جماعت اسلامی کا ترقی کی طرف معکوس سفر۔۔۔۔سہیل خان

“معاہدہ” تو صرف تحریک لبیک والوں سے ہوا اور ملکی حالات کنٹرول میں آگئے۔ لیکن اب ان دونوں(سراج الحق اور فضل الرحمان) کا کیا ہو گا جنہوں نے موقع محل دیکھ کر اس حکومت کو گرانے کے خواب دیکھ لئیے تھے؟ اب یہ لوگ احتجاج جاری رکھیں گے تو حکومت سے مار کھائیں گے اور اگر نہیں کریں گے تو عوام سے۔ ستر ستر سال پرانی مذہبی جماعتوں کے کارکنان کو اپنی لیڈر شپ سے یہ تو پوچھنا چاہیے کہ آج کی ملکی سیاست میں آپ کہاں کھڑے ہیں؟

موجودہ وقت میں جماعت اسلامی کے کارکنان دنیا کے بد قسمت ترین سیاسی لوگ ہیں جن کے آباؤ اجداد نے تو حکومت، طاقت اور لیڈرشپ کا عروج دیکھ لیا لیکن موجودہ جماعتیوں کی زندگی میں جماعت نے سراج الحق کی قیادت میں معکوس ترقی اور ذلت کے نئے ریکارڈ بنانے کے ساتھ ساتھ سیاسی منافقت کو پراڈکٹ کے طور لانچ کیا۔

کرپشن کے خلاف احتجاج اور نواز شریف کی نااہلی پر افسوس, الگ سیاسی جماعت ہونے کے باوجود ایک ہی الیکشن میں بیک وقت نون لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی اتحادی اور کئی جگہ مخالف ہونے کا ریکارڈ بھی جماعت ہی کے پاس ہے۔ خیبر پختونخوا میں حکومت کا حصہ ہونے کے باوجود جنرل الیکشن میں تحریک انصاف کی حکومت پر کیچڑ اچھال کر سیٹیں ہارنے کی سائنس بھی جماعت ہی جانتی ہے۔ اس کے علاوہ کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں جہاں جماعت نے اپنی اور کارکنان کی سبکی بھی کروائی اور اپنے آپ کو تیسرے درجے کی سیاسی جماعت کے طور پر عام لوگوں کے سامنے پیش کیا۔

اب یہ جماعتی کارکنان پر منحصر ہے کہ وہ کس کو اس ساری ناکامی اور نالائقی کا زمہ دار سمجھتے ہیں، خود کو؟ جماعت کے امیر سراج الحق کو؟ یا پھر اس شوری کو جو بقول انکے سارے فیصلے شوری سے مشاورت کے بعد کیے جاتے ہیں۔

میری نظر میں جماعت اسلامی کی مایوس کن کارکردگی کے زمہ دار خود کارکنان اور جماعت اسلامی کا فرسودہ ڈسپلن ہے جو پرانے بزرگ بابوں کو صرف اپنی اہمیت جتلانے کے لئیے تو استعمال ہو سکتا ہے لیکن اس کا ملک کی عملی سیاست میں کوئی کردار نہیں۔ اپنے امیر کی اطاعت کی اس حد تک تربیت دی جاتی ہے کہ آہستہ آہستہ خود احتسابی اور تنقیدی جائزہ لینے کو گستاخی اور ڈسپلن کی خلاف ورزی سمجھا جاتا ہے۔ یہی معاملہ اراکین اور ناظمین کے ساتھ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی لوگ جماعت کے ڈسپلن سے آزاد ہوکر دوسری جماعتوں میں جاتے ہیں تو نہ صرف سیاسی طور پر کامیاب ہوتے ہیں بلکہ بڑے حکومتی عہدوں پر براجمان بھی ہو جاتے ہیں۔ محمود الرشید اور موجودہ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس لئیے جماعت کے وہ اراکین جو واقعی ملکی سیاست میں حصہ لے کر ملک کے لئیے کچھ کرنا چاہتے ہیں ان کو چاہیے کہ جماعت کو خیر باد کہہ کر کسی بھی سیاسی جماعت کا حصہ بن جائیں۔ کیونکہ جس اسلامی نظام کے نفاذ کے لئیے آپ جدوجہد کر رہے ہیں وہ مقصد پوری جماعت اسلامی کے اقتدار میں آنے کی بجائے آپ کے خود کے اقتدار میں آ کر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ حوصلہ ہی کر کے دیکھ لیں ، ورنہ پستی کی طرف تو آپ جا ہی رہے ہیں۔

Facebook Comments

سہیل خان
میں پیشہ ور مصنف نہیں ہوں. امید ہے کہ آپ میری تحریر پسند آئے گی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply