نہیں ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
اقبال کیسا پاکستان چاہتے تھے؟ اس کا بخوبی اندازہ ان کے اشعار اور ان میں پوشیدہ افکار سے لگایا جاسکتا ہے۔
جوانوں کو مری آہِ سحر دے
آپ کی چشمِ بینا نے مستقبل قریب کے وہ حالات جان لیے تھے، جن کا سامنا مسلمانانِ ہند کو انگریزوں کے چلے جانے کے بعد ہندوؤں کی محکومی کی صورت میں کرنا پڑتا۔
آپ کا دل مسلمانوں کو پستیوں میں دیکھ کر کڑھتا تھا۔ یہ غم ان کی شاعری سے لہو کی مانند ٹپکتا دکھائی دیتا تھا۔
آپ کہتے ہیں کہ
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
اقبال نے ایک ایسی مملکت خداداد کا خواب دیکھا جہاں برصغیر کے مسلمانوں کو مذہبی عقائد کی بجاآوری میں ہر طرح سے آزادی ہو۔ اس خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے آپ نے اپنی شاعری سے برصغیر کے نوجوانوں میں آزادی کی جوت جگانے کا بیڑہ اٹھایا، جس میں خاطر خواہ کامیابی سامنے آئی۔
مسلمانانِ ہند کو خواب غفلت سے بیدار کرتے ہوئے کہتےہیں کہ
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
اقبال نے اپنی شاعری سے وہ کام کردکھایا جو شاید وعظ و نصیحت سے بھی نہ ہوپاتا۔
اپنے فرزند کو، جب وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے بیرون ملک گئے، نصیحت کرتے ہوئے فرمایا
دیارِ غیر میں اونچا مقام پیدا کر
نئے زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
آج بھی مسلمان قریب قریب اسی صورتحال سے دوچار ہیں جن کا سامنا انہیں آزادی کے حصول سے پہلے تھا، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ پستی اور ذلت کی صورت جو مغلوں کی سلطنت کے زوال کے بعد شروع ہوئی تھی۔ مسلمانوں کو سرکاری ملازمتوں سے محروم ہونے سے لے کر معاشی استحصال کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ آج اگر دیکھا جائے تو لگ بھگ وہی حالات پیدا کیے جارہے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ نصاب میں اقبال کی شاعری کا تناسب جو آٹے میں نمک کی مانند ہے، اسے خاطر خواہ جگہ دی جانی چاہیے۔ فکر اقبال نصاب کا لازمی حصہ ہونا چاہیے۔
اقبال نے ایسے پاکستان کا ہر گز خواب نہ دیکھا تھا، جہاں فرقہ واریت، لاقانونیت کا دور دورہ ہو۔ اقبال نے اس پاکستان کا خواب بھی نہ دیکھا تھا جس کے نوجوان اپنی زندگیاں بغیر کسی مقصد کے گزار رہے ہوں۔
آج نوجوان نسل سہل پسندی کی عادی ہوتی جارہی ہے۔ اس کی بڑی وجہ ہمارے بڑوں کا اپنی نوجوان نسل کو اپنے اسلاف کی تاریخ سے آگاہ نہ کرنا ہے۔ آج کا نوجوان اپنی تاریخ جاننا وقت کا ضیاع قرار دیتا ہے۔ نت نئی ٹیکنالوجی سے واقفیت حاصل تو کرنا جانتا ہے، جو غلط نہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ اپنے آباؤاجداد سے خاطر خواہ شناسائی، ان کے کارہائے نمایاں سے آگاہی اتنی ہی ضروری ہے جتنی ایک شخص کو زندہ رہنے کے لیے آکسیجن چاہیے ہوتی ہے۔ ٹہنی شاخ سے الگ ہو کر اپنی شناخت بھی کھو بیٹھتی ہے، بالکل ایسے ہی کسی بھی قوم کے لیے یک جہتی کی اہمیت ہے۔
پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ
آج مسلمانوں کی حالت زار کو دیکھ کر یہی کہا جاسکتا ہے بقول اقبال
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو
ایک جگہ اور اقبال فرماتے ہیں کہ
قوم مذہب سے، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں، محفلِ انجم بھی نہیں
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں