پیار کا پہلا سیالکوٹ۔ حارث بٹ

” اک دن رہیں بسنت میں
اک دن جئیں بہار میں
اک دن پھریں بے انت میں
اک دن چلیں خمار میں
دو دن رکیں گرہست میں

راجا سل نے جب سیالکوٹ کی بنیاد رکھی ہو گی تو اس کے فرشتوں نے بھی نہیں سوچا ہو گا کہ آنے والے وقتوں میں اسی سیالکوٹ کا رہنے والا، معلمی جیسے معزز اور پروقار شعبے سے وابستہ کوئی شوریدہ سر اس شہر کی گلیوں میں اپنی وحشت کا سامان ڈھونڈتا پھرے گا۔ اس کے مضافات میں کھجل ہوتا رہے گا۔ اور ایک جدید دور میں بھی تاریخ کی بوسیدہ اور نیم تاریک راہداریوں میں راستہ تلاش کرتا رہے گا۔کسے خبر تھی؟
لیکن اسے خبر تھی۔جس نے اس معلم کے خمیر میں آشفتہ سری رکھ دی تھی اوراس کی قسمت میں در بدری لکھ دی تھی۔اور کون ہے جو اس کے لکھے ہوئے کو ٹال سکتا ہے۔
جو چاہیں سو آپ کریں ہم کو عبث بدنام کیا۔
جیسے پورن بھگت سنگھ کے دو ہزار سال پرانے کنویں سے بے اولاد عورتوں کو پتہ نہیں شفا ملتی ہے یا نہیں۔ لیکن تاریخ کے متلاشی ضرور سیراب ہوتے ہیں۔
اسی طرح پتہ نہیں گردوارہ روڑی صاحب سے بابا گورو نانک کے پیروکار کیا حاصل کرتے ہیں۔ لیکن آوارہ گرد خصلت کے حامل بہت کچھ حاصل کر لیتے ہیں۔
سیالکوٹ سے جموں جانے والے راستے بھلے حکومتوں کے مفادات کی وجہ سے بند ہو جائیں۔لیکن دور جدید سے قدیم پرفسوں لمحوں میں جانے کے راستے کبھی بند نہیں ہوتے۔
اگرچہ زندگی بھی ایک سفر ہے۔ لیکن کوئی بھی سفر ایک دم شروع نہیں ہو جاتا۔ وقت کرتا ہے پرورش برسوں۔۔
تو آخر وہ لمحہ آ ہی گیا جب اذن سفر ہوا اور ہم گھر کے آرام و آسائش کو تیاگ کر نئے جہانوں کو نکل پڑے۔سیالکوٹ کی تاریخ میں اہم قصہ پورن بھگت کا ہے

کہتے ہیں کہ ستر میں راجہ سلوان نے پنجاب کے ایک شہر پر قبضہ کر لیا اور پرانے شہر اور قلعے کے کھنڈرات پر ایک نیا شہر اور قلعہ تعمیر کروایا اور اپنے نام کی نسبت سے اس کا نام “سیالکوٹ ” رکھا۔ راجہ سلوان کی رانی اچھراں ( یاد رہے کہ لاہور کا اچھرہ بھی انھی کے نام پر ہے) کے ہاں منتوں، مرادوں کے بعد “پورن بھگت” پیدا ہوا جسے جوگیوں کے حکم پر پیدائش سے لیکر بارہ سال کی عمر تک خاندان (بشمول راجہ اور رانی) سے دور رکھا گیا۔ انھی بارہ سالوں کے دوران راجہ نے ایک لڑکی لوناں سے شادی کر لی مگر اس کی کوئی اولاد نہ ہوئی۔ بارہ سال بعد جبکہ پورن ایک خوبصورت مرد بن چکا تھا، اپنے باپ کے محل میں واپس آیا تو رانی لوناں کا دل اس پر خراب ہوا مگر پورن وہاں سے بھاگ نکلا۔ رانی لوناں کو سخت طیش آیا۔ اس نے الٹا راجہ سے پورن کی شکایت کر دی۔ راجہ سلوان، جو لوناں پر بری طرح فدا تھا، نے پورن کے ہاتھ قلم کر کے اسےایک اندھے کنواں میں ڈالنے کا حکم سنا دیا۔
جب راجہ سلوان نے لوناں کی باتوں میں آ کر پورن بھگت کے ہاتھ کٹوا کر اسے اندھے کنواں میں پھینکا دیا تو کچھ دنوں بعد جوگیوں کے روحانی پیشوا گرو گورتھ ناتھ کا وہاں سے گزر ہوا۔ انھوں نے پورن کو کنواں سے باہر نکالا، اپنی کرامت سے اسے ہاتھ واپس لوٹائے اور اپنے ساتھ ٹیلہ جوگیاں لے گئے جہاں سخت امتخانات کے بعد انھیں جوگ دیا مگر تلقین کی کہ وہ اپنے وطن سیالکوٹ واپس جائیں. پورن بھگت جو اب جوگی بن چکا تھا، واپس اپنے وطن آیا۔ شہر میں ہر طرف اسی کا چرچا تھا۔ راجہ سلوان لوناں کے ساتھ پورن جوگی کے سامنے پیش ہوا جہاں لوناں نے اپنے گناہ کا اعتراف کیا ۔

پورن بھگت جوگی نے اسے اپنی کرامات سے حاملہ کیا مگر واپس کبھی اپنے محل نہیں گیا۔ آج بھی بے اولاد جوڑے کنویں پر حاضر ہوتے ہیں ۔ لڑکیاں اس کنویں کے پانی سے نہاتی ہیں مگر جو کچھ پہلے پہنا ہوتا ہے ( یہاں تک کے جوتے بھی) اسے جلا دیا جاتا ہے اور لڑکی نئے کپڑے پہنتی ہے ۔ اس کام کے لئے غسل خانے کنویں کے پاس ہی بنائے گئے ہیں. ایک خاندان مدتوں سے وہیں آباد ہے اور اس جگہ کو اپنے آباء کا ورثہ قرار دیتا ہے۔
کنواں سے ملحقہ مندر پر پاکستان بننے سے پہلے تک ہر نئے چاند کی پہلی اتوار کو میلہ لگتا تھا مگر سن 47ء کے بعد جب ٹیلہ جوگیاں اجڑا تو یہ مندر بھی اپنی اصلی شناخت کھو بیٹھا اور بس روایتی مندر بن کر رہ گیا۔
سیالکوٹ سے صرف 17 کلو میٹر کے فاصلے پر سچیت گڑھ کا بارڈر ہے۔ انگریزوں نے جب برصغیر میں ریلوے ٹریک پر کام شروع کیا تو 1897 تک 43 کلو میٹر لمبے سیالکوٹ تا جموں ریلوے ٹریک کو مکمل کیا۔ صبح آٹھ بجے کالا بھاپ والا انجن جموں سے دھواں اڑانا شروع کرتا اور میرن صاحب ، سچیت گڑھ سے ہوتا چند ڈبوں کو لے کر ٹھیک گیارہ بجے سیالکوٹ پہنچ جاتا۔ اس کے علاوہ ایک بڑی اور پکی سڑک بھی تھی جو لوگوں کی آزادانہ نقل و حمل کے لئے استعمال ہوتی تھی۔ پھر اگست 1947 آ گیا۔ جہاں بہت کچھ اجڑا وہیں یہ ریلوے ٹریک بھی اجڑا۔ جموں، میرن صاحب،  سچیت گڑھ سب بھارت کے پاس چلے گئے اور سیالکوٹ پاکستان کی جھولی میں آن پڑا۔

ذرا آگے سرحدی لائن بنا دی گئی ۔ آزدانہ نقل و حمل بند ہو گئی ۔ جہاں بھارتی پنجاب کے مسلمانوں نے قریب ہونے کی وجہ سے لاہور کی طرف ہجرت کی وہیں جموں کے لوگ سیالکوٹ کی طرف بھاگے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کی حکومتوں نے وہاں باقاعدہ  بارڈرز بنا لئے۔ پاکستان نے اپنی طرف مسجد اور بھارت نے اپنی طرف ایک گوردوارہ بنا دیا۔ مشرف دور میں یہ کوشش کی گئی کہ سیالکوٹ سے جموں تک بس سروس شروع کی جائے مگر یہ منصوبہ بس منصوبہ ہی رہا۔ آج جموں اور سیالکوٹ کے درمیان سڑک سے فاصلہ صرف 47 کلومیٹر ہے مگر آپ یہ 47 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے سے قاصر ہیں
سیالکوٹ شہر کے بیچوں بیچ ایک قدیم “شیوالا تیجا سنگھ” کا مندر ہے۔ برصیغر میں ہر طرف مسلمان اور ہندو دونوں ہی آباد تھے۔ کہیں مسلمان کم تو کہیں زیادہ۔ ہر طرف مساجد بھی تھیں اور مندر بھی۔ پھر علی گڑھ کے لونڈوں کو ایک شرارت سوجھی، قائد جیسے چالاکو دماغ کی اقامت ملی اور اگست 1947 میں ایک لکیر کھینچ دی گئی. مذہب کے نام پر تقسیم تو ہو گئی مگر دونوں اطراف کے لوگوں کی سوچ وہی رہی۔ گندی، تعصب زدہ اور نفرت انگیز۔
وہاں مسجدیں اجاڑی جانے لگی اور یہاں مندر۔ قہاں سے لاشوں سے بھری ٹرینیں لاہور پہنچیں تو لاہوریوں نے لکشمی کو خود ہی آگ لگا دی۔ وقت کا گھوڑا بے لگام دوڑا اور 1992 آ گیا۔ مذہب کے نام پر ایک اور چنگاری اٹھی اور بابری مسجد کو رام کے نام پر شہید کر دیا گیا۔ وہاں مسجد کو آگ لگی تھی تو ہم کیوں پیچھے رہتے۔ بدلے میں سیالکوٹ کے “شوالا تیجا سنگھ ” کے مندر کو مسمار کرنے کی کوشش کی گئی مگر رام صاحب بھی ذرا جوش میں تھے، انھوں نے ہنومان مہاراج کو مندر کی رَکھشا کے لئے بھیج دیا اور ہنومان مہاراج نے بھی مندر کو گرنے نہ دیا۔ سیالکوٹی بھی کہاں آسانی سے ہار ماننے والے تھے۔ جب مندر نہ گرا سکے تو انھوں نے غصے میں آکر اسے آگ لگا دی۔ مندر بھی یہاں کے لوگوں کی طرح ڈھیٹ ثابت ہوا اور ٹس سے مَس نہ ہوا۔ پس نام نہاد  جہادیوں  نے اپنی شکست مان لی اور جلتی ہوئی عمارت کو چھوڑ کر گھروں کو لوٹ گئے ۔ مندر کو صرف یہ فرق پڑا کہ وہ کالا ہو گیا۔ مگر ڈھیٹوں کی طرح وہیں کھڑا رہا۔ آج بھی وہ مندر ہمیں ہمارا اصلی چہرہ دکھاتا ہے اور ہمارے چہروں پر کالک ملتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یونہی مجھے بیٹھے بٹھائے عید کے دوسرے دن چُل ہوئی کہ بور تو میں ہو ہی رہا ہوں چلو بابا جی سلام ہی کر آؤ۔ اپنے گھر کے قریب بس اسٹاپ پر پہنچا تو آگے خیر سے راجہ جی کھڑے تھے۔ اپنے ہاسٹل کے زمانوں کا مجھے راجہ جی کا اچھا تجربہ ہے ۔ آپ بہت ہی خوش قسمت ہوں گے اگر راجہ جی آپ کو آپ کی منزل پر پہنچا دیں ورنہ اکثر و بیشتر لوگ اس کی  فلائٹ سے سیدھا اوپر ہی جاتے ہیں ۔ یہ راجہ والے کٹ ایسے کرواتے ہیں کہ اچھے بھلے شریف انسان کا تراہ نکل جاتا ہے۔ مگر اس بس پر سفر کرنے کا ایک فائدہ تو ہے کہ بندہ کثرت سے اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے۔
ابھی بس چلی ہی تھی کہ  ڈرائیور  صاحب نے تیز  میوزک کے ساتھ گانا لگا دیا “سانوں لاہور شہر نال پیار اے…..(آگے مجھے نہیں یاد،ورنہ ضرور آپ کو سنواتا)” اور ساتھ ہی میرے اندر کی نرگس  تڑپ کے باہر آ گئی ۔ میں اپنے اس اندر کی نرگس سے بڑا تنگ ہوں۔ موقع محل دیکھے بنا باہر آ جاتی ہے ۔ اور پھر میری اچھی خاصی بےعزتی خراب کروا کے واپس جاتی ہے۔ جس کو میں صرف اسی وقت تک بہت شدت سے محسوس کرتا ہوں بعد میں پھر بےعزتی پروف۔ لاہور سے مجھے واقعی بڑا پیار ہے مگر میں شاعر کی اس بات سے مکمل متفق ہوں کہ
یہ جو لاہور سے محبت ہے، یہ کسی “اور” محبت ہے
اور وہ “اور” تم نہیں شاید، مجھے جس “اور ” سے محبت ہے
مسلسل ایک گھنٹہ کلمہ شریف کا ورد کرنے کے بعد قدرت کو ہم پر رحم آیا اور بھائی کنڈیکٹر نے گوجرانوالہ عالم چوک کی نوید سنا دی۔ وہاں سے رکشے میں بیٹھ کر ایمن آباد موڑ پر پہنچا تو رکشے میں ہی کسی نے مجھ سے پوچھا کہ بھائی کدھر جانا ہے۔ جب میں نے اسے رُوڑی صاحب کا بتایا تو فَٹ سے بولا “تسی سردار او” دل تو کیا کہ اسے رکھ کر ایک دوں مگر ضبط کرنا ہی پڑا۔ دور سے ہی گوردوارہ کو دیکھا تو میں اچھل پڑا کہ بھائی بس اُدھر اتار دینا مجھے. مرکزی دروازہ چونکہ چوک سے ہٹ کر تھا تو کسی راہگیر سے دروازے کا پوچھا تو بولا” وہ جو سامنے دوسرا رُکھ ہے نا، وہیں سے مڑ جاؤ” رُکھ کا لفظ سن کر ایک سکینڈ کے کروڑویں حصے سے بھی پہلے میرے ذہن میں تارڑ صاحب کا ناول “بہاؤ” آ گیا۔ گوردوارہ والی جگہ (روڑوں ،پتھروں پر )بیٹھ کر ہی بابا گرونانک لوگوں کو درس بھی دیتے اور عبادت بھی کرتے۔ ابتدا میں رنجیت سنگھ نے یہاں عمارت تعمیر کروائی اور اسے “گردوارہ رُوڑی صاحب” کا نام دیا۔ قصہ مختصر کہ بڑے ہی مزے گردوارہ کی سیر کی پھر واپسی کا سفر اختیار کیا ۔
ایک عرصہ ہوا کہ میرے موبائل میں میوزک کے نام پر صرف دو ہی  ٹریکس  ہیں ۔ ایک  پی ٹی وی  کے ڈرامہ ماسوری کا “اللہ ہو” ہے جو کہ سندھی زبان میں ہے مگر ساتھ ساتھ اس  کے کچھ اشعار کو اردو میں بھی پڑھا گیا ہے۔ عابدہ پروین کا اس سے بڑھ کر آج کل مجھے اور کوئی کلام پسند نہیں ۔ دوسرا نصرت فتح علی خان کا ” میں جانا جوگی دے نال” ہے۔ ایک عرصے سے میں نے نصرت کا “جوگی” کے علاوہ اور کچھ نہیں سنا۔ میں کسی سفر میں ہوں یا ویسے ہی موبائل پر میوزک لگا ہو تو صرف یہی دو  بار بار چلتے ہیں ۔ آج بھی جب “ترگڑی شریف” جانے کے لئے اپنی غزال پر بیٹھا( اب نو محرم کی چھٹی بھی تو حلال کرنی تھی نا) تو  کک مارنے سے پہلے کانوں میں ٹوٹیاں لگا لیں ۔ کانوں میں ایک دم “دلبر دلبر” کی آواز گونجی۔ آج سے ٹھیک بارہ دن پہلے جب میں اپنے ایک بیرو کے ساتھ کرتار پور گیا تھا تو اس موئے دلبر دلبر کا  نیو ورژن  سنا تھا۔ نجانے میرے موبائل میں یہ کہاں سے آ گیا تھا۔ سشمیتا سین کا یہ اصل گانا ہمیشہ سے میرا پسندیدہ رہا ہے۔ بالی وڈ میں سشمیتا سین سے بڑھ کر اور کوئی  باوقار خاتون  نہیں ۔ سشمیتا سین وہ واحد  اداکارہ ہے جس کی انگریزی مجھے سمجھ آتی ہے۔  تو قصہ مختصر یہ کہ اس بار میرے کانوں میں تین   گانے بار بار  ریپیٹ  ہوتے رہے ، غزال تیسں منٹ چلتی رہی اور پھر میں ترگڑی شریف پہنچ گیا ۔
ترگڑی شریف کا مزار بھی عجیب ہے ۔ کھلا کھلا سا جہاں ہر وقت مقامی لوگوں کا میلا سا لگا رہتا ہے۔ ایک طرف بوڑھے لوگ بیٹھے تھے اور دوسری طرف کچھ درمیانی عمر کے مرد۔ جن خواتیں وحضرات کی آپس میں علیک سلیک اچھی تھی وہ اکٹھے ہی بیٹھ گئے تھے۔جوانوں کی ٹولی الگ تھی۔ لنگر کا وافر انتظام کیا جا رہا تھا۔ لنگر کے بعد میٹھے میں سیب ملنے تھےجسے کچھ جوان لکڑی کی پیٹوں سے نکال صاف کر رہے تھے۔ میں اگر کٹر وہابی نہ ہوتا تو لنگر ضرور کھا کر آتا۔
پچھلے دنوں عالمی خبروں میں “کرتار پور” کا بڑا شور رہا۔ نارووال اور شکر گڑھ کے وسط میں واقع کرتار پور گردوارہ کی سکھوں کے نزدیک بہت اہمیت ہے۔ عمران خان نے جب سدھو پاء جی کو حلف برداری کی تقریب میں بلایا اور پھر آرمی چیف صاحب نے سدھو پاء جی کو جپھی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہم کرتار پور والا بارڈر کھول رہے ہیں ۔ وہی کرتار پور جہاں بابا گرو نانک کی اصلی قبر ہے۔ بس پھر کیا تھا، سکھ برادری خوش ہو گئی ، ہندوستانیوں کو آگ لگ گئ کہ خالصتان تحریک کو پھر سے زندہ کیا جارہا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ ویسے 47ء کی تقسیم بھی مکمل طور پر سیاسی و سازشی تھی۔ بارڈر کے بالکل ساتھ ہی بابا گرونانک جی کا مقبرہ ہے۔ ذرا سی جو لائن انگریز اور ہندو پاکستان کی طرف اور بڑھا دیتے تو کیا حرج ہو جاتا کہ سکھوں کے روحانی پیشوا کا مقبرہ ان کے پاس ہی چلا جاتا۔ مگر  ایسا کرنے سے تو تقسیم کے بعد امن ہو جاتا جو ہندوؤں اور انگریزوں کو بالکل بھی منظور نہ تھا۔ جان بوجھ کر انھوں نے مقبرے کو پاکستان میں ڈالا اور کشمیر جو کہ قدرتی طور پر پاکستان سے ملحق تھا، اسے بھارت کے ساتھ ملا دیا۔ تاکہ دونوں اطراف کے لوگ ہمیشہ لڑتے مرتے ہیں ۔
اب جبکہ کرتار پور بارڈر کھولنے کی شرلی چھوڑ دی گئ تھی تو سوچا ہم بھی چکر لگا ہی آئیں تو ہم اپنے عثمان “بیرو” کے ساتھ ہو آئے۔کرتار پور کے راستے میں ایک اجڑا ہوا ریلوے سٹیشن ” جسر” بھی پڑتا ہے۔
میں یہاں سسی کے بھنبھور کا کیوں کر ماتم کروں کہ میرے اپنے بہت سے شہر اجڑ چکے۔ کیا شاندار وقت ہوتا ہو گا کہ جب کوکتا ہوا انجن چند بوگیوں کو لیکر ان پٹریوں پر دوڑتا ہو گا۔ ریل کی خوب صورت آواز “جسر” کے ریلوے سٹیشن پر ایک عجیب خمار طاری کرتی ہو گی۔ سیٹی بجاتا انجن بہت سی سسیوں کے دل کی دھڑکن تیز کرتا ہو گا۔ سن 47 کے بعد ٹرین پاکستانی پنجاب کے شکرگڑھ تک سمٹ کر رہ گئی تھی۔ ورنہ 47 سے پہلے تو یہی انجن شکرگڑھ سے ہوتا ہوا بھارتی پنجاب میں چلا جاتا تھا۔ مگر یہ اس وقت کی بات ہے جب پنجاب صرف پنجاب تھا، نہ وہ بھارتی تھا اور نہ ہی پاکستانی ۔ 47 میں ریل کی کُوک کو شکرگڑھ تک محدود کر دیا گیا پھر جوں جوں وقت گزرتا گیا، ٹرانسپورٹ مافیا بڑھتا گیا اور اس ٹرین کی کُوک کو بہت پیچھے ناروال میں ہی روک دیا گیا. آج حال یہ ہے کہ سیالکوٹ جنکشن پر بھی پورے دن میں صرف دو ٹرینیں ہی آتی ہیں ورنہ پہلے تو انجن سیٹی مارتا ہوا سیالکوٹ سے جموں اور جموں سے سیالکوٹ آتا تھا اور اس بدمعاش کو کوئی روکنے ٹوکنے والا نہ تھا۔ نا جانے کیوں ہمارے یہ ریلوے سٹیشن ویران ہو کر اجڑ رہے ہیں کہ میری پہلی مکمل محبت اجڑ رہی ہے۔
ان ریلوے سٹیشنوں کی ویرانیاں اپنے اندر آج بھی ایک خاص سکون لئے ہوئے ہیں جو اپنی رونق کے لوٹ آنے کی منتظر ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”پیار کا پہلا سیالکوٹ۔ حارث بٹ

Leave a Reply