انجانی کمی۔۔۔عنبر عابر

اس دن وہ سیر سپاٹے کیلئے اپنے دوستوں کے ساتھ پہاڑوں کی طرف آیا تھا۔تب ان سرسبز پہاڑوں میں اس کی نظر قلم کاغذ تھامے اس شخص پر پڑی جو ہر شے کو بڑی دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔دور مغرب میں سورج کا تابناک وجود دھیرے دھیرے ریزہ ریزہ ہورہا تھا اور بارعب پہاڑوں کا پر ہیبت سناٹا اس شام میں اداسی کے رنگ بھر رہا تھا۔ نظر آنے والے شخص کا لباس خستہ تھا لیکن آنکھوں میں تازگی تھی۔وہ کبھی کوئی رنگین پتھر اٹھا کر اسے بغور دیکھنے لگتا تو کبھی کسی درخت کے نرم و نازک پتوں پر نہایت آہستگی سے انگلیاں پھیر کر ایک طویل سانس بھرتا, جیسے اس فضا کو، اس شام کو اپنے اندر سمو رہا ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

شاہد ایک کاپی پیسٹر رائٹر تھا۔مختلف کتابوں سے مواد چوری کرکے اس پر اپنی کتاب کی بنیاد رکھتا اور دولت کے ساتھ ساتھ شہرت بھی کماتا۔اس کی کئی کتابیں منظر عام پر آگئی تھیں اور عام لوگوں میں وہ ایک اعلی پائے کا تخلیق کار مشہور ہوگیا تھا جبکہ حقیقی ادیب اس کی اصلیت جانتے تھے۔
ادب کے ٹھیکیداروں کے ساتھ اثر ورسوخ نے شاہد کے خلاف چلنے والی زبانوں کو منوں وزنی قفل لگا دیے تھے جبکہ وہ قلم جو شاہد کے خلاف لکھنے پر قادر تھے ان کی سیاہی، سفید خون کے مانند بے حسی کا نمونہ بن گئی تھی۔ شاہد کو ہر وہ شے حاصل تھی جن پر ایک تخلیق کار کا حق ہوتا ہے۔شہرت، عزت،پیسہ سب کچھ۔لیکن… ان سب کچھ کے باوجود شاہد کو کسی انجانی چیز کی کمی محسوس ہوتی تھی اور اسے لگتا تھا یہ کمی اندر ہی اندر پروان چڑھ کر ناسور بن رہی ہے۔ایک ایسا ناسور جو اس کی ساری کامیابیوں کو پلک جھپکتے میں چاٹ سکتا ہے۔
اس دن شاہد سیر و تفریح کیلئے اپنے دوستوں کے ساتھ پہاڑوں کی طرف نکل آیا تھا۔تب اس کی نظر اس شخص پر پڑی جسے وہ اچھی طرح جانتا تھا۔یہ ناصر تھا جو لفظوں کا کھیل کھیلتا تھا۔لفظ، جن سے خوشبوئیں بکھیرتی سطریں بناتا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا اور انہی لفظوں کے سانچے میں زندہ درد تخلیق کرنا اس کیلئے چٹکی بجانے کے مترادف تھا۔
ناصر کے ناولز پبلشروں کی الماریوں میں زندہ درگور پڑے تھے۔کون پاگل ایک گمنام نام کے ساتھ اپنا پیسہ رسک میں ڈالنا چاہتا ہے؟ شاہد کو اس پر ہنسی آتی۔وہ اسے قابلِ رحم سمجھتا تھا۔
یہ ساری باتیں چشم زدن میں شاہد کے دماغ سے گزریں اور وہ دوبارہ ناصر کو دیکھنے لگا۔ناصر ایک لمبی سانس لے کر گویا ہر شے کو اندر سموتا اور لکھنے میں مصروف ہوجاتا۔لکھنے سے فارغ ہوکر ناصر نے اپنا سامان سمیٹا اور واپسی کیلئے پر تولنے لگا۔اس کے چہرے پر عجیب سا سکون تھا یوں لگا جیسے وہ اپنی پوری ذات کاغذ پر اتار کر ہلکا پھلکا ہوگیا ہے۔
یکبارگی شاہد کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔اسے محسوس ہوا تھا کہ وہ خلا، وہ کمی جو اس کی دشمن تھی کھل کر سامنے آرہی ہے اور وہ اسے سمجھ رہا ہے بلکہ سمجھ چکا ہے۔ان لمحات میں ناصر سے زیادہ وہ خود کو قابل رحم محسوس کرنے لگا
ہاں وہ قابل رحم تھا کہ پوری کتاب لکھ کر بھی اپنی ذات لفظوں کی صورت صفحۂ قرطاس پر بکھیر نہ پاتا۔ہاں وہ قابل رحم تھا کہ حقیقی ادیبوں کی طرح فطرت کی بولی سمجھ نہ پاتا!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply