توہین عدالت سے متعلقہ چند مقدمات کا احوال ۔۔۔ امجد عباس

 

2 نومبر 2018ء کے روزنامہ جنگ، راولپنڈی کے پہلے صفحے پر توہینِ رسالت قانون کے تحت درج ہونے والے مقدمات کے اعداد و شمار پیش کیے گئے، جو بہت حد تک عجیب و غریب ہیں۔ 1986ء میں قانونِ توہینِ رسالت بنا، جس کے تحت1987ء سے 2018ء تک 1335 مقدمات درج کیے گئے۔ جن میں 633 مقدمات مسلمانوں کے خلاف، 494 احمدیوں، 187 مسیحوں اور 21 ہندوؤں کے خلاف درج کیے گئے، گویا سب سے زیادہ توہینِ رسالت کے مرتکب خود مسلمان گردانے گئے ہیں۔ اِن میں سے 62 افراد کو ماورائے عدالت مار دیا گیا جبکہ کسی ایک کو بھی پھانسی نہیں دی گئی۔

ایک مقدمے کا مجھے ذاتی طور پر علم ہے۔ ہمارے علاقے کے ایک نیم خواندہ، سید پیر صاحب تھے، وہ پاکپتن میں اپنے مریدوں کے ہاں تشریف فرما ہوئے۔ سید صاحب نے “وعظ” فرمایا، دورانِ وعظ کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ایک ہی بیٹی تھی جناب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا۔
اِس بات کا علم پڑوسی مسجد کے ایک دوسرے مسلک کے مولوی صاحب کو ہوا، اُنھوں نے دسیوں ہم مسلک مولوی صاحبان اور ہزاروں اہلِ اسلام کو ساتھ ملا کر تھانے کے باہر بھرپور مظاہرہ کیا جس کا اختتام پیر صاحب کے خلاف “توہینِ رسالت” کے مقدمے کے اندراج پر ہوا۔
پیر صاحب دُہائی دیتے رہے کہ وہ سید ہیں، انھوں نے اپنا موقف بیان کیا ہے، توہینِ رسالت نہیں کی۔ پیر صاحب کو مریدین کے ہاں سے پکڑ لیا گیا۔
پیر صاحب کچھ عرصہ جیل میں رہے، چھ سال مقدمہ چلتا رہا، جس کے بعد وہ “باعزت” بری ہوئے۔ اب اپنے گھر میں ہی رہتے ہیں۔

ضمنی طور پر عرض کروں، تلہ گنگ میں بھی ایک مسلمان سکول ٹیچر پر، دورانِ بحث و مناظرہ، صحیح بخاری کی ایک حدیث کو پنجابی میں نقل کرنے پر “توہینِ رسالت” و “توہینِ مذہب” کا مقدمہ درج ہوا۔ وہاں بھی سارا زور مولوی صاحبان نے لگا رکھا تھا۔ بالآخر 8، 9 سال بعد وہ سکول ٹیچر صاحب “باعزت” بری ہوئے۔

اللہ معاف کرے اکثر مقدمات کی عجیب و غریب کہانی ہی سننے کو ملتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک مسلمان ہونے کے ناتے بندہ، نبئ رحمت، خاتم الرسل صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مکمل احترام کا معتقد ہے- آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں جسارت ہرگز قبول نہیں- یہ الگ بات کہ ذاتی مقاصد، مسلکانہ اہداف اور رنجشوں کی خاطر مذہبی کارڈ کے استعمال کا قائل نہیں ہوں-

Facebook Comments

امجد عباس، مفتی
اسلامک ریسرچ سکالر۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply