کراچی پلین کریش۔۔ذوہیب حسن بخاری

کل رمضان شریف کا 28 واں روزہ،اور آخری جمعہ تھا۔ ۔ آنے والے کل کو عید بتلائی جارہی ہے۔ سہہ پہر کے وقت پی آئی اے کا بدقسمت طیارہ اپنی منزل یعنی کراچی پہنچنے ہی والا تھا کہ پائلٹ کے وائرل شدہ آڈیو نوٹ کے مطابق انجن خراب ہونے کی وجہ سے ماڈل کالونی میں گر کر تباہ ہوگیا۔ اور قریباً 100 کے قریب انسان دنیائے فانی سے کوچ کرگئے۔ یہ واقعہ بہت افسوسناک بھی ہے اور پاکستان کے ہر شہری کی آنکھ اس واقعے پر نم ہے۔ اب شاید عید عید نہ رہے۔

یہ حادثہ بھی ہوگیا جانیں بھی چلی گئیں اور انشورنس کا پیسہ اور گورنمنٹ کی طرف سے جاں بحق ہونے والے بدقسمت مسافروں کے لواحقین کو کچھ مالی پیکج بھی دے دیا جائے گا۔ مگر چند سوالات کا چند حقائق کا جواب کون دے گا۔

کیا موجودہ پی آئی  اے کی مقدس انتظامیہ سے کوئی یہ سوال کرنے کی جرات کرپائے گا کہ جہاز میں فنی خرابی کیوں ہوئی، وہ وجوہات صحیح معنوں میں پبلک ہوپائیں گی جو پی آئی اے کے عملے کا ایک ایک فرد جانتا ہے۔ مگر مجبوری کی وجہ سے خاموش ہے۔؟

کیا ذمہ داروں کا تعین ہوپائے گا؟

کیا ماضی کے حادثات کی طرح اس حادثے میں بھی پائلٹ کو قصوروار ٹھہرایا جائیگا؟

کس نے جہاز کو اڑان کی اجازت دی گئی تھی؟

کس نے ٹیکنیکل کلیرنس دی؟

کیا ٹیکنیکل ٹیمز نے کوئی   آبزرویشن پاس کی؟ اور اگر کی تو اس پر کیا ایکشن لیا گیا؟

اگر آل اوکے کا سرٹیفیکیٹ دیا گیا تو پھر ٹیکنیکل ٹیمز کی اہلیت پر سوالیہ نشان ہے؟

کیا تمام ایس او پیز پوری کی گئیں؟

ایک جہاز کو پرواز کی اجازت ملنے تک کی کتنی ایس او پیز ہیں؟ وہ بتائی جائیں۔۔

یہ ایس او پیز اور کلیرنس میں سول ایوی ایشن کا کیا رول ہے اور متعلقہ ایئر لائن کا کیا رول ہے یہ سب پبلک کیا جائے۔

کیا یہ تمام ایس او پیز بین الاقوامی معیار کے مطابق ہیں یا نہیں؟ وہ لوگ جو ان ایس او پیز کو چیک کرنے کا اختیار رکھتے ہیں انکی اپنی کیا اہلیت اور تجربہ ہے؟

مجرمانہ غفلت ہے کہ نہیں، ٹیکنیکل سٹاف کی طرف سے ضروری پرزہ جات کی ڈیمانڈ کی خبر کا بار بار آنا اور مینجمنٹ کا جہازوں کو پرواز کی اجازت دینا یہ سب کون دیکھتا ہے؟

یہاں مجھے خودپر  گزرا ایک واقعہ یاد آگیا۔ میں 18 ستمبر 2018ء میں کراچی سے اے ٹی آر پر اسلام آباد آیا۔ اے ٹی آر نے آدھے گھنٹے کیلئے رحیم یار خان رکنا تھا۔ جہاز کے تمام مسافر رحیم یار خان اترنے تھے۔ ہم بخیر و عافیت رحیم یار خان لینڈ کرگئے۔ میں اکیلا جہاز میں رہ گیا۔ سب عملہ جہاز سے اتر گیا اور صفائی کی ٹیم جہاز کے اندر صفائی کرنے لگی۔ عام طور پر اسلام آبادکے مسافروں کو جہاز سے اترنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ مگر میں جہاز سے باہر آگیا کیونکہ صفائی کے دوران جہاز کے اندر بیٹھنا ممکن نہیں تھا۔ باہر اے ایس ایف کے دو سکیورٹی اہلکار موجود تھے اور ایک ٹیکنیکل ٹیم جہاز کے بالکل ساتھ کھڑی اپنا کام کررہی تھی۔ ایئر پورٹ کا رن وے بالکل خالی تھااور اردگرد کوئی نہ تھا۔ میں نے جہاز کے پائلٹ کو ٹیکنیکل ٹیم کے ساتھ تھوڑا گرم سرد ہوتے دیکھا۔ دور ہونے کی وجہ سے آوازیں سن نہ پایا مگر باتوں کے انداز سے مجھے کھٹکا ہوا کہ کوئی گڑبڑ ضرور ہے۔ خیر وہیں واک کے دوران ایک شخص سے جب یہ تذکرہ ہوا تو اس نے جو انکشاف کیا وہ میرے لئے بہت پریشان کردینے والا تھا۔ مجھے یہ بتایا گیا کہ جہاز کے کسی سسٹم کا آئل لیک ہے اور رحیم یار خان میں یہ آئل دستیاب نہیں ہے۔ کراچی، لاہور یا اسلام آباد میں ہے۔ پائلٹ جہاز وہاں لے کے جانا نہیں چاہتا کیونکہ اس میں رسک ہے اور اس کو یہ آرڈر دیا گیا ہے کہ آپ جہاز اسلام آباد لے جاؤ، وہاں سے اس خرابی کو ٹھیک کر لیا جائیگا۔ پائلٹ بے چارے نے مجبوری میں   حامی بھر لی ہے اور جہاز تھوڑی دیر میں پرواز لے گا۔ میں نہیں جانتا تھا کہ اس بات میں کتنی سچائی ہے مگر میری حالت دیکھنے والی تھی۔ آپ کو کچھ نہ پتہ ہو تو چلتا ہے مگر اس کےبعد سے میرا جہاز میں سوار ہونا یقیناً بےوقوفی تھی۔ مجھے فیصلہ کرنا تھا۔ آخر کو پائلٹ جہاز کی طرف بڑھتا دکھائی دیا تو میں نے پائلٹ سے پوچھ لیا کہ کیا جہاز میں واقعی کوئی خرابی ہے جسکے جواب میں پائلٹ زبردستی کا مسکرایا اور اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ لی اور جہاز میں داخل ہوگیا۔ میں بھی جہاز میں آگیا یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ انکے ساتھ ہی جاتا ہوں۔ جہاز میں عملہ اور میرے علاوہ ایک چینی مسافر تھا جہاز نے پرواز بھری اور میں مزید دو گھنٹے کانٹوں بھری سیٹ (محاورتاً)پر پریشانی کے عالم میں بیٹھا رہا جبکہ میرا چینی ہمسفر ان سب باتوں سے بےخبر کانوں میں ہیڈ فون لگائے مزے اور سکون سے بیٹھا پی آئی اے کی اس فلائیٹ کو انجوائے کرتا رہا۔

یہ واقعہ آج کے تناظر میں لکھنے کا مقصد یہی تھا کہ اس قسم کے واقعات پی آئی اے کی تاریخ میں شاید بھرے پڑے ہیں۔ جن کو پی آئی اے کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ کہتے ہیں کہ سیفٹی پیرامیٹرز فالو نہ کرنے پر سو میں سے کوئی ایک دن  آپ کے خلاف جاسکتا ہے اور وہ دن شاید کل کا دن تھا۔

کیا پی آئی اے کے موجودہ سربراہ کا سہگل صاحب (سابقہ سربراہ) کی طرح اس حادثے کے بعد استعفی دینا نہیں بنتا تھا؟

جن کے پیارے اس دنیا سے چلے جاتے ہیں انکا پرسان حال کون ہوگا اور کیا صرف پیسہ دے دینے سے انکا کرب ختم ہوجائے گا؟

یہ 100 لوگ (قریباً) جو اس حادثے کا شکار ہوئے ہر ایک کی اپنی کہانی ہوگی۔ ہر ایک کے لواحقین کرونا کے پچھلے دو ماہ کے لاک ڈاؤن کے بعد عید کی صورت میں اپنے پیاروں  سے ملنے کی راہ تکتے ہوں گے۔ کوئی باپ اپنے بیٹے کو، کوئی ماں اپنی بیٹی کو لینے خوشی سے ائیرپورٹ آئے ہونگے۔ ان سب پر کیا بیتی ہوگی۔۔

کیا مبینہ طور پر کی گئی مجرمانہ غفلت عمدا ًقتل کے مترادف نہیں؟

میں سینکڑوں دفعہ ماڈل کالونی جاچکا ہوں۔ کئی دفعہ ایئر پورٹ اور ماڈل کالونی کے درمیان لب سڑک سیکنڈ وائف ریسٹورینٹ پر بیٹھتا رہا ہوں۔ یہاں بیٹھ کر سامنے رن وے نظر آتا ہے۔ بہت دفعہ جہازوں کو لینڈ کرتے ہوئے یہاں سے دیکھا ہے اور اب سے پہلے یہ منظر بہت بھلا لگتا تھا۔ سوچتا تھا کہ لینڈ کرتے جہاز میں موجود مسافر خوشی سے بے چین ہوجاتے ہوں گے کہ بخیروعافیت اپنی منزل پر پہنچ گئے ہیں۔ یہ سلسلہ تو اب بھی جاری و ساری ہے اور رہے گا بھی مگر شاید اب کے بعد میں وہاں ریسٹورینٹ پر بیٹھ نہ پاؤں، کیوں کہ مجھے وہ موت کا خوف، وہ جہاز کی کریش لینڈنگ، مسافروں کی موت کے خوف سے نکلتی چیخ و پکار اور جہاز کی زمین کے  ساتھ ٹکرانے کی خوفناک آواز اور دھوئیں کے بادل بہت بےچین کرتے رہیں گے۔ شاید ان بدنصیب مسافروں کی اصل منزل انکی دنیاوی منزل سے ایک منٹ پہلے اسی طرح لکھی تھی۔ یہ بھی سچ ہے کہ جہاز کریش میں کوئی مسافر زندہ بچ جائے تو یہ ایک معجزہ ہی ہوتا ہے۔ اور پھر تین لوگوں کا زندہ بچ جانا انتہائی خوشگوار حیرت کا باعث ہے۔

کیا ان سب کا جواب کوئی دے گا یا انویسٹی گیشن کمیٹی اپنی رپورٹ پیش کردے گی اور پھر معاملہ ٹھپ کردیا جائیگا۔

کیا گورنمنٹ کی طرف سے بنایا گیا تحقیقاتی بورڈ جس میں پاکستان ائیر فورس کے سینئر آفیسر بھی شامل ہیں اپنے ادارے کے ایک موسٹ سینئر آفیسر اور موجودہ پی آئی اے کے سربراہ کے بارے میں کوئی غیر جانبدار تحقیقاتی رپورٹ لکھ پائیں گے؟

یہ سب سوال ہیں جن کا اب جواب دینا ضروری ہے۔ میں   پاکستان کا ایک  ذمہ دار شہری ہوں میرے پاس یہ قانونی حق موجود ہے جو مجھے میرے آئین نے دیا ہے کہ مجھے ان سب سوالات کا تسلی بخش جواب دیا جائے۔ میں ان سوالات کے جوابات کا منتظر ہوں اور میری یہ آواز پاکستان کے ہر شہری کی آواز ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دعا ہے اللہ پاک ان بدنصیب مسافروں کی مغفرت فرمائے، ان کے لواحقین کو صبرجمیل عطا فرمائے۔ ہم سب کو اپنی اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے انجام دینے کی توفیق دے اور ہم سب کو ایسے حادثات، آفات و بلیات سے محفوظ فرمائے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply