• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کیا بانو قدسیہ کا راجہ گدھ اکرام اللہ کے گُرگِ شب کا چربہ ہے ؟۔۔۔۔عبدالحنان ارشد

کیا بانو قدسیہ کا راجہ گدھ اکرام اللہ کے گُرگِ شب کا چربہ ہے ؟۔۔۔۔عبدالحنان ارشد

آج سے تقریباً نصف صدی قبل اکرام اللہ نے گُرگِ شب کے نام سے کتاب لکھی تھی۔ گُرگِ کے معنی بھیڑیا کے ہوتے ہیں اور شب مطلب رات۔ گُرگِ شب مطلب رات کا بھڑیا۔

یہ کتاب اپنی اشاعت سے اب تک مملکتِ خداداد میں ممنوع ہے۔
کچھ یار دوست کہتے ہیں بانو قدسیہ کی کتاب راجہ گدھ اس کتاب کا چربہ ہے، کچھ عرصہ قبل اس موضوع پر جناب غلام حسین غازی نے راجہ گدھ تنقیدی جائزہ کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی تھی جس کے ناشر بک ہوم لاہور تھے۔

میں اب جب اکرام اللہ صاحب سے ملا تو سوچا کیوں نہ وہ بات جس کا شور زمانے نے مچا رکھا ہے، جس کے لیے یہ سارا ہنگامہ ہے اس سے ہی اس طوفان کی وجہ اور اس کا ردِ عمل جان لیا جائے۔
میں نے اکرام اللہ صاحب سے پوچھا آپ کا اس بارے میں کیا کہنا ہے۔ تو اُن کا کہنا تھا کہ
ایسا کچھ بھی نہیں ہے بانو بھی ایک تخلیق کار تھی۔ مجھے اُس کتاب پر ایسا کوئی شبہ کبھی نہیں ہوا۔ لکھنا بانو کا بھی حق ہے۔ وہ بھی
تخلیق کار تھی اور میں بھی تخلیق کار ہوں۔ اس کے سوچنے کا اپنا انداز ہے میرا  اپنا الگ اسلوب ہے۔ سوچنے والوں کی سوچ کو ایک خاص پیرائے میں بند تو نہیں کیا جا سکتا، جب کہ سوچنے والا صاحبِ قلم بھی ہو۔ میں نے اس کہانی کو اپنے معاشرے، اپنے اردگرد کے ماحول سے متاثر ہو کر لکھا تھا، ہو سکتا ہے بانو کے ساتھ بھی یہی ماجرا ہو۔ لیکن اُس پر چوری کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔ خاص طور پر میں تو ہرگز یہ کام نہیں کر  سکتا”۔

پھر انہوں نے خود ہی بتایا کہ جن صاحب نے کچھ عرصہ قبل راجہ گدھ پر تنقیدی کتاب لکھی ہے میرے پاس آئے تھے کہ آپ کی کتاب کی نقل ہے جس پر میں یہ کتاب لکھ رہا ہوں میں نے (اکرام اللہ صاحب) معذرت کرلی ان سے اس موضوع پر بات کرنے سے”۔

بحثیت قاری دونوں کتابیں پڑھنے کے بعد میں اتنا کہہ سکتا ہوں دونوں کتابیں ایک دوسرے سے کافی حد تک ملتی ہیں ، لیکن دونوں کہانیوں کا اسلوب ایک دوسرے سے مختلف ہے۔
دونوں کتابوں کی ضخامت میں بھی فرق ہے۔
گُرگِ شب 185 صفحات پر مشتمل ہے جبکہ راجہ گدھ ایک ضخیم ناول ہے۔

بانو جی اور اکرام اللہ صاحب نے اپنے اپنے انداز سے اپنے قارئین تک حرام حلال کا تصور پیش کیا ہے، یہ کہا جا سکتا ہے کہ دونوں تخلیق کاروں کا مرکزی خیال ایک ہی ہے۔

“کہ اگر انسان کی نسوں میں حرام گیا ہو گا تو وہ ساری زندگی چاہ کر بھی حلال نہیں حاصل کرسکتے”۔

اب آتے ہیں دونوں کتابوں کی کہانی کی طرف۔

گُرگِ شب کے مرکزی کردار کا نام ظفر ہے، اور کہانی کا زیادہ حصہ خود کلامی میں آگے بڑھتا ہے۔

راجہ گدھ کے مرکزی کردار کا نام قیوم ہے۔ کہانی قیوم کے کالج سے شروع ہوتی ہے جہاں کہانی کے باقی اہم کردار آفتاب، سیمی شاہ اور پروفیسر سہیل ملتے ہیں۔

ظفر کی ماں اس کے باپ کی دوسری بیوی ہے، اور اس کی ماں کے ظفر کے سوتیلے بھائی کے ساتھ جنسی تعلقات ہیں  اور  بھائی اسے، اس کے بھائی کی اولاد قرار دیتا ہے۔ یہ بات ناول کے آخر تک چلتی ہے۔

قیوم کا بھائی اس کی ماں کو بابا بلے شاہ کے مزار سے بھگا کر لایا ہوتا ہے، اور بعد میں اس کی اپنے گھر میں رہنے والے ایک اور رشتہ دار سے تعلقات بھی ہوتے ہیں جس کے آنے سے اس کا باپ خاموش ہو کر کہیں  چھپ سا جاتا ہے، اس کی تواضع اس کی ماں مکھن سے کرتی  ہے۔

قیوم کی ماں بھی حرام کی مرتکب ہوتی ہے اور ظفر کی ماں بھی گناہ کرتی ہے۔

ظفر  اور  قیوم کے حصہ میں آخر تک کوئی پاکباز باکرہ لڑکی نہیں آتی۔ تمام عمر انہیں حرام سے ہی گزارا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ان کے خمیر میں حرام ہوتا ہے۔

ظفر کہانی کے شروع میں حمیدہ سے اپنی محبت کو صاف کرنا چاہتا ہے لیکن حمیدہ اس کو چھوڑ کر گاؤں کے ایک اور شخص کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کر لیتی ہے اور ظفر کی نامزدگی کا تمسخر اڑاتی ہے۔ پھر اس کے بعد ظفر کی زندگی میں یا تو شادی شدہ شیخ کی بیوی بیگم ریحانہ آتی ہے یا پھر ایک سیکس ورکر میری۔

قیوم کی زندگی میں پہلے آفتاب کی ٹھکرائی ہوئی سیمی شاہ آتی ہے  جو  اس سے جنسی تعلقات محض اس بنا پر قائم کرتی ہے کہ آفتاب اور قیوم روم میٹ تھے تو شاید ان کا آپس میں کسی دور میں جنسی تعلق رہا ہو۔ پھر شادی شدہ عابدہ جو محض اپنی نسل آگے بڑھانے کے لیے اس کے ساتھ تعلقات بڑھاتی ہے۔
بعد میں سیکس ورکر امتل سے اس کے تعلقات استوار ہو جاتے ہیں۔ جب قیوم باکرہ اور نیک چلن عورت سے شادی کا اعادہ کرتا ہے تو اس کی بیوی کے روپ میں پہلے سے حاملہ روشن اس کی زندگی کا حصہ بن جاتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

گُرگِ شب   معاشرے اپر کلاس میں صرف اپنے مقصد اور مفاد کے لیے قائم کردہ دوستوں اور رشتہ داریوں کا بھی احاطہ کرتا ہے۔ کہ کس طرح اپنے کاروباری فائدے کے لیے اپنی بیویوں کے استعمال سے دریغ نہیں کیا جاتا۔ اپنی جھوٹی انا   قائم رکھنے کے لیے دوسروں پر پیسہ لٹایا جاتا ہے تاکہ وہ عمر بھر ہمارے ماتحت بن کر  ہی رہیں اور کبھی آنکھ نہ اٹھا سکیں۔

Facebook Comments

عبدالحنان ارشد
عبدالحنان نے فاسٹ یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ ملک کے چند نامور ادیبوں و صحافیوں کے انٹرویوز کر چکے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ آپ سو لفظوں کی 100 سے زیادہ کہانیاں لکھ چکے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply