی دور دراز کے چھوٹے گاؤں سے آتے تھے۔ جن کے ماں باپ شادی بیاہ کے لئے بڑے اہتمام سے ان کے لئے صرف کرتے یا قمیضیں سلواتے تھے پجامے یا شلوار کو وہ فضول خرچی سمجھتے تھے ہمیں کچھ عجیب لگتا تھا لیکن بچوں کے لئے وہ بہت خاص لباس ہوتے تھے اور یقیناً وہ عرب جبوں کی طرح لمبے نہیں ہوتے تھے۔ خیر امی مجھے بہلا پھسلا کر پہلے دن اسکول لے گئی میری کلاس برآمدے میں ہی تھی امی جب مجھے اسکول میں بٹھا کر نکلی تو مجھے یاد ہے مجھے ایسے لگا جیسے میں پوری دنیا میں تنہا رہ گیا ہوں حالانکہ برآمدے اور کلاس میں بھی بہت بچے تھے اور اندر باقاعدہ کلاسوں میں بھی خاصا شور شرابا تھا۔ خیر روتے دھوتے یہ لمحات گزرے چھٹی کے وقت تک میرے کمزور معدے نے اپنا کام دکھا دیا تھا بس گلیسوں والی پینٹ نے میرا پردہ رکھا ہوا تھا یہ مجھے اب لگتا ہے ورنہ بہت سالوں تک اس سارے المیے کا ذمہ دار میں، اس گلیسوں والی پتلون کو ہی سمجھتا رہا۔(کم علمی کا ایک عذاب یہ بھی ہوتا ہے۔کہ بندا محسنوں کو دشمن اور دشمنوں کو محسن سمجھ بیٹھتا ہے۔ اور کئی مورکھ تو ایسے ہوتے ہیں کہ علم ہوجانےکےبعد بھی پرانے بیانیے پر ہی ڈٹے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں)

اس پہلے اسکول میں میرے کچھ دن ہی گزرے کیونکہ کچھ دن بعد ہی میرے دادا ہمیں اپنے گاؤں قلعہ دیدار سنگھ لے آئے۔
قلعہ دیدار جسے میں اپنا آبائی گاؤں کہتا ہوں اس گاؤں میں میرے دادا 1940ء سے رہ رہے تھے میرے دادا کے اجداد نے پتہ نہیں کب سینکڑوں یا ہزاروں سال پہلے اس خطے کی طرف ہجرت کی تھی کیونکہ وہ اور ان کے بھائی مقامی قطعی نہیں لگتے تھے ہاں ہماری پردادی اور دادی انتہائی شفیق خواتین اورشدیدقسم کی مقامی شکل و صورت و رنگ والی تھیں۔ میرے دادا نے میرے علم کے مطابق برصغیرکے اندر پہلی ہجرت1920 میں ضلع گوجرانوالہ کی تحصیل وزیر آباد کے قریب ایک گاؤں کٹھورکالاں سے1920ء میں ضلع لائلپور موجودہ فیصل آباد کی تحصیل گوجرہ کے ایک گاؤں جس کا نام ان کے ساتھ آنے والے زمینداروں نے اپنے آبائی گاؤں کاٹھورکالاں کے نام پر کھٹورکالاں ہی رکھا تھا۔ اس گاؤں میں 10سے 15سال گزارنے کے بعد یہ بہتر کھیتی باڑی کے موقعوں کی تلاش میں اپنے آبائی ضلع گوجرانوالہ کے قصبے نوشہرہ ورکاں میں آ گئے جہاں انہوں نے ایک چھوٹے سے واقع سے متاثر ہو کر راتوں رات فیصلہ کیا اور1940ء میں اپنے عزیزو اقارب کے پاس قلعہ دیدار سنگھ آ کر آباد ہو گئے۔ نوشہرہ سے ان کی ہجرت کا واقعہ یوں تھا کہ میرے والد آٹھ نو سال کی عمر میں اپنے چچا جن کا نام مند تھا لیکن سارہ خاندان انہیں چاچا نکا کہتا تھا۔ وہ دلچسپ طرح کے چاچا نکے تھے۔ میرے دادا سائیں عمر مسیح یہ ان کا شناختی کارڈ والا نام تھا ان کے بپتسمے کا نام عمر یوحنا تھا۔ چاچانکا اس سے بہت چھوٹے تھے اسی نسبت سے سارا خاندان انہیں چاچا نکا کہتا تھا لیکن وہ ایک عجیب نکے تھے ساڑھے چھ فٹ کے قریب قد گورے چٹے ستواں ناک جب میں نے ہوش سنبھالا اس وقت ان کی عمر تقریباً65سال ہو گی اس عمر میں بھی سڈول جسم کے مالک تھے میں نے اب تک کی اپنی ساری عمر میں ان سا وجیہ اور مردانہ حسن کا نمونہ کوئی بزرگ شخص نہیں دیکھا حالانکہ ہم نے اپنے ہوش سنبھالتے ہی اپنے گھر میں ان کے جوان سال بیٹے ہمارے چچا عطا کی ناگہانی موت کے قصے سنے تھے جوان بیٹے کی موت نے انہیں جذباتی طور پر گہرا صدمہ دیا تھا لیکن اس کے باوجود وہ ایک خوبصورت متوازن شخصیت کے بزرگ تھے اور میرے دادا انہیں بیٹوں سے بھی بڑھ کر پیار کرتے تھے۔ میرے والد اپنے اسی چاچے نکے کے ساتھ رات کو کسی قریبی گاؤں سے میلہ دیکھ کر آ رہے تھے راستے میں چچا بھتیجے نے کسی ڈیرے پر ایک خوبصورت گھوڑی بندھی دیکھی ۔ چچا نے گھوڑی کی تعریف کی ۔ آس پاس کوئی رکھوالا انہیں نظر نہ آیا تو میرے والد نے اپنے چاچا سے کہا’’چاچا کھوڑی کھول نہ لیے‘‘ چچا گھوڑی چوری نہ کر لیں چچا نے بھتیجے کو تو ڈانٹ دیا اور گھر آ کر اپنے بھائی کو بتایا کہ آج میلے سے لوٹتے ہوئے معراج نے تنہا بندھی ہوئی گھوڑی دیکھ کر یہ کہا ہے دادا نے بات سن کر اپنے دونوں بھائیوں حیات اور مند سے مشورہ کیا کیونکہ قیام پاکستان سے پہلے یہ قصبہ نوشہرہ ورکاں چوری چکاری، ڈاکوں کی وجہ سے بڑا مشہور تھا۔

یعنی اس علاقے کی وجہ شہرت آج کے حکمرانوں کے محل سراؤں کے مشہور ناموں والے محلوں سے ملتی جلتی تھی۔ دادا نے اپنے بھائیوں سے کہا ہمارے بچے اب جوان ہو رہے ہیں اور جس طرح کا ماحول اس قصبے میں ہے یہ نہ ہو کہ ہمارے بڑھاپے کورٹ کچہریوں میں گزرے پتہ نہیں کیسے زمانے تھے۔ جب لوگ کورٹ کچہریوں سے ڈرتے تھے۔ آج کی اشرافیہ چوری چکاریوں اور ڈاکوں کے الزامات میں بڑے فخر سے عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں اور وکٹری کا نشان جو اب بے شرمی کی علامت بن چکا ہے بناتے ہیں خیر دادا نے اپنے بھائیوں سے مشورے کے بعد الصبح ہوتے ہی گھوڑی کو ایڑھ لگائی اور اپنے عزیزوں کے پاس قلعہ دیدار سنگھ پہنچ گئے جہاں انہوں نے ایک سکھ جاگیردار سردار دیال سنگھ سندھو سے جن کے دادا سے اپنے رشتے داروں کی وساطت سے پہلے سے تعلقات تھے اور ان تعلقات کی مضبوطی کی ایک وجہ ان دونوں کا سندھو ہونا بھی تھا۔ بلکہ میرے چچا نذیر کے مطابق سردار دیال سنگھ سندھو کا بیٹا پہلوان سنگھا سندھو ہمارے چاچے کا اتنا گہرا دوست تھا اور ان سے عشق کی حد تک پیار کرتا تھا کہ بچپن میں ہمیں لگتا تھا کہ پہلوان سنگھ سندھو ہمارے چچا کا دوست نہیں عاشق تھا۔ خیر دادا نے سردار دیال سنگھ  سندھو سے معاملات طے کیے اور ان سے 27ایکڑ زمین حصے پر لے لی واپس نوشہرہ ورکاں پہنچے اپنا گھر بار بیچا سمیٹا اور ایک نئی ہجرت کی تیاری شروع کی جب گاؤں میں یہ خبر پھیلی کہ عمر کا گھرانہ یہاں سے جا رہا ہے تو محلے دار ،یار ،دوست اور جن کی زمین پر کاشت کرتے تھے وہ آئے اور بہت زور لگایا کہ آپ کیوں جا رہے ہو ہم سے کوئی کوتاہی ہوئی ہے یا جو بھی وجوہات ہیں بتاؤ دادا نے کسی کو کچھ نہیں بتایا لیکن اپنے ارادے پر پکے رہے اور اس طرح قلعہ دیدار سنگھ ان کا نیا گاؤں ٹھہراجہاں پھروہ1940ء سے لے کر1996ء میں اپنی وفات سے ایک سال پہلے تک تقریباً45سال رہے اپنی زندگی کا آخری سال انہوں نے کراچی میں میرے تایا نور ڈینٹل کے ہاں گزارا ۔

قلعہ دیدار سنگھ میں میرا داخلہ یہاں اس تصویر والے سکول کروا دیا گیا تصویر والا سکول اس لئے کہ نہ مجھے وہاں پڑھنے کے دوران اس اسکول کا نام پتہ چلا نہ ہی آج تک مجھے اسکول کا نام پتہ ہے مجھ سے بڑی میری تایا زاد بہن نسرین پہلے ہی یہاں زیر تعلیم تھی۔ یہ بھی پرائمری اسکول تھا ایک بہت بڑے زیر تعمیر ہال پر مبنی یہ اسکول تھا جس پر چھت نہیں تھی بس چار دیواری دروازہ اور کھڑکیاں تھیں۔اس کے اسٹرکچر سے لگتا تھا کہ یہ ڈھلون چھت والی بلڈنگ بنے گی۔ پورے ہال میں ریت کی بھرائی ہوئی ہوئی تھی کچھ بچے گھر سے ٹاٹ اور کچھ ان کے بغیر آتے تھے اور ریت کی وجہ سے وہاں چلنا پھرنا اور بیٹھنا بڑا آرام دہ لگتا تھا ہمارے سکول کے بالکل ساتھ جڑی ہوئی ایک باقاعدہ اسکول کی عمارت تھی۔ وہاں بچے یونیفارم میں آتے ان کی کلاسیں بھی بند اور مجھے وہاں سے گزرتے ہوئے بھی گھٹن ہوتی ہے ،کیونکہ میرے اسکول میں کھلی دھوپ کھلی ہوا اور آرام دہ ریت تھی ہمارے سکول کی بلڈنگ کارنر تھی، سڑک کے اس پار ایک بہت بڑی عمارت تھی جو کہ لڑکیوں کا گورنمنٹ سکول تھا ۔۔اس کا گیٹ میں نے نہیں دیکھا تھا۔ وہ شائد کسی اور طرف تھا ہمارے سکول کے سامنے اس سکول کی بہت اونچی قلعہ نما دیوار جس پر خارادار تار بھی لگی ہوئی تھی۔ یعنی میرے سکول کے دونوں طرف گھٹن زدہ ماحول میں میرا سکول تھا۔ میں نے اس اسکول سے کچی پکی کی (آج جسے آپ آج کی پری پرائمری بھی کہہ سکتے۔ ہیں ) اور پھر پہلی دوسری پاس کی تیسری کلاس میں پہنچا تو 1972ء میں میرے خاندان نے کراچی ہجرت کر لی۔ اس سکول سے دو یا ڈھائی سالہ رفافت میں نہ مجھے اس سکول کا نام پتہ چلا اس کے بعد جب ہم چھٹیوں میں قلعہ دیدار سنگھ جاتے تو نہ کبھی قصبے کے اس حصے میں جانے کا اتفاق ہوا قلعہ دیدار سنگھ اس وقت بھی بڑا قصبہ تھا ہمارے محلے پوتن پورہ بالکل گاؤں کا منظر پیش کرتا تھا اور ہمارا اسکول تو باقاعدہ شہر میں تھا دادی دادا کی زندگی تک قلعہ دیدار سنگھ سے تعلق رہا ہم چھٹیوں میں وہاں چلے جاتے۔ پھر ان کی وفات کے بعد یہ رہا سہا تعلق بالکل ختم ہو گیا تقریباً 1990 سے میں اس کھوج میں تھا کہ مجھے پتہ چلے اس سکول کا نام کیا تھا ؟ کیونکہ بچپن میں کبھی کسی نے نہیں بتایا تھا بس وستی والا اسکول تھا لہذہ جب بھی کوئی عزیز گاؤں جاتا میں انہیں کہتا، کہ پتہ کرنا اس سکول کا نام کیا تھا ۔ میں نے اپنے چچا نذیر کو اپنے بچپن کے ایک دو کلاس فیلوز کے نام بتائے کہ فلاں سے پوچھ لیجئے گا ،لیکن کوئی کھوج لگ نہ سکا۔میری بتائی ہوئی لوکیشن کے آس پاس رہنے والے لوگوں سے چچا نے پوچھا تو لوگوں نے وہاں کوئی اسکول ہونے کی تردید کی پھر میرے ایک کزن نذیر جو خودتو بسلسلہ روزگار کراچی سے مشرق وسطی چلے گئے، اور انہوں نے اپنے بچوں کو گاؤں سیٹل کر دیا ۔پھر یہ بچے بھی پڑھ لکھ کر مڈل ایسٹ چلے گئے۔

ان میں سے میرا ایک بھتیجا مائیکل مڈل ایسٹ سے ریٹائر منٹ کے بعد گاؤں سیٹل ہو گیا اسی دوران کمیونیکیشن کا سیلاب آ گیا بہت سے پرانے ٹوٹے ہوئے رابطے بحال ہونا شروع ہوئے تقریباً 9سال پہلے لاہور ایک شادی پر جانا ہوا تو مائیکل نے کہا چاچو آپ نے بچوں کو لے کر ہمارے پاس ضرور آنا ہے شادی سے فارغ ہو کر ہم قلعہ دیدار سنگھ پہنچ گئے۔ کھانا کھانے کے بعد میں نے مائیکل کو کہا کہ مجھے اپنا سکول دیکھنا ہے اور اسی راستے سے جانا ہے جہاں سے ہم پیدل سکول جاتے تھے مائیکل نے کہا چاچو وہ راستے تو تنگ ہیں میری گاڑی بڑی ہے خیر میرے اصرار پر اس نے چھوٹی گاڑی کا انتظام کیا۔ مکان، عمارتیں بدل چکی تھیں میں تقریباً 38سال بعد اسی راستے پر گامزن تھاجس پر ہم بچپن میں گھر سے سکول جاتے تھے گھر سے نکلتے ہی ہماری گلی کے آخری موڑ پر ماسی جیراں کا گھر تھا جسے ہم ماسی جیراں کہتے اور گھر میں دادی دادا اسے جیراں میراثن کہتے اور جب کبھی وہ ہمارے گھر آتی تو اس وقت وہ پتر جیراں ہو جاتی۔ ماسی جیراں کے گھر کے بعد چوراہا تھا جہاں ایک اور ماسی جیراں ماچھن کی بھٹی لگی ہوئی تھی۔ دن میں یہ ایک ویران چھوٹا سا چوراہا تھا لیکن دوپہر ڈھلتے ہی یہاں رش لگ جاتا اور بچے بڑے اپنے اپنے گھروں سے کچے چاول مکئی، چنے لے کر آتے کچھ بطور محنت ماسی کو اپنے دانوں میں سے دانے دیتے اور کچھ بطور محنت سکے دیتے اور اپنے اپنے دانے بھنوا کر بڑے برتنوں میں اور بچے اکثر جھولیاں میں ڈلوا کر رخصت ہوتے۔ گلی کا نکڑ مڑتے ہی ایک شاہ صاحب کا گھر تھا وہ خطاطی اور مصوری کرتے تھے کبھی کبھی نظر آتے ان کی آنکھیں سرخ ہوتیں ان کے بارے میں کچھ عجیب و غریب باتیں بھی مشہور تھیں جن کی وجہ سے ہم بچہ لوگ ان سے اچھا خاصا خوف کھاتے تھے اور ان کے دروازے سے ہم بڑی شتابی سے گزر جاتے۔ سردیوں میں گھر سے نکلنے کے بعد ہمارا پہلا اسٹاپ شاہ صاحب کے گھر فوراً بعد ایک چاول چھڑنے والی فیکٹری کے پچھوڑے سے نکلنے والا صاف گرم پانی ہوتا۔

ہم بچہ لوگ جو تین یا چارکبھی زیادہ بھی ہوتے سردیوں میں وہاں ہاتھ منہ دھو کر جاتے کیوں گھروں میں نلکوں سے نکلنے والا پانی شدید ٹھنڈا ہوتا ماؤں کے شدید اصرار کے باوجود زیادہ تر بچے ہاتھ دھونے کا پروگرام راستے کا ہی رکھتے اور اگر گھر والوں کے دباؤ پر گھر ہاتھ منہ دھونا بھی پڑتا تو سردیوں میں اس گرم پانی سے ہاتھوں کو گرم بلکہ نگا کرنے کی عیاشی ضرور کرتے فیکٹری کے بعد آگے کریم چھڑے دی ہٹی آ جاتی یہ مشرقی پنجاب سے آئے ہوئے مہاجروں کا گھرانہ تھا اور ایک بھائی شادی شدہ اور بچوں والا تھا باقی شائد دو یا تین بزرگ چھڑے تھے اور ان کی دودھ دہی کی دکان کو لوگ کریم چھڑے دی ہٹی یا چھڑیا دی ہٹی کہتے تھے ہمارا قافلہ جیسے جیسے آگے بڑھتا شہری حدود شروع ہو جاتی۔ چاچا کوبہ کشمیری جو کہ ہمارا محلے دار تھا لیکن اس کے بڑے بھائی اس طرف شہر میں رہتے تھے ان کے گھر کے سامنے سے گزرتے ہوئے ہم اُس مین روڈ پر آ جاتے جو گوجرانوالہ سے حافظ آباد جانے والی سڑک کی ایک شاخ تھی۔ قلعہ دیدار سنگھ کی طرف آنے والی یہ سڑک جیسے ہی اس قصبے میں داخل ہوتی دو شاخوں میں بٹ جاتی ایک شاخ گاؤں سے باہر سے گزرتی ہوئی حافظ آباد کی طرف چلی جاتی دوسری سڑک گاؤں کے اندر چلی جاتی جس میں گاؤں کا مین بازار تھا۔ میری ہمیشہ بچپن میں یہ کوشش ہوتی کسی دن میں پورے قصبے سے نکل کر اس سڑک کو دوبارہ کھیت کھیلیانوں میں نکلتے دیکھوں۔ اس مین سڑک پر ہماری میونسپل کمیٹی کا دفتر تھا جو کہ ایک بہت ہی خوبصورت عمارت تھی چاچے کوبے کشمیری اور ان کے بھائی کا ایک لطیفہ مشہور تھا چاچا کوبہ کشمیری ٹور ٹپے والا آدمی تھا اس کا روزگار بھی گوجرانوالہ میں تھا اور گاؤں میں مشہور تھا کہ چاچے کا گوجرانوالہ کے بڑے پہلوانوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا تھا گوجرانوالہ میں ’’بڑے بدمعاشوں کو بھی پہلوان کہا جاتا ہے‘‘ یہ لطیفہ کچھ یوں تھا کہ چاچے کوبے کشمیری کے بڑے بھائی بڑے نمازی پرہیز گار تھے اور ان کے کئی بیٹے تھے جو اب جوانی میں قدم رکھ رہے تھے ۔ ایک دن انہوں نے اپنے بھائی یعنی چاچے کوبے کشمیری کو کہا کہ یار کوبے میرے بیٹے اب جوان ہو رہے ہیں اور میں محسوس کرتا ہوں کہ میرے بچے مجھ سے زیادہ تمہاری شخصیت سے بڑے متاثر ہیں اور خاص تمہارے گوجرانوالہ کے دوستوں کے قصوں سے بڑے ہی متاثر دکھائی دیتے ہیں لہٰذا تم اپنی یہ صحبتیں چھوڑ دو اور روزے نماز کی طرف آ جاؤ اس کے عوض مجھ سے چاہے پانچ سو روپے ہی لے لیا کرو پانچ سو رو پے ان دنوں خاصی بڑی رقم تھی چاچے کوبے نے یہ آفر سن کر بڑی بے نیازی سے کہا پاہ فیر2ہزار لواں گا منظور اے تے دس۔( بھائی میں 2ہزار روپے لوں گا منظور ہے تو بتائیں) اور اس طرح یہ ڈیل مکمل نہ ہوئی کیوں کہ 2ہزار ان دنوں کافی بڑی رقم تھی۔ چاچے کے طور طریقے میں نے اپنی ہوش میں بھی وہ ہی دیکھے۔ جن پر ان کے بڑے بھائی کو اعتراض تھا۔

مین روڈ پر تھوڑا آگے جا کے بازار میں تھانہ تھا اور تھانے کی سامنے والی گلی میں ایک امام بارگاہ تھی جس کے ساتھ یا اندر ہی نویں اور دس محرم کے جلوس کے لئے استعمال ہونے والا گھوڑا ہوتا تھا۔ ہم بچوں کی اسکول سے واپسی پر کئی دفعہ کوشش ہوتی تھی کہ ہم زرہ اپنے روز مرہ کے راستے سے ہٹ کر ایک نظر امام بارگاہ میں بندھے گھوڑے کا دیدار کریں۔ کیونکہ میرے شیعہ دوستوں نے اس گھوڑے کے بارے میں کئی دلچسپ باتیں بتا رکھی تھیں لیکن اس میں ہمیں کامیابی کبھی نہ ہوئی کیونکہ امام بارگاہ کا دروازہ بند ہوتا تھا یا کبھی کھلا ہوتا تو گھوڑا اندر کہیں دور بندھا ہوتا تھا ہمیں یہ دیدار کبھی کبھار ہی نصیب ہوتا جب شام کو گھوڑے کا رکھوالا یا خادم اسے ٹہلانے کے لئے نکلتا ہم بچوں میں سے کوئی اپنی امی کے ساتھ بازار میں ہوتا اور یہ واقعہ بعد میں اپنے دوستوں سے ضرور شیئر کرتا یا پھر گھوڑے کا دیدار محرم کے مہینے میں ہوتا جب گھوڑا نکلتا ہماری مائیں بڑے اہتمام سے ہمیں گھوڑا دکھانے لے جاتیں بلکہ میں نے تو بچپن میں امی کی دوستوں کے ساتھ مجلسیں بھی اٹینڈ کی اور ذاکروں کے فن خطابت کے اثرات اپنی آنکھوں میں بطور نمی بھی محسوس کئے اسی طرح چاچے انورلمبڑ (نمبردار) جو کہ ابا کا دوست تھا کہ ساتھ صوفیوں کی محفلوں میں بھی شرکت لیکن ہمارے کاتھولک باؤ، باؤ برکت نے ہمیں کبھی بھی نہ ڈرایا تھا کہ ان سے ملنے سے ہماری مسیحیت کو کوئی خطرہ ہو سکتا ہے۔بلکہ چاچا انور لمبڑ (نمبردار) اکثر میری دادی کو سلام کرنے ہمارے گھر آتا تو اگر اس وقت باؤ جی ہمارے گھر تشریف فرما ہوتے چاچا لمبڑ انہیں انتہائی عقیدت سے سلام باؤ جی کرتا اور کئی دفعہ رخصت سے پہلے باؤ جی جو مختصر دعا کرتے اس میں بھی چاچا انور بھی شامل ہو جاتا لیکن اس کے باوجود وہ تمام عمر ایک راسخ العقیدہ سنی ہی رہا۔

ہم بازارکو بطور راہ گزر دن میں دو دفعہ استعمال کرتے لیکن اس کے علاوہ بازار کی طرف ہمارا گزر شازو ناز ہوتا کیونکہ ہمارا محلہ کھیتوں سے زیادہ نزدیک تھا اور کھیتوں اور گاؤں کے درمیان ایکڑوں پر محیط بڑا سا میدان تھا جسے ہم پڑ کہتے تھے۔ چاول کی فصل تیار ہونے کے سیزن میں یہ پڑ فیکٹریوں والے چاول کی فصل منجی سکھانے کے کام لاتے تھے اور باقی پورا سال یہ پورے قصبے کے لئے میدانوں کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔ اسکول کے علاوہ ہمارا وقت ان ہی پڑوں میں گلی ڈنڈا یا اگر کبھی کوئی گیند ہاتھ لگ جاتی تو فٹبال کھیلتے گزرتا تھا۔ تھانے کے بعد ہم مین بازار سے اندر گلی میں مڑ جاتے اس گلی کے درمیان میں ایک دو منزلہ رہائشی عمارت تھی مشہور تھا کہ اس میں پورہ( تہہ خانہ) بھی ہے پورے قصبے میں یہ بلڈنگ ریاض درزی کے نام سے مشہور تھی اور ریاض درزی کی امارت کے قصے زبان زد عام تھے۔ مشہور تھا کہ دوسری عالمی جنگ میں ان کے بزرگوں نے برطانوی فوجیوں کی وردیاں سینے کا کوئی بڑا ٹھیکہ لیا تھا۔ ریاض درزی کی گلی کا موڑ مڑتے ہی ہمارے اسکول کا موڑ مڑنے سے پہلے والی گلی کی ٹکڑ پر میری پسندیدہ دکان تھی اور میں اسکول جانے سے پہلے وہاں سے تین یا پانچ پیسوں کے بادام والے انڈے لیتا جو مونگ پھلی والے انڈے ہوتے تھے۔ لیکن وہ میرا پسندیدہ کھانا تھا اور تین یا پانچ پیسے کے خاصے آ جاتے اس نکڑ کے بعد ہمارے اسکول والی مختصر سی گلی تھی جس میں ایک طرف کسی پادری کا گھر اور اس کے ساتھ دو گھر تھے اور سامنے ایک گھر اور دو اسکول تھے۔ ایک تاریک بند کمروں والا باقاعدہ کلاسوں پر مشتمل اسکول وہ بھی کسی مشینری ادارے کا اسکول تھا اور اس کے ساتھ ہی میرا زندگی کا دوسرا اسکول جو کشادہ ہوا دار براہ راست دھوپ والا ریت کے فرش کی وجہ سے آرام دہ معیاری اتنا کہ جب ہم کراچی آ گئے تو یہاں اسکول میں داخلے سے پہلے میرے والدین نے میری ٹیوشن کا بندوبست کیا۔ یہ ٹیوشن ماسٹرجیمس مرحوم جو کہ نارویجن اسکول میں پرائمری ٹیچر کے گھر میں تھی ان کے ایک یا دو کمروں کے گھر کا مین کمرہ ہمارا ٹیوشن سینٹر تھا۔

پندرہ سے بیس چھوٹے بچے پہلی سے پانچویں تک کے اکٹھے بیٹھتے تھے۔ مجھے جس بات نے سب سے حیران کیا وہ یہ تھی کہ ان سب بچوں میں سے صرف ایک بچے کو اردو پڑھنی آتی تھی جب کہ میرے اسکول میں پکی کے سارے بچے اردو پڑھ لیتے تھے۔ ( یہ بچہ کچھ  سال بعد نارویجین اسکول میں میرا کلاس فیلو ہوا۔یہ بچہ شمیم خورشید تھا۔جو آج کل سینٹ پیٹرک کالج کا پرنسپل ہے۔)
اس طرح میرا پہلا اسکول المدینہ سروس اسٹیشن اور دوسرا اسکول نہ ملنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ اسکول کی عمارت ایک چرچ میں تبدیل ہونے کی وجہ سے اپنا وجود کھو چکی ہے ۔صرف مجھ جیسے کئی لوگوں کی یادوں میں زندہ ہے۔ کیونکہ یہ اسکول اب چرچ بن چکا ہے اور تصویر میں آپ کو نظر آ رہا ہے ۔آفس پریسٹرین چرچ قلعہ دیدار سنگھ شائد میرا دوسرا اسکول شروع کے کچھ سال ہی اسکول رہا بعد میں گرجے میں تبدیل ہو گیا یا ممکن ہے ۔جب تک یہ چرچ زیر تعمیر رہا اس وقت کے مذہبی راہنماؤں کی ترجیحات کے بدولت قلعہ دیدار سنگھ کی چھوٹی سی کلیسا کے بچوں کی تربیت کے لئے بطور اسکول استعمال ہوتا تھا ہمارے اسکول سے ملحقہ جو مشتری اسکول تھا وہ بھی مجھے مائیکل نے بتایا وہ بھی کلیسا کے مطالبے پر اسکول سے جنج گھر بن چکا ہے۔ اس اسکول سے میرا ناطہ یوں ٹوٹا کہ میں اپنی تایا زاد بہن کا نام تو رشیداں ہے لیکن پورا خاندان انہیں باجی شیداں کے نام سے پکارتا ہے۔ان کی شادی میں کراچی آیا۔ یہ شادی19ستمبر1971ء کو تھی یعنی اس سے کچھ دن پہلے میں پہلی دفعہ تقریبا 8 مہینے10دن کی عمر میں کراچی آیا ۔’’ کراچی آنے کا سفر بھی یادگار تھا جو میں نے بڑی تفصیل سے اپنے ادھورے سفر نامے ملائیشیا براہ راست تھائی لینڈ میں لکھا ہے۔ یہاں میں اس کا کچھ حصہ نقل کر رہا ہوں‘‘۔

1971ء کا زمانہ ہے ایک سات آٹھ سال کا بچہ جو قلعہ دیدار سنگھ ہی کو دنیا سمجھتا ہے اسکول کے بعد دوستوں کے ساتھ گلی ڈنڈا کھیلنے کو کائنات کا سب سے دلچسپ کھیل اور چارہ لانے والی کھوتی (گدھی) کو دنیا کی بہترین سواری سمجھتا ہو اس کی نظر میں سفر کا مطلب قلعہ دیدار سنگھ سے کوٹ امر سنگھ کا پیدل سفر ہوتا ہے، یہ دونوں گاؤں ضلع گوجرانوالہ میں واقع ہیں قلعہ دیدار سنگھ اور کوٹ امر سنگھ کا پیدل سفر واقعی بڑا ہی آرام دہ اور خوبصورت ہوتا تھا میں اور میری چھوٹی بہن امی کے ساتھ قلعہ دیدار سنگھ میں دادا اور دادی کے ساتھ رہتے تھے اور ابو کام کے سلسلے میں کراچی میں تھے کوٹ امر سنگھ میرے دادا کی چھوٹی بہن رھتی تھی کی جن کا نام تو شاید حسین بی بی تھا لیکن ابو میرے چچا اور تایا خاندان کے دوسرے بڑے انہیں پھوپھی حسینا اور بچہ لوگ بے بے حسینا اور ان کے اپنے بیٹے جو کافی زیادہ تھے اور پوتے اور پوتیاں ان کو صرف بے بے بولتے تھے، ہمارے یعنی میرے اور امی کے لئے وہاں جانا ہمیشہ ایک خوبصورت سفر ہوتا کیونکہ بے بے حسینا جیسا شفیق اور محبت کرنے والا انسان پھر ساری زندگی مجھے نظر نہیں آیا اور ہر انسان سے محبت اور شفقت سے پیش آتی، مجھے اور میرے دوسرے تمام کزن کو جو کبھی کبھار کراچی سے آتے تھے بہت زیادہ پیار کرتی کیونکہ اپنے بھتیجوں سے انہیں خاص پیار تھا لہٰذا ہمیں وہ اپنے پوتے پوتیوں سے بھی بڑھ کر پیار کرتی اور امی کو بھی وہ اپنی بیٹیوں کی طرح چاہتی تھیں۔

لہٰذا وہاں جا کر ہمیشہ ایک خاص خوشی اور مسرت کا احساس ہوتا، عموماً میں اور امی چار بجے گھر سے نکلتے تاکہ موسم ذرا ٹھنڈا ہو جائے لیکن ابھی پھر بھی گرمی ہوتی جیسے ہی گاؤں سے نکلتے پہلے ایک کنواں تھا وہاں سے ہم خاص کر میں ڈیک لگا کر پانی پیتا امی چھوٹی بہن کے منہ پر پانی کے چھیٹے مارتی رومال گیلا کرتی تاکہ راستے میں منہ پونچھنے کے کام آ سکے، میں کھیتوں کے درمیان کچے راستے پر آگے چلتا تاکہ ایک کھیت سے نکل کر دوسرے کھیت میں جانے والے نیولے اور چوہوں کو دیکھ سکوں، راستے کے کنارے بیٹھی ہوئی فاختاؤں اور چڑیوں کو بھی اڑا سکوں، گاؤں سے تین چار کلومیٹر کے بعد نہر آ جاتی جس کے کنارے کھیتوں سے بہت اونچے ہوتے اور خوب بھری ہوئی کناروں پر لگی ہوئی گھاس اور پانی کی سطح ایک ہی لگتی اور میں ہمیشہ سوچتا کہ اس کے کنارے کبھی ٹوٹ جائیں تو کتنا مزہ آئے کتنی ساری مچھلیاں نیچے کھیتوں میں آ جائیں نہر کا پل کراس کرنے کے بعد تھوڑا آگے جا کر ایک گاؤں آ جاتا جس کا نام پپناکھا تھا، گاؤں شروع ہونے سے پہلے ہی کچی سڑک تھی جو آگے جا کر گاؤں کے اندر سے گزرتی، شروع میں ہی سڑک کے دونوں طرف امرود کے باغ تھے پھر جیسے ہی گاؤں کے اندر داخل ہوتے سیدھے ہاتھ پر ایک بہت بڑا کچی مٹی کا ٹیلا تھا جس کو مقامی لوگ پڑ کہتے اور اس پڑ کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ یہ لوک داستان راجا رسالو کی ایک کردار مائی لونا کا محل تھا، یہ ٹیلا ایک پہاڑ کی شکل میں سڑک پر جھکا ہوا تھا، کچی مٹی کا ہونے کی وجہ سے مجھے ہمیشہ لگتا کہ جب میں اگلی بار یہاں سے گزروں گا تو گر چکا ہو گا لیکن اگلی دفعہ یہ پھر وہیں ہوتا، پپناکھے سے باہر نکلتے تو سیدھے ہاتھ پر ایک چھوٹی نہر کے کنارے کافی آگے جا کر ایک گاؤن ٹھکر کے آ جاتا یہ اس چیز کے آثار ہوتے کہ کوٹ امر سنگھ بالکل نزدیک ہے جیسے ہی سوئے (چھوٹی نہر) کا پل پارکرتے کوئی نہ کوئی گاؤں کا آدمی یا عورت ملتے اور خوش ہو جاتے پرونے آ گئے جو حیران کن بات تھی، وہ یہ کہ سارے گاؤں کو پتہ ہوتا کہ یہ بے بے حسینا کے پرونے (مہمان) ہیں اور یہاں تک پتہ ہوتا کہ اس کے کیا لگتے ہیں۔

اس طرح یہ سفر اختتام کو پہنچتا ہے ، نہ ٹکٹ نہ سواری نہ دھواں نہ آلودگی خوبصورت کچا راستہ دونوں طرف کہیں کہیں اونچے درخت کہیں کنواں اس کی چلاروں (آبشاروں) سے گرتا ہوا پانی راستے میں کہیں ہل چلاتے ہوئے کسان مل جاتے کے ایسے سادے اور صاف ستھرے سفر کرنے والے مسافر کا پہلا جدید سفر جس میں پاکستان ریلوے بھی شامل ہو گئی ہوا یہ کہ کراچی سے ابو کی ایک ماموں زاد بہن شاداں آ گئی جس کے ساتھ اس کے دو بیٹے جو میرے ہم عمر اور ایک چھوٹی بیٹی بھی تھی میری ایک تایا زاد بہن پروین اور چچا زاد بھائی آصف نزیر بھی کراچی سے چھٹیاں گزارنے اس کے ساتھ آئے ہوئے تھے خوب ہلا گلا رہا اب جب پھوپھی شاداں کے جانے کے دن قریب آئے تو امی نے میرا پروگرام بھی ساتھ بنا دیا کہ یہ اپنے ابو سے بھی مل آئے گا اور وہاں ایک تایا زاد بہن رشیدہ کی شادی میں شرکت کر آئے گا۔ میں بھی خوش تھا کہ ایک تو ابو سے ملاقات اور اوپر سے مہمان بچوں کا ساتھ کراچی کی سیر اور ریل گاڑی کا سفر اب جس دن یہ ٹرین چلنی تھی بہت سارے رشتہ دار صبح ہی ہمارے گھر پھوپھی شاداں کو ملنے آ گئے جن میں پھوپھی شاداں کی ایک بہن بھی شامل تھی جو ایک دوسرے دوسرے گاؤں کوہلووال سے آئی تھی۔ بہت ساری عورتوں نے پھوپھی شاداں کو گلے مل کر رو رو کر وداع کیا جس میں رونے کا سب سے لمبا پریڈ پھوپھی شاداں کی بہن کا تھا، اب قافلے کی شکل میں بس میں بیٹھ کر گوجرانوالہ اسٹیشن پہنچے وہاں میرے لئے بہت نئی چیزیں تھی بہت ساری دکانیں، اسٹیشن پر پتھر کا وسیع فرش جس پر ہم بچے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہے تھے،پھر ایک کسی چاچے نے ہم بچوں کو پکڑ کر ایک جگہ بٹھایا کہ یہاں بیٹھ جاؤ ٹرین آنے والی ہے اور بڑا رش ہو گا، بڑے آپس میں باتیں کرنے لگے کہ یہ گاڑی پنڈی پشور (پشاور) سے تیار ہو کر آتی ہے، ان میں بڑا رش ہوتا ہے، بس جہاں جگہ ملے بیٹھ جانا اب ایک دم سے پلیٹ فارم کی پرسکون زندگی میں جیسے بونچال آ گیا بہت سارے لال وردیوں والے قلی ادھر ادھر بھاگنے لگے وہ اور بہت سارے مسافر ا پنا سامان کھینچ کھانچ کر پلیٹ فارم کے کونے پر لا رہے تھے کچھ لوگ سامان اٹھائے ادھر ادھر بھاگ رہے تھے کچھ نے اپنے بچہ لوگوں کو حصار میں لیا ہوا تھا اور ٹولیوں کی شکل میں بالکل تنے بیٹھے تھے ہمارے ساتھ آئے ہوئے چاچے مامے بھی سامان اٹھائے دو، دو بچوں کے بازوؤں کو پکڑے ہوئے تنے ہوئے کھڑے ایک بھاگم دوڑھم کا سماں تھا۔ چائے گرم چائے کھانے۔۔۔ کھانے کی آوازیں بے اختیار شور شرابے میں گم ہو چکی تھی۔

ہمارے چاروں طرف لوگوں کا ہجوم چھا گیا تھا، یہ سب لوگ اتنی سی جگہ پر بھاگ رہے تھے میں گھبرا گیا کیونکہ میں نے چاچے نکے ’’ دادا کے چھوٹے بھائی تھے، خاندان کے سب لوگ انہیں چاچا نکا کہتے تھے،، سے جو تقسیم ہند کے واقعات سن رکھے تھے میرے ذہن میں ایسا کچھ نقشہ ابھر رہا تھا بس قتل و غارت کی کمی تھی جو میرے خیال میں کبھی بھی شروع ہو سکتی تھی شور میں اور اضافہ ہو گیا کیونکہ ٹرین پلیٹ فارم پر داخل ہو گئی اور پھر ہمارے پاس آ کر رک گئی کچھ لوگوں نے سامان اور بچوں کو کھڑکیوں سے اندر پھینکنا شروع کر دیا، اب اس شور شرابے میں بچوں کے رونے کی آوازیں بھی شامل ہو گئی اور میرا دل بھی رونے کو چاہ رہا تھا، اللہ کرے کہ یہ سفر کینسل ہوجائے اتنی دیر میں ہمارا سامان اور بچے بھی اندر پہنچنے شروع ہو گئے، کسی نے مجھے بھی اندر پہنچا کر ایک ٹرنک پر بیٹھا دیا اندر کچھ اندھیرا تھا چاروں طرف لوگ ہی لوگ تھے، بچے رو رہے تھے سیٹوں پر بیٹھے ہوئے مرد اور عورتیں ہاتھ والے پنکھے ہلا رہے تھے چہروں پر بیزاری تھی کچھ لوگ اپنے سامان کو کونے کھدروں میں سیٹوں کے اوپر اور نیچے ٹھونس ٹھانس رہے تھے، فرش پر بھی سامان اور لوگ پڑے تھے، میرے لئے حیران کن بات یہ تھی کہ یہ جو لوگ چل پھر رہے ہیں یہ کتنے بڑے پہلوان ہیں پھر اچانک افراتفری میں اضافہ ہوا اور گاڑی نے رینگنا شروع کر دیا لوگ دھکم پیلم کرتے ہوئے باہر نکلنے کی کوشش کر رہے تھے میں حیران سوچ رہا تھا یہ شاید کوئی کھیل ہے کہ پہلے لوگوں نے شرط لگائی تھی کہ کون پہلے اندر جاتا اور اب یہ کھیل کا دوسرا حصہ ہے کہ پہلے کون گاڑی سے باہر نکلتا، افراتفری میں لوگوں نے باہر چھلانگیں لگانا شروع کر دی، آہستہ آہستہ ڈبے میں کچھ سکون ہو گیا، گاڑی نے اسپیڈ پکڑنی شروع کر دی، آہستہ آہستہ گاڑی گوجرانوالہ اسٹیشن سے باہر آ گئی اور شہر کے گھروں نے پیچھے بھاگنا شروع کر دیا، میں اور میرے ساتھی بچے گاڑی کے فرش پر اور سامان پر بیٹھے ہوئے تھے اور بھی بہت سارے لوگ فرش پر بیٹھے تھے، سیٹوں پر بیٹھے ہوئے لوگ ہمیں عجیب حقارت سے دیکھتے تھے، آپس میں عجیب سی بولی میں گفتگو کر رہے تھے، مرد کبھی کبھار منہ میں ہاتھ ڈال کر کچھ نکالتے اور ٹرین کی کھڑکیوں سے باہر پھینک دیتے، جن کی پہنچ کھڑکی تک نہیں تھی وہ سیٹوں کے نیچے تھوکتے تھے، میرے چچا زاد آصف نے جو کہ کراچی سے آیا ہوا تھا بتایا کہ پٹھان ہیں پشاور سے آ رہے ہیں پشتو ان کی بولی ہے۔ اور یہ نسوار کھا رہے ہیں جو کہ ایک طرح کا نشہ ہے جس طرح ہمارے مامے چاچے حقہ پیتے ہیں یہ نسوار کھاتے ہیں، میں تمہیں کراچی جا کے ایک چیز اور دکھاؤں گا جس کے کھانے سے منہ لال ہو جاتا ہے اور اسے پان کہتے ہیں، اتنی دیر میں ایک صاحب جنہوں نے کالی وردی پہنی ہوئی تھی لوگوں کو پھلانگتے پھلونگتے ہوئے آئے ہر مسافر کے پاس کھڑے ہوتے اس سے ٹکٹ مانگتے اور ایک چھوٹا سا موچنانما اوزار انہوں نے ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا اس سے ٹکٹ میں سوراخ کرتے اور مسافروں کو واپس کر دیتے، میرے ساتھی بچے جو کہ فرش پر لیٹے اور بیٹھے ہوئے تھے ان کو اپنے پاؤں سے بچاتے ہوئے انہوں نے پھوپھی شاداں سے پوچھا (مائی اے سارے تیرے بچے نے) اماں یہ سارے تیرے بچے ہیں اماں نے کہا ہاں اور ساتھ ہی ایک پرچا نکال کر اس وردی والے کے ہاتھ پر رکھ دیا، وردی والے نے بیزاری سے ایک نظر ہم سب پر ڈالی اور پرچے کو بغور دیکھ داکھ کر واپس پھوپھی شاداں کو دے دیا اتنی دیر میں شور مچا لاہور آ گیا لاہور آ گیا ہمارے ڈبے والوں نے کھڑکیاں اور دروازے بند کرنے شروع کر دیئے کیونکہ پہلے ہی بہت رش تھا پھر گاڑی کی چھک چھک آہستہ ہونی شروع ہو گئی اور پھرگاڑی ایک جھٹکے کے ساتھ رک گئی گاڑی کے اندر اندھیرا اور گرمی تھی باہر ایک شور شرابہ تھا اور میری تایا زاد بہن پروین نے بتایا کہ باہر لاہور اسٹیشن ہے ، میں نے ان سے ڈرتے ہوئے پوچھا کیا ہم خاص کر میں واپس نہیں جا سکتا کیونکہ گرمی اندھیرے اور باہر کے شور سے میں گھبرا گیا تھا باہر سے لوگ دروازے اور کھڑیاں پیٹ رہے تھے اور میں ڈر رہا تھا کہ یہ لوگ اندر آ گئے تو ضرور اندر والوں کو ماریں گے کہ تم نے کھڑیاں اور دروازے کیوں بند کئے تھے گرمی اندھیرا اور خوف کچھ عجیب سی گھبراہٹ تھی اور میں دعائیں مانگ رہا تھا کہ اللہ میاں مجھے ایک دفعہ اپنے گاؤں پہنچا دے میں اپنی امی کی ہر بات مانوں گا جب وہ کہیں گی نہاؤں گا اور راتوں کو پاؤں ہاتھ سے صاف کرنے کی بجائے دھو لیا کروں گا دوپہر کے وقت امی کے کہنے پر سو جایا کروں گا۔ کیونکہ اس وقت تک تو میری نظر میں ان گناہوں سے بڑھ کر کوئی گناہ نہیں تھا بس ایک دفعہ میری یہاں سے جان چھڑا دیں اور مجھے میرے گاؤں پہنچا دیں، اللہ نے شاید میری دعا سن لی ٹرین چل پڑی اور لوگوں نے کھڑکیاں کھولنی شروع کر دی، باہر سے تازہ ہوا اندر آنی شروع ہو گئی، کچھ سکون بھی ہو گیا، تھوڑی دیر بعد ایک نیا سلسلہ شروع ہوا، ایک صاحب نے لوٹا ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا اور وہ نیچے لیٹے ہوئے لوگوں کے اوپر سے ہوتے ہوئے ہماری طرف چلے آ رہے تھے، پھوپھی شاداں نے ہمیں ادھر ادھر کیا ان صاحب نے ایک دیوار کو دبایا اور اندر ایک دروازہ کھل گیا یہ اندر چلے گئے، مجھے بہن نے بتایا کہ یہ غسل خانہ ہے اور ہمارا پڑاؤ جس راہداری میں ہے یہ غسل خانے کے سامنے ہے اس کے بعد کئی لوگ شاید غسل خانہ دریافت کرنے کے ہی منتظر تھے، آنا جانا شروع ہو گیا، بہت ساری خواتین چھوٹے بچوں کو ساتھ لے کر آ رہی تھی، درمیان میں کبھی کبھار کوئی وردی والا بھی آ جاتا اور وہ پھوپھی شاداں سے یہ ضرور پوچھتا کہ مائی اے سارے تیرے بچے نے( اماں یہ سارے تیرے بچے ہیں؟) اور پھوپھی جو بڑی صبر والی تھی کہتی ہاں پھر پتہ نہیں کب مجھے نیند آ گئی خواب میں بھی ٹرین کی کھڑکیاں دروازے توڑنے کی آوازیں اور بھاگتے ہوئے قلی نظر آتے رہے، اچانک آنکھ کھلی ٹرین رکی ہوئی تھی اور ایک وردی والے صاحب پھوپھی شاداں کا مکالمہ اماں یہ سارے تیرے بچے ہیں سے بڑھ چکا تھا اور پتہ نہیں کون سی تکنیکی وجوہات کی بنا پر وردی والا ہمیں نیچے اتارنا چاہ رہا تھا اور پھوپھی شاداں احتجاج کر رہی تھی، آخر وردی والا جیت گیا اور ہم سارے ٹرین سے باہر آ گئے ، ٹرین سے باہر آتے ہی مجھے ایسا لگا جیسے میں جہنم سے جنت میں داخل ہو گیا ہوں کہاں وہ اندھیرا بدبودار اور گھٹن زدہ سرکتا ہؤا دوزخ ٹرین کے اندر گھپ اندھیرا تھا اور باہر ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے بہت سارے چاند اکٹھے نکل آئے ہوں یہ چاند یا تو اسٹیشن کی چھت سے لٹک رہے تھے اور کچھ ڈنڈوں کی شکل میں لوگوں نے اپنی ریڑھیوں اور دکانوں پر باندھ رکھے تھے، پلیٹ فارم کشادہ روشن دور تک نظر آ رہا تھا اور خلاف توقع رش بھی نہیں تھا، کہیں کہیں کوئی مسافر یا لال وردی والا قلی نظر آ رہا تھا، فضا میں زندگی تھی اور ایک لذت بھری ٹھنڈک تھی، جب پھوپھی شاداں نے سارا سامان اور بچے باہر نکال لئے اور ہمیں سامان کے اوپر بٹھا دیا تو خود میرے چچا ذاد بھائی آصف کو ساتھ لے کر دفتر کی طرف چلی گئی کیونکہ وہ تمام لڑکوں میں سب سے بڑا تھا اور ساتھ ہی میری تایا زاد بہن پروین کو نصیحت کر گئی کہ کسی بچے کو ادھر ادھر نہیں ہونے دینا مجھے فضاء کی تازگی اور روشنی اور پلیٹ فارم کی کشادگی دیکھ کر قلعہ دیدار سنگھ کے پڑ یاد آ رہے تھے یہ میدان تھے جو چاول چھڑنے والی فیکٹریوں کے مالکان نے بنوا رکھے تھے، جب چاول چھڑنے کا سیزن نہیں ہوتا تھا تو ان میدانوں کو وہ مزدوروں سے لپائی کرواتے ، چاول کی فصل کے موسم میں وہ ان پر مونجی (دھان) سوکھنے کے لئے پھیلا دیتے تاکہ اچھی طرح سوکھ جائے اس پھلیی ھوئی مونجی پر پرندے منڈلاتے رہتے اور کارخانوں کے ملازمین انھیں اڑاتے رھتے ان پرندوں میں طوطوں کی بڑی بڑی ڈھاریں بھی ھوتی۔ یہ ایک دو مہینے کا کام ہوتا باقی سارہ سال یہ پڑ (میدان) قلعہ دیدار سنگھ کے بچوں کے لئے گلی ڈنڈا کھیلنے کے کام آتا ہاں چاندنی راتوں میں نوجوان لڑکے اور مرد بھی رات کوباڈی نام کا ایک کھیل کھیلتے یہ کبڈی سے ملتا جلتا کھیل تھا مجھے چاندنی رات کا سمے لگ رہا تھا میری تایا زاد بہن نے بتایا کہ یہ جو روشنی کے ڈنڈے ہیں ان کو ٹیوب لائٹ کہتے ہیں اور یہ جو چھت میں لٹکے ہوئے ہیں یعنی چاند ہیں ان کو بلب کہتے کیونکہ اس سے پہلے میں نے بجلی سے جلنے والیاں بتیاں اتنی وافر نہیں دیکھی تھی بس ایک دففہ ایک پیلی سی روشنی والا بلب دیکھنے کا اتفاق ھوا تھا وہ بھی گوجرانولہ میں جب میں امی کے ساتھ چرچ کے کسی مذہبی پروگرام میں شمولیت کے لئے گوجرانولہ گیا تھا اور ہم وہاں چند دن رھے تھے لہٰذا میں نے اپنی زندگی کی پہلی بتی وھاں اور باقاعدہ بتیاں خانیوال اسٹیشن پر دیکھی تھی اسٹیشن کا نام بھی مجھے بہن نے ہی بتایا کیونکہ وہ ہم سب میں سے بڑی تھی اور کراچی میں رہتی تھی اور اس کا آنا جانا رہتا تھا، اسی نے مجھے بتایا کہ پھوپھی شاداں ریلوے کی ملازمہ ہیں ان کو آنا جانا فری ہے ریلوے کے ریکارڈ میں جتنے بچے درج ہیں تعداد ان سے کہیں زیادہ ہے لہٰذا اسی لئے ہمیں راستے میں اتار دیا گیا ہے اور وہ پریشان بھی تھی کہ اب کیا ہو گا لیکن مجھے کوئی پریشانی نہ تھی بلکہ خوشی تھی اور وہ ایسی کہ بیان سے باہر کے چلو جو بھی ہے میری اس سرکتے دوزخ سے تو جان چھوٹی تھوڑی دیر بعد ہی مسئلہ حل ہو گیا شاید پھوپھی شاداں نے ایک دو بچوں کی اضافی ٹکٹ لے لی تھی اور اب ہم کسی اور گاڑی کا انتظار کر رہے تھے، ہم بچہ لوگ تھوڑی دیر آرام سے بیٹھے رہے لیکن جب ہمیں اندازہ ہو گیا کہ پھوپھی شاداں نے مسئلہ حل کر لیا ہے اور اب ان کے چہرے پر پریشانی نہیں ہم نے پلیٹ فارم کو میدان سمجھ لیا جو کہ رات تین بجے ہونے کی وجہ سے خالی تھا اور کھیلتے کودتے رہے کافی دیر بعد گاڑی آئی اور ہم اس میں سوار ہو کر کراچی پہنچے۔ ادھورے سفر نامے ’’ملایشیا براہ راست تھائی لینڈ‘‘ سے اقتباس۔

تو قارئین یہ تھی میرے کراچی آنے کی مختصر روداد اس طرح کراچی پہنچ کر میں پانچ دس دن کی بجائے شائد دو مہینے بعد واپس گیا اسکول والوں نے میرا نام کاٹ دیا کراچی پھر میرے تایا اللہ دتہ جوزف جو ان دنوں کراچی سے گاؤں آئے ہوئے تھے مجھے ہمارے گھر کے بالکل قریب گورنمنٹ اسکول قلعہ دیدار سنگھ نمبر2میں داخل کروا آئے یہ ایک بڑا اور خوبصورت اسکول تھا۔ بڑا میدان درخت راہدایاں خوبصورت اسکول لیکن میرا وہاں دل نہ لگتا اچھا ہوا کچھ دنوں بعد ہی میرا خاندان کراچی آ گیا۔ میری چوتھی درس گاہ اے آر پی کے زیر انتظام چلنے والا اے آر پی پرائمری اسکول اختر کالونی ٹھہری۔یہ اسکول اے آر پی چرچ نے مقامی کلیساء کی مدد سے بنایا تھا بڑے احاطے میں چھوٹا سا خوبصورت گرجا احاطے میں ہی تین چار بھدے سےکمروں پر مشتمل اسکول اسی احاطے میں ہم کنچے اور دیگر کھیل کھیلتے۔اور چاچے بوٹے و دیگر گرجے کے ایلڈر صاحبان کے آنے پر احاطے کی چھوٹی چھوٹی دیواریں پھلانگ کر بھاگ جاتے۔ پتہ نہیں اس گرجے اور اسکول کے بنانے کا سوچنے والے کون تھے لکین اپنے روزگار اور خاندانی ذمداریوں کے ساتھ اس گرجے کی دیکھ بھال کرنے والے تین چار کردار مجھے آج بھی یاد ہیں ۔ پہلے نمبر پر بابا بوٹا اگر اردو گلابی نہ بولیں تو کوئی یورپین لگتے۔ محلے کے سب سے بارعب اور قابل احترام شخص تھے کنچے کھیلنے میں باقی سب بچے اور نوجوان ھوتے۔بس پہا کوبہ صرف بال بچوں والے تھے یہ محلے کے واحد گیلا کام (یہ پاکستانی مسیحوں کی ایک انتہائی اجتماعی نجی سی اصطلاح ہے جسے میں نے اپنی کتاب دھرتی جائے کیوں پرائے میں تفصیل سے بیان کیا ہے)کرنے والے کردار تھے لیکن ہر دل عزیز تھے۔ جب چرچ میں کھیلتے بچوں پر چھاپہ پڑتا تو۔چاچے بوٹے کا ایک جملہ انھیں پانی پانی کرتا اوئے کوبے تو تے کچھ شرم کتیاں کر۔(اوئے یقیوب تم تو کچھ شرم کیا کر) یہ علحیدہ بات ھے پہا یقیوب بس وقتی پانی پانی ھوتا اور دوسرے دن سپہر پھر ہمارے ساتھ وہی  ہوتا۔ دوسرے تھےمحلے میں کسی کے پہا کسی کے چاچا۔کسی کے ماما لیشا یہ بوٹے سے قد کے پڑھے لکھے سنجیدہ اور وضع دار سے کسی عزت دار ،سنجیدہ سے روزگار سے وابستہ تھے۔اپنی پیشہ وارانہ اور خاندانی ذمداریوں کے بعد چرچ کے کاموں سے وابستہ تیسرے ایلڈر سمیویل تھے کم گو اپنے کام سے کام اور انکا گھر اسکول اور خرچ کے سامنے تھا۔ اس لئے ھمارے کنچوں وا دیگر کھیلوں میں سب بڑی رکاوٹ سمجھے جاتے تھے۔اور پیشے کے اعتبار سے مالی تھے اس لئے چرچ اور اسکول میں پھول بوٹے انھی کی مرہون منت تھے۔ چوتھے ایلڈر قادر تھے یہ موٹے سے بھولے بھالے ایلڈر تھے شیطان بچوں نے انکے بارے میں مشہور کر رکھا تھا کہ وہ چرچ میں طلبہ بجاتے اکثر سوجاتے ہیں۔اور وجد میں اتنا ھوتے ہیں کہ طبلہ سوئے ھوئے بھی بجاتے رہتے ہیںِ۔ ایسے ہی چند کردار اور تھے جن کی دن رات محنت سے ہمارا اسکول اور چرچ چلتے تھے لیکن شرم کی بات یہ ھے کہ جب نوے کی دہائی میں پاکستانی میسیحوں پر روحانی جنگجووں نے یلغار کی اور گرجوں میں نفاق کے بیج بوئے تو اختلافات کی بنیاد پر ان میں سے زیادہ تر بزرگوں کو چرچ سے علحیدہ ھونا پڑا اور وہ گرجا تو قائم ہے لیکن موجود انتظامیہ میں سے شاید ہی کسی کو پتہ ہو یہ گرجا کن لوگوں نے دن رات محنت کرکے بنایا اور سنوارا تھا۔

یہاں سے میں نے تیسری اور چوتھی پاس کی میرے دوست رفیق اور امین مجھ سے ایک سال آگے تھے۔ انہوں نے پانچویں پاس کی اور دونوں کا ارادہ نارویجن ہائی اسکول میں داخلہ لینے کا تھا میں نے بھی ضد کرکے نارویجن میں داخلہ لے لیا اے آر پی میں جب میں گاؤں سے آ کر داخل ہوا تو یہاں ایک بہت ہی شفیق اور قابل ٹیچر مس سلینہ سے واسطہ پڑا اسی نے مجھے اے بی سی سے متعارف کروایا اور اپنے گھر ٹیوشن میں دو چھوٹی کتابیں بلکہ قاعدے ریڈنیٹ ریڈنگ(Radiant reading)بک ون اور بک ٹوپڑھائی۔
ان کی ساری قابلیت اور شفقت اپنی جگہ لیکن ان کا ایک ظلم میں آج تک نہیں بھول سکا جو انہوں نے ہماری پوری کلاس پر کیا ہوا یوں کہ ایک دن انہوں نے ساری کلاس بشمول بچیوں کو مرغا بنا دیا ہمارے لئے مرغا بننا معمول تھا لیکن میں نے زندگی میں نے اس سے پہلے کبھی لڑکیوں کو مرغا بلکہ مرغیاں بنانے کا عملی مظاہرہ نہ دیکھا تھااور نہ اس کے بعد کبھی یہ منظر دیکھنے کا شرف حاصل ہوا میرے دماغ سے آج45سال بعد بھی یہ سین نہیں نکلتا شدید گرمی تھی اور ان بچیوں کی حالت بس تو بہ ۔۔۔مس سلینہ کی ساری قابلیت اور شفقت کو یہ ایک واقعہ کھا گیا اور میں کبھی اپنے دل سے ان کے اس زیادتی کو معاف نہیں کر سکا۔ حالانکہ میں اُ نکا اس طرح احسان مند ہوں کہ جو واجبی سی انگریزی سے میری شدبد ہے انہی کی بدولت ہے۔اس کے بعد میں نے زندگی میں کئی جتن کئے مثلاً ایک جعلی ایم بی اے کیا ایک ایم بی اے ڈیزائن کیا مقابلے کے امتحان میں شرکت کی انگریزی کی دو کتابوں Neglected Christian Children of Indus کرسچئن چلڈرن آف انڈس کا شریک مترجم ایک اور انگریزی کتاب اسٹوری آف ٹو لیٹر story of two letters کا شریک مصنف بھی ہوں۔

لیکن مجھے آج بھی اپنی اس نالائقی کا اعتراف کرتے ہوئے شرمندگی محسوس ہوتی ہے کہ میری انگریزی ان دو چھوٹی کتابوں بلکہ قاعدوں سے آگے نہ بڑھ سکی۔ پھر میں اپنی نالائقی اس احساس میں چھپاتا ہوں ۔ظاہر ہے انگریزی میرے لئے غیر زبان جو ٹھہری ۔ اور غیر زبان آناایک نعمت ہے جو رب ہر کسی کو نہیں دیتا اور خاص کر میرے جیسے گناہگاروں کوتو یہ نعمت قطعی نہیں دیتا۔پنجاب کے تین اسکولوں کے بعد میرا چوتھا اسکول اے آر پی بھی ایک چرچ کے ساتھ تھا جس طرح میرا پہلا اسکول المدینہ سروس اسٹیشن زینب میرج ہال دوسرا اسکول گرجا گھر، تیسرا اسکول گورنمنٹ مڈل اسکول قلعہ دیدار سنگھ نمبر2 ابھی بھی اسکول ہے(شائد اس لیےکے وہ ایک سرکاری اسکول ھے) اس طرح میرا چوتھا اسکول اے آر پی پرائمری اسکول اختر کالونی بھی گرجا کا حصہ تھا ستر کی دہائی میں جب ایک اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لبرل کسی حد تک سیکولر حکمران نے ایک ریاست کو ایک اسلامی آئین دینے کے بعد سوشلزم سے متاثر ہو کر ملک میں نیشنلائزیشن کی تو مسیحیوں نے گرجا بچا لیا اور اے آر پی اسکول حکومت کی ملکیت میں چلا گیا اور پورے ملک میں یہ ہوا ہر بڑے شہر میں مسیحیوں نے گرجے بچا لیے اور اسکول حکومت کے حوالے کر دیئے۔تب سے اب تک گرجے تو بے تحاشا نئے بن بھی گئے ہیں۔ لیکن مسیحی تعلیمی اداروں میں سے صرف چند ہی واپس ہو سکے ہیں۔ اس کے بعد میرا پانچواں اسکول نارویجن ہائی اسکول اعظم بستی بھی اب گورنمنٹ کی ملکیت ہے اور شدید ہی خستہ حال ہے۔ نارویجن اسکول میں گزارے ہوئے 7سال بھی دلچسپ تھے۔ یہ اسکول ناروے کے نوجوانوں کی کسی تنظیم نے چندہ کر کے اپنے غریب مسیحی ہم عقیدہ لوگوں کے بچوں کے لئے مقامی پادریوں کی مدد سے بنوایا تھا۔ عمارت قطی اسکول کی طرز پر ڈیزائن نہیں کی گئی تھی۔ پتہ نہیں فنڈز کی کمی یا مقامی پادریوں کی کم علمی کے بجائے زمین بڑی خریدنے کے تھوڑی زمین پر تین منزلہ عمارت جسکی چھت پر باسکٹ بال گراؤنڈ باتھ روم صرف ایک یاد رھے جب یہ اسکول بنا ھوگا۔ان دنوں اس علاقے میں زمین کوڑیوں کے بھاؤ تھی ۔

پہلے دن ہی ہمیں جس روڈ لیول سے نیچے اندھیرے کمرے میں بٹھا دیا گیا۔وہاں چوتھی کلاس میں ہماری ایک کلاس فیلو اتنی بڑی تھی شائد اگلے ہی سال اس کی شادی ہو گئی ۔۔۔۔۔۔وہ ہماری مانیٹر بھی تھی اور ہم چھوٹے بچوں پر استانیوں سے زیادہ تشدد کرتی تھی وہ ہی اندھیرا ماحول جو میرے گاؤں کے اسکول کے پڑوس کے اسکول میں تھا اپنے سے دوگنی عمر کی ہم جماعت کا تشدد اسکول میں کوئی غسل خانہ بھی نہیں تھا گھر ڈھائی تین کلو میٹر دور اس زمانے میں یہ ایک شہری اسکول تھا پرائمری کے ڈیڑھ دو سال ایسے ہی گذرے۔ میں مسلسل اپنے آپ کو کوستا رہتا کہ میرے دوستو کی تو مجبوری تھی میں نے بلاوجہ ہمایاراں دوزخ ہمایاراں جنت کے مترادف اس دوزخ کا انتخاب کیا اے آر پی اختر کالونی اسکول گھر سے نزدیک اور بہ نسبت اس اسکول کے کشادہ ماحول والا تھا اور مرغا بن کر مرغیوں کے عبرت ناک نظارے اضافی ۔۔۔ تقریباً دو سال اسی طرح کڑتے گزرے۔ پھر چھٹی میں کلاس پہلی منزل میں ملی جس کے سامنے راہداریاں تھی کھلی ہوا اور دھوپ والے کشادہ کمرے کھیل کود کے لئے چھت پر بنے باسکٹ بال گراؤنڈ میں جانے کی اجازت مل گئی یہ گراؤنڈ چوتھی منزل پر تھا شائد اس لیے پرائمری کے بچوں کو چھت پر جانے کی اجازت نہیں تھی ، باتھ روم کے عذاب کا بھی حل نکل آیا تھا۔ یہ حل ہمارے دوست رفیق خان کے اسکول کے قریب رہنے والے انتہائی ملنسار رشتے داروں کی بدولت نکل آیا آدھی چھٹی یعنی بریک میں ہم تین یا چار دوست ان کے گھر جاتے غسل خانہ استعمال کرتے پانی پیتے وا پس آ کر اسکول کے سامنے لگی ہوئی ریڑھیوں سے انتہائی گندی اور بدمزہ کلیجیاں کھاتے اور بڑی رغبت سے کھاتے چھٹی میں پہنچنے ہی ایک تو ماحول ہوا دار دھوپ دار ہو گیا دوسرا ہمارے اسکول میں مسلمان طالب علموں اور طالبات کا اضافہ ہو گیا۔ مختلف لسانی، مذہبی، مسلکی تہذیبوں اور رنگ نسل کے بچے بچیوں سے سلام دعا ہوئی۔
پاکستان میں بسنے والے مختلف بچوں کے آبائی علاقوں کے بارے میں معلومات ملی کیونکہ ہمارے جیسے معاشی پس منظر والے لوگوں کے ہاں ابھی ٹیلی ویژن تک رسائی بڑی آسانی سے نہیں تھی اور اخبار اورکتابوں سے ہمارا دور دور کا واسطہ نہیں تھا میرے اس اسکول میں کراچی کے ایسے آٹھ دس ایسے محلوں سے بچے آتے تھے کہ ہماری تقریباً ہر کلاس میں ایک منی پاکستان تھا۔ پچاس فیصد مسیحی بچے جو وسطی پنجاب سے تھے، باقی50 فیصد بچے پاکستان کے ہر خطے سے تھا مشلاً گلگت بلتستان، خیبر ایجنسی، کوئٹہ، چکوال، راولپنڈی، ہزارہ، سندھی، بلوچ ، سرائیکی، کشمیری، یو پی سی اورکچھ ایسے طالب علم بھی تھے جن کا بنگالی پس منظر تھا ۔ ایک تو کھلی ہوادار اور روشن کلاسیں رنگ برنگے خوبصورت رنگ و نسل کے لڑکے لڑکیاں اور خاص کر لڑکیاں اور سب سے بڑھ کر بریک میں مقامی طالب علموں سے دوستی کی بدولت غسل خانے کا بھی مسئلہ حل یاد رہے اساتذہ اورلڑکیوں کے لئے صرف ایک غسل خانہ اسکول میں تھا ان سب سہولتوں کے ساتھ مجھے تو اپنا یہ پانچواں اسکول بہت پسند تھا۔ اس اسکول میں تقریباً سندھ اسمبلی کے صوبائی حلقہ114 کے تمام محلوں سے بچے آتے تھے اور جس طرح یہ حلقہ ایک منی پاکستان ہے اسی طرح ہمارے اسکول میں بھی ایک ایک منی پاکستان تھا۔ بلکہ یہ سطریں لکھتے ہوئے میرے ذہن میں یہ خیال آ رہا ہے کہ اگر سندھ حکومت کے موجودہ حکمران اس علاقے میں اور اگر ہو سکے تو ایسے ہی محل وقوع پر ایک ماڈل اسکول بنائے جس میں اس سارے علاقے کے مختلف مذاہب ، رنگ و نسل اور زبان بولنے والے بچوں کوایک خاص نسبت تناسب سے داخلے دے کر ایک بہت اچھی مثال قائم کر سکتی ہے۔ گوکہ نارویجن اسکول بھی اب حکومت کے پاس ھے لیکن کسی ماڈل اسکول کے لئے اسکی بلڈنگ نا کافی ھے لیکن اسے پرائمری سکول کے طور پر بہت اچھا اسکول بنایا جاسکتا ھے اور مسیحی آبادی کے بیچوں بیچ ھونے کے باوجود وھاں مسیحی بچے کیوں نہیں آتے اس مسلئے کو بھی کھوجنا چاھیئے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کے جن کے لئے یہ سکول بنا تھا وہ ھی کیوں یہاں نہیں آتے؟

اساتذہ زیادہ تر مسیحی تھے اور خوب تھے ایک خاتون ٹیچر کی وجہ شہریت ٹھڈے مارنے کی تھی ۔ یہ محترمہ ایف ایس سی فیل تھی اور ہمارا پہلا بیج تھا جب ہمارے اسکول میں سائنس شروع ہوئی تو یہ ایف ایس سی فیل قابلیت کی بنا پر ہماری بیالوجی کی استاد ٹھہری ایک محترمہ معاشرتی علوم پڑھاتی تھی اور خاصی پڑھی لکھی مشہور تھی وجہ شہریت ان کی ان جعلی پولیس مقابلوں والے پولیس افسران کی تھی بچوں اور خاص کر مسیحی بچوں کو سرعام بے عزت کرنے میں ید طولیٰ رکھتی تھی جو قصے کہانیوں والے استادوں کا ذکر لوگوں سے سنتے ہیں ان میں ایسی کوئی بات نہیں تھی انگریزی کے ایک استاد انتہائی غیر سنجیدہ انداز میں اچھی انگریزی پڑھاتے تھے یہ انگریزی پڑھاتے ہوئے چہکتے رہتے اور طالب علموں خاص کر لڑکیوں کو خوش کرنے کے چکر میں رہتے اور ترجمے کے لئے جملے بھی رومانوی داستانوں کے کرداروں والے استعمال کرتے مثلاً ہیر نے رانجھے سے کہا
(چھڈ میری وینی نہ مروڑ) چھوڑ میری کالائی نہ مروڑ
کا ترجمہ کریں لیکن سردیوں میں لڑکوں کے لئے جلاد بن جاتے اور دیر سے آنے والوں کا استعمال یہ اسکول کے دروازے پر کرتے جو کہ مین روڈ پر تھا وہاں یہ سردی کے موسم میں ہمارے ہاتھوں کو کبھی باقاعدہ چھڑی سے اور کبھی سامنے کے ڈی اے کے ویران احاطے میں اگے ہوئے جنگلی کیکر کے درختوں کی گیلی شاخوں سے گرم کرتے اور زیادہ جلال میں آنے پر ہماری تشریفوں پر بھی وہ ہی ڈنڈے برساتے یہ نظارہ سڑکوں سے گزرنے والے پیدل اور ویگنوں میں بیٹھے ہوئے راہگیر بھی کرتے۔ سوکس کے ایک انتہائی سنجیدہ استاد تھے بالکل استادوں والا رویہ لیکن مسیحی طالب علموں کی کارکردگی کی وجہ سے انتہائی تلخ ہو چکے تھے۔ اس لئے نادان محسن کی طرح ہم مسیحی ہم طالب علموں کی بھلائی کے چکر میں ہماری روحوں کو اپنی تلخ باتوں سے چھیدتے تھے۔ ایک ہندو ٹیچر تھے جو بڑی محنت سے حساب پڑھاتے اور ہیرو ٹائپ تھے ۔ کچھ عرصے بعد ہی جب ہم ساتویں میں تھے تو سینئر مسیحی طالب علموں نے ایک دن بیچ سڑک ان کی پیٹائی کی پتہ چلا ہماری اسکول کی ایک بڑی عمر کی مسیحی طالبہ ان کے سحر میں گرفتار ہو گئی تھی اس کے بعد انہوں نے اسکول چھوڑ دیاہم آٹھویں میں تھے جب اسکول قومیائے گئے پاکستانی مسیحیوں کی اجتماعی زندگیوں پر اس کے بہت بُرے اثرات ہوئے لیکن ہمارے اسکول میں اس وقت ہمیں فوری اس کے اچھے اثرات سے واسطہ پڑا مسلمان اساتذہ کی تعداد بڑھنے لگی اور ان میں سے کئی ہمارے راویتی سرکاری اسکولوں والے اور خاص کر ہمارے مسیحی ٹیچروں کے مقابلے میں خاصے پڑھے لکھے تھے ان میں ایک سر رئیس رضا تھے جو استاد توفزکس اور حساب اور الجبرے کے تھے اور ہیڈ ماسٹر بھی تھے لیکن ان کا ادب سے بھی لگاؤ تھا اور وہ ایسے استاد تھے جو اپنے طالب علموں کی زندگیوں پر اثرات چھوڑتے ہیں۔ انہی کی کوششوں سے ہمارے اسکول میں سائنس شروع ہوئی۔1980ء میں اس اسکول سے میں نے میٹرک کیا1999ء میں مجھے اپنے اسکول میں اساتذہ اور طالب علموں سے مکالمے کا موقع ملا تو اسکول انتہائی خستہ حال اور مخلوط ماحول تعلیم بند ہو چکی تھی اس لئے بہت پھیکا لگ رہا تھا مسیحی بچے اور بچیوں کی تعداد50فیصد ہوتی تھی جب کہ 1999میں پوری نویں اور دسویں میں صرف ایک مسیحی بچہ تھا عمارت بالکل کھنڈر ہو چکی تھی میرے پانچوں اسکولوں میں سے مشنری اسکولوں کی موجودہ حالت پاکستانی مسیحیوں کی ترجیحات کی ترجمانی بھی کرتی ہیں پہلے جی ٹی روڈ والی مشن اسکول کی زمین بک چکی ھے۔دوسرے اسکول کی عمارت اب چرچ اور اس سے ملحقہ اسکول جنج گھر بن چکا ھے۔ میرا تیسرا اسکول ایک سرکاری اسکول تھا وہ ویسے ہی بطورِ اسکول قائم ہے ۔چوتھا مشنری اسکول سرکار نے قومیا لیا۔پانچویں نارویجن اسکول میں سے صرف ایک کمرے کا چرچ مسیحیوں کے پاس اور اسکول سرکار کے پاس ہے۔ یہ تھیں اپنی درسگاہیں بے شک شکریہ ان محسنوں کا جنھوں نے یہ ادارے قائم کیئے۔اور آفرین انکے مودجوہ پیشروں پر جو انکی حفاظت نہ کرسکے۔ میری اگلی منزل اسلامیہ سائنس کالج تھا جس طرح میں نے پانچ اسکولوں سے میٹرک کیا اسی طرح تین کالجوں اسلامیہ سائنس کالج پھر عائشہ باوانی اور خدا خدا کرکے آخری کالج سینٹ پیٹرک سے انٹر کیا۔ یہ تھے میرے ابتدائی اسکول یہ تصویریں جہاں مجھے ماضی میں لے گئی۔

وہی پاکستانی مسیحیوں کے ماضی حال اور مستقبل کی بھی ایک جھلک دکھاتی ہے۔ برصغیر میں مسیحیت تعلیمی اداروں کا دوسرا نام تھی اور مسیحی تعلیمی ادارے مسیحیت اور مسیحیوں کی پہچان تھے۔ اب بدروحوں سے روحانی صلیبی جنگیں (کروسیڈ) کرنے والے پادریوں کے لئے یہ ملک بلکہ یہ خطہ
( کیونکہ سوشل میڈیا کے ذریعے بھارت، سری لنکا وغیرہ کا حال بھی کچھ ایسا ہی پتہ چلتا رہتا ہے)۔
یہ ایک جنت ہے لہٰذا پڑھے لکھے مسیحی اساتذہ اور مسیحی تعلیمی اداروں کی تعداد کم اور بدروحوں کے خلاف مقامی و بین الاقوامی صلیبی جنگجوؤں پادریوں پرستاروں اور گرجوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ اور مسیحی مجموعی طور پر اپنے آبا کی سرزمین پر پھر انہی فکری، شعوری، تعلیمی، معاشی، سماجی ، معاشرتی ،علمی،مذہبی،تہذیبی اور سیاسی پستیوں کی طرف رواں دواں ہیں جن سے مسیحی تعلیمات کی روح سمجھنے والے مسیح کے سچے پیروکاروں نے ان ہزاروں سالوں سے پستیوں اور ذلتوں میں رہتے ہوئے خاک نشینوں کے اجداد کو بڑی جدوجہد اورطویل المیعاد منصوبہ بندی سے نکالنے کے لئے ادارے قائم کئے تھے اور یہ معصوم چند(بلکہ اب بہت سے) بدنیتوں کی ھوس زر و جذبہ خود نمائی اور دیگر ایسی ھی بشری کمزوریوں کی بدولت اپنی لاعلمی کی وجہ سے انہی اداروں کو تباہ کرنے کے درپے ہیں اور اپنی نسلوں کی بقاء کے ضامن ان اداروں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رھے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک تحریک شناخت کے بانی رضآ کار اور سترہ کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سیفد”
“کئی خط اک متن” اور
“شناخت نامہ”نمایاں ہیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply