• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • اکتیس اکتوبر جنم دن کی مناسبت سے۔۔کامریڈ جام ساقی کی یادیں/سجاد ظہیر سولنگی

اکتیس اکتوبر جنم دن کی مناسبت سے۔۔کامریڈ جام ساقی کی یادیں/سجاد ظہیر سولنگی

سماج میں ہر طرح کے فرق کے خلاف ہماری تاریخ میں بہت سی تحریکیں نظر آتی ہیں، کمزور ہی سہی لیکن، ان تحاریک نے جدوجہد کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیا۔انہوں نے مظلوم اور محکوم انسانوں کوہر طرح کی بحرانی کیفیتوں میں سے نکالنے کی کوشش بھی کی ہے۔ان تحریکوں نے سماج میں برداشت کے رویوں کو پروان چڑھایا۔ وہ تحاریک جنہوں نے عوامی مورچوں پر اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ وہ مورچے سماجی تاریخ کے بہت بڑے باب بن گئے۔ ایسی تحریکوں کے دو نمونے تھے۔ ایک وہ تحریکیں جو بالائی طبقے سے شروع کی گئی۔ دوسری وہ تحاریک جو نچلے طبقات نے اپنی مدد آپ کے تحت شروع کی۔ خاص طور ان تحریکوں نے پسے ہوئے اور مظلوم طبقے کی خوشحالی کے لیئے عوام کو متحرک اور منظم کیا۔ان میں بائین بازو کی تحریکوں نے بہت بڑا کردار ادا کیا۔

کمیونسٹ پارٹی ہندوستانی سیاست میں عوامی تحریک کی بنیاد ڈالنی والی جماعت سمجھی جاتی ہے۔محنت کشوں میں یونین سازی، کسان تنظیمیں، ادیبوں کی جماعتیں، یہ سب عوام کو جوڑنے کا کام تھا۔ برِصغیر میں اس ترقی پسند قافلے نے بڑے بڑے اُس دور کے خانزادوں، سرداروں، نوابوں، پنڈتوں اور جاگیرداروں کو تبدیل کردیا۔ انہوں نے خود کو ڈی کلاس کرکے مختلف محاذوں پر کسانوں، محنت کشوں، عوام دوست ادیبوں اور مظلوم خواتین کے حقوق کی جدوجہد میں عام انسان کے ہمراہ کھڑا کردیا۔ مسلم –ہندو فرق والی سیاست اور کانگریس کے رومانوی جتھوں کے ہوتے ہوئے اشتراکی سیاست نے اپنی بنیادیں مضبوط کی۔یہ برِصغیر کے عام لوگوں کی فتح تھی، تعمیر ِ پاکستان کے بعد اسی عوام دوست فکر کے راہنماؤں کہ جس میں سید سجاد ظہیر، سید سبط حسن، فیروز الدین منصور، ایرک سپرین، میجر اسحاق، سوبھو گیانچندانی، سی آر اسلم اور دیگران وطن پرست اور عوام دوست انقلابیوں کے نام گنوائے جا سکتے ہیں، جو اس ملک میں انقلابی سیاست کو پروان چڑھانے میں عملی کردار ادا کرتے رہے۔

یہ تمام نام ” سْرخ سیاست” کے خلاف بنائے گئے پنڈی سازش کیس میں بہت بڑے جبر کا شکار رہے۔ جیل کی سختیاں برداشت کیں۔ جیل سے آزاد ہونے کے بعد ماسوائے ایک چند کے سیاست کی، باقی تمام نے ادب کو ہی اپنا مسکن بنایا۔ اور اسی محاذ پر ایک عوامی ادب اور تاریخ کو فروغ دیا۔ان کی فکری تحریروں اور نظریات کی مثالیں ان کے مخالفین بھی دیا کرتے ہیں۔ ایک طرف سے اس وقت بائیں بازو کی سیاست جیسے دب گئی تھی، اور بورزوا سیاسی جماعتوں میں پناہیں لی گئیں۔ خاموشی کے ایسی فضا کو ایک شخص نے توڑا، جس کا نام جام ساقی تھا۔ جو بعد میں کامریڈ جام ساقی کے نام سے جانا گیا۔ آپ نے تھر پارکر جیسے پسماندہ علاقے سے خاموشی کو توڑتے ہوئے سامراج کو خبردار کیا۔ اپنے پختہ ارادوں سے ایسے مقبول ہوئے کہ گلی گلی میں ” تیرا ساتھی میرا ساتھی، جام ساقی جام ساقی ” کے گونجتے نعروں نے صدا دی اور وہ محکوم و مظلوم عوام میں اپنی ایک الگ پہچان بناتے گئے۔ جام ساقی جو کہ رواں سال5 مارچ کو ہم سے بچھڑ گئے۔اور اسی اکتوبر کی 31 تاریک ان کا یوم ٰ پیدائش ہے۔ جام ساقی کے جدا ہونے پر ملک میں محنت کشوں اور جمہوریت پسندوں کی جانب سے انہیں خراج تحسین پیش کیا گیا۔ اور وہ اپنے بہت بڑی طویل جدوجہد پر ایسے خراج تحسین کا حقدار بھی تھا۔ ہر شخصیت کے مختلف پہلو ہوا کرتے ہیں ٹھیک اسی طرح جام ساقی کی زندگی میں بھی بڑے بڑے اتار چڑھاؤ نظر آتے ہیں۔ تاریخ کے طلبہ اور ان کے سیاسی رفیق ان پر ضرور قلم اٹھائیں گے، جو ان کا حق بنتا ہے۔جام ساقی سے ہم نے کتنا انصاف کیا یا اوروہ عوامی سیاست سے کتنا انصاف خود جام ساقی کس حد تک کرسکے، اب اس کا فیصلہ تاریخ اور تحقیق کے طالبِ علموں پہ چھوڑ دیتے ہیں۔ لیکن انہیں جو مہانتا تاریخ میں ملی وہ ہر ایک سیاست دان کو نہیں مل پائی، وہ چند سیاسی راہنما کہ جن کو انگلیوں پہ گنا جاسکتا ہے۔جام ساقی ان میں سے ایک تھے۔

جام ساقی جس کا اصل نام محمد جام تھا۔ آپ کا جنم تھرپارک کے ایک استاد سائیں محمد سچل کے گھر میں 31 اکتوبر 1944 ئئ کو گا ؤں جنجھی، تحصیل چھاچھرو ، ضلعہ تھر پارکر میں ہوا۔سیاست آپ کا مضمون تھا۔ یہ وہ دورتھا جب کالیج میں طلبہ سیاست اپنے عروج پر تھی۔ جام ساقی اعلیٰ تعلیم کے لیے جب حیدر آباد پہنچے تو طلبہ سیاست میں شامل ہوگئے۔ آپ ”حیدر آباد اسٹوڈنٹس فیڈریشن“ کے جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے۔ طلبہ مسائل پر سرگرم کروائے، تعمیری کردار ادا کیا۔ آپ نے طالب ِ علمی کے زمانے میں ایک طرف بنگال اور اس کے ساتھ جڑے ہوئے قومی زبان کے حوالے سے اٹھنے والے سوال کو سمجھنے کی کوشش کی، دوسری طرف ون یونٹ کے خلاف چلنے والی سیاسی تحریک نے آپ کے ذہن میں بہت سے سوالات کو جنم دیا۔ تیسری طرف قومی سوال نے انہیں سوچنے پر مجبور کر دیا تھا۔ چوتھا سوال بھوک اور افلاس کے مارے مظلوم و محکوم وں کے دْکھ اور درد تھے۔ ایسے ماحول میں میں جام ساقی نے سمجھ لیا کہ طلبہ کو، سندھ میں جاری اس پسماندگی کے خلاف متحد کیا جائے۔ سندھ کے ترقی پسند طلبہ سے ملکر آپ نے ”سندھ نیشنل اسٹونٹس فیڈریشن“کی بنیا رکھی۔ آپ اس کے صدر چنے گئے۔ یہ وہ دن تھے جب ملک ملک میں قومی سوال اپنی طاقت سے جڑیں مضبوط کر رہا تھا۔ مشرقی پاکستان(بنگال) میں وہ تحریک سب سے آگے تھی۔ جب سندھ میں بھی اس ی سوال پر احتجاجی مظاہرے اور جلوس جاری تھے۔بنگال کے سوال پر آپ کے پریس بیان نے ملک میں آگ لگادی، جو کے تھم جانے کے بجائے ایسی بڑھی کہ کے جام ساقی کو روپوش ہوکر جدوجہد کرنی پڑی۔ اس دور کی فوجی عدالتوں نے انہیں جیل میں ڈال ڈیا تاکہ یہ آواز ڈر کے مارے بند جائے، جیل جو کو اس وقت سیاسی قیدیوں کے لیے نظریاتی تربیت گاہ تھا۔ آپ کی ملاقاتیں مختلف ترقی پسند راہنماؤں سے ہوئیں۔جنہوں نے کامریڈ جام ساقی کے ذہن کو نظریاتی فلاسافی سے نا صرف تبدیل پر متحرک بھی کیا۔

یہ وہ دن تھے جب نظریاتی سیاست کرنے والی سْرخ پارٹی پر پابندی آئد تھی۔ ملک کے ترقی پسندوں اور جمہوریت پسندوں نے ملکر نیشنل عوامی پارٹی (NAP) بنائی تھی۔ جام ساقی جو کے اب مکمل طور پر کامریڈ بن چکے تھے۔ وہ NAPمیں شامل ہو گئے۔ اس وقت آپ کی نامور اشتراکی اور ترقی پسند راہنماؤں سے ملاقاتیں ہوئی، جن سے آپ کو سیکھنے کا موقع میسر ہوا۔ پاکستانی سیاست پر روشن خیال اور ترقی پسندسیاست کے اثرات بڑھتے جا رہے تھے۔ جنہوں نے کامریڈ جام ساقی کی نظریاتی تربیت میں بڑا کردار ادا کیا۔ جنرل ضیاء کے آمریتی دور میں ترقی پسند سیاست ریاستی جبر کا شکار رہی۔ کامریڈ جام اسی تمام مارشل لا کے دور میں پابندِ سلاسل رہے۔ مختلف سیاسی کارکنان، جن میں ترقی پسند اور جمہوریت پسند شامل تھے، ان پرعُقُوبت خانوں میں سخت تشدد کیا گیا۔ آپ کے ساتھی کامریڈنذیر عباسی کو بھی اسی قتل گاہ میں سخت تشدد کا نشانہ بناکر قتل کردیاگیا۔سوشلسٹ تحریک کا یہ قافلہ جس کی قیادت کامریڈ جام ساقی کر رہے تھے، آمریت کے ایسے ہتھکنڈوں کے باجود، ایک پل کے لیئے بھی کہیں نہیں رکا۔ ڈکٹیٹرشپ سیاہ دور میں بھی بھی آپ ایک نئی صبح کو تلاش کرتے رہے اور لڑتے رہے۔ آپ کی اہلیہ کی دْکھ دائک وفات نے بھی آپ کو کمزور ہونے نہیں دیا۔ کامریڈ جام ساقی آمریتی پہاڑوں سے لڑتے رہے۔

تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ 90 کی دہائی کے دوران پاکستان میں جہاز اغوا کرنے والے واقع کے بعد کامریڈجام ساقی کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا۔جو آپ نے مسترد کرکے اپنے الگ سیاسی طریقہ کارکی ثابتی دی۔ اس عمل سے عوام میں یہ تاثر بھی گیا کہ آپ کسی بھی ایسی تخریب کار سیاست کا حصہ نہیں بنیں گے، جسے عوام قبول نہیں کرتی۔جس مقدمے میں کمیونسٹ پارٹی کے تمام راہنماؤں کو جیل میں بند کردیا گیا۔اس میں ان قوتوں کو ناکامی ہوئی۔ آمریت کا سورج غروب ہوا، ایک نئی صبح نے جمہوریت کی بحالی میں کروٹ لی۔ عدالت کے منصفوں کو کچھ خیال آیا، جمہویت پسند قافلے کے یہ سوشلسٹ لیڈر ان اپنے تمام ساتھیوں کے ہمراہ آزاد ہوئے۔ ایک طرف آپ کے پیچھے لاکھوں لوگوں نے چلنے کی ٹھان لی، دوسری طرف آمریت کے بادشاہ جہاز کے بم دھماکے میں ایسے تباہ ہوئے کے ان کی پہچان ہی نہ قائم رہ سکی۔ ہر طرف جمہوریت کے فتح کے شادمانے بجنے لگے۔ کمیونسٹ پارٹی منظر عام پر آگئی اور اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیاگیا۔ آپ نے سیکرییٹری جنرل کی حیثیت سے ملک کے دورے کیئے۔ پورے ملک کے ساتھ آپ کا سندھ میں بھی والہانہ استقبال کیا گیا۔ہر طرف خوش آمدید کے انقلابی نعرے گوجنتے رہے۔

1988 ء میں جب آپ راقم کی جنم بھومی مورو شہر میں آئے تو آپ کا فلگ شگاف نعروں سے استقبال کیا گیا۔ پاؤں رکھنے کی جگہ نہیں تھی۔ میں نے پہلی دفعہ کامریڈ جام ساقی کو مورو شہر میں دیکھا۔اس وقت اشتراکی پارٹی کے مختلف فرنٹس جن میں سندھ ہاری کمیٹی، ڈیموکریٹک اسٹوڈینٹس فیڈریشن، ساتھی بارڑا سنگت (ساتھی نونہال سنگت) شامل تھے۔ راقم بچوں کے ونگ(ساتھی بارڑا سنگت) میں سرگرم تھے۔ مجھے کامریڈ جام ساقی سے ملنے کے بہت سے مواقع میسر ہوئے۔ یہ 1991 ء سال اور21 مئی کی شب تھی کہ دادو کے شہر کے میونسپل پارک میں کسان راہنما بابائے سندھ حیدر بخش جتوئی کی اکیسویں برسی منائی گئی تھی۔ٹھیک اسی رات ہندوستانی وزیر اعظم راجیو گاندھی کو خودکش بم دھماکے میں قتل کردیا گیا تھا۔ برسی کی تقریب کا منظر ہی تبدیل ہو چکا تھا۔ کامریڈ جام ساقی نے اپنے نظریاتی فن اور فکر سے اس تمام منظر نامے خاص طور پر ایشیائی سیاست پر اس کے اثرات کے پیش و نظرسائنسی نقطہ نگاہ سے بات کرتے رہے، ہمیں سمجھاتے رہے۔

کامریڈ جام ساقی سے اس سے پہلے ایک ملاقات نواب شاہ کے شہر دوڑ میں ہوئی۔ یہ غالباً 1989 ء کا سال تھا۔ ڈیموکریٹک اسٹوڈینٹس فیڈریشن کی جانب سے شہید نزیر عباسی کی نوین برسی کی تقریب منعقد کی گئی تھی۔تقریب کی نظامت ہمارے دوست عبدالرحمن عبداش پنہورنے کی۔ جب کے صدارت ڈی ایس ایف کے چیئرمین کامریڈ خادم تھہیم نے کی۔ آپ اس جلسہ عام کے مہانِ خصوصی تھے۔ مارکسی استاد اور شاعر سید رشیداحمد شاہ رضوی ایڈووکیٹ اور دیگران راہنما بھی شامل تھے۔جلسے کا پنڈال انجنیئرنگ گراؤنڈ میں لگایا گیا تھا۔ ہم نے انہیں وہاں سنا تھا۔کامریڈ جا ساقی کے ہونے والے پرجوش استقبال ہمارے چھوٹے ذہنوں کو پریشان کر دیتے تھے۔ ہم سوچھا کرتھے، یہ تیرا ساتھی میرا ساتھی اور یہ جا ساقی جام ساقی نہ فلمی اداکار، نہ کرکیٹر ہے!؟پھر بھی یہ پھٹے کپڑے، پیدل چلنے والے لوگ اس کے جلسے میں کیوں آتے ہیں؟ سوچھا کرتے تھے یہ جام ساقی شاید ان سب سے اْ تم چیز ہے، سید رشید شاہ ایڈووکیٹ جو مرتے دم تک سوشلزم سے جڑے رہے۔ نواب شاہ میں ان کے گھر پر جام ساقی کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں نے ہمارے چھوٹے ذہنوں کو سوشلسٹ نظریات کے ساتھ مضبوطی سے جوڑا۔

مجھے یاد ہے وہ چاہے پہلی مئی کی یاد، عظیم اکتوبر انقلاب کی سالگرہ، مارکس اور لینن کے نام پر ہونے والی نشستیں، کمیونسٹ پارٹی کی ذیلی تنطیموں کے کنوینشن، بچوں کے میلے، کسان کانفرنسیں یہ سب پروگرام کامریڈ جام ساقی کی آمد کے بغیر ادھورے بن جاتے تھے۔ان تمام تقاریب میں لگنے والے فلگ شگاف سامراج مخالف اور انقلاب زندہ باد نعرے آج بھی ہمارے کانوں سے ٹکراتے ہیں، تو ہم اپنے اسی بچپن کی یادوں میں چلے جاتے ہیں۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب کامریڈ جام ساقی کی سیاست میں تبدیلی آئی۔ سوویت کا تحلیل ہوجانا، بل آخر سرخ ریاست کا ختم ہوجانا، اور جام ساقی نے کمیونسٹ پارٹی کو خیر آباد کیا۔
دیکھا جائے تو پاکستانی کا سب سے بڑا سوال جمہوریت تھا۔ اور لیفٹ نے جمہوریت کی بحالی کے لیئے بہت بڑی قربانی بھی دی۔ جام ساقی جمہوری سوال پر مضبوطی سے ڈٹے رہے۔ آپ نے ہم خیال ساتھیوں کے ساتھ ملکر ” جمہوری تحریک ” کی بنیاد ڈالی۔سندھ کی آخری کونے (سندھ –پنجاب کی سرحد) ریتی سے لانگ مارچ کیا۔جس کا مقصد امن کی بحالی کو یقینی بنانے کے لیے وقت کی حکومت پر دباؤ ڈالنا تھا۔ ہم نے اپنے بچپن کے دنوں میں اس لانگ مارچ میں بڑھ چڑھ کر حِصہ لیا۔سیکڑوں میل چلے کیوں کہ کامریڈ جام ساقی ایک رْومانس تھے۔انہیں چھوڑنا ہمارے لیئے مشکل تھا۔ مختلف تقاریب میں ان سے ملاقاتیں ہوا کرتی تھیں۔ کامریڈ مجھے ہمیشہ دور سے پہنچانتے تھے۔ اور اپنے ساتھ بٹھاتے تھے۔ آپ کی سیاست سماجی تفرق کو مٹانے کے لیئے ہمیشہ جاری رہی۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا، کہ آپ کو کوئی بھی تبدیل نہیں کرسکا۔ جو بات آپ کے سمجھ میں نہیں آئی آپ نے جھوٹا کا ڈرامہ رچانے کے بجائے، آپ نے انکار کر کیا۔ لیکن سوشلزم کے نام پر کاروبار نہیں کیا۔ آپ نے آمریتی عقوبت خانوں میں جو تشدد برداشت کیا ہے، ہم میں تو ایسی روئے داد سن کی بھی جرآت نہیں۔اس تشدد نے کامریڈ جام ساقی کے ذہن کو مفلوج کیا۔ مجھے یاد ہے کہ وہ 1993 ء کا زمانہ تھا لاڑکانہ میں کامریڈ جام ساقی ایک تقریب میں شامل تھے، جہاں ان پر برین ہیمریج کا حملہ ہوا، ڈاکٹروں نے لاعلاج کردیا۔ تمام سندھ میں آپ کے چاہنے والوں نے بیروں ملک میں علاج کرنے کے لیئے مظاہرے کیئے۔ وقت کی جمہوری حکومت کو خیال پڑا اور کامریڈ جام ساقی کو علاج کے لیئے سرکاری خرچ پربیرونٰ ملک بھیج دیا گیا۔ جمہوریت کے اس عظیم اس عظیم راہنما کا علاج بیرون ملک سے کروایا گیا۔ علاج ضرور ہوا، زندگی واپس ملی لیکن ذہنی اور جسمانی پسماندگی وہی رہی۔ جس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اور اس کا اندازہ بہت سال بعد 1999 ء کے کسی دن نسیم نگر (حیدرآباد) میں ان کی رہائش گاہ پر ہونے والی ملاقات میں ہوا۔کامریڈ جام ساقی نے مجھے نہیں پہچانا۔ ان کی طبیعت میں وہ خمار نظر نہیں آیا۔ معلوم ہو گیا کہ ان کی جدوجہد جتنی جفاکش ہم میں موجود نہیں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کامریڈ جاساقی اگر تندرست رہتے تو، ضرور پھر بورزوا سیاست کے متبادل لیڈر ہوتے۔ آج ہماری سیاست ہم سے بھی سوال کرتی ہے، کہ ہم کہاں کھڑے ہیں!؟۔ کامریڈ جام ساقی نے جہاں عوام دوست نیشنلسٹ قوتوں سے اتحاد اور آمریت نواز قوم پرستوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔وہاں جاگیرداروں کے خلاف کسانوں اور سرمایہ داروں کے خلاف مزدوروں کو بھی متحد اور منظم کیا۔ وہ زندگی کے ہر موڑ پر سوشلزم کو ہی عام انسان کی نجات دہندگان سمجھتے رہے۔ وہ کہتے تھے کہ میں سوشلزم کی طرف اپنے راستے سے جاؤں گا۔انہیں پکا یقین تھا پسے ہوئے طبقات کی آزادی برابری کے نظام میں ہے۔ آپ کی طویل جدوجہد اور عظمت اس بات کی پہچان ہے۔ وہ یہ کہ اسی سال ان کے جدا ہونے پر ملک کے کی تمام زبانوں کی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی جانب سے دی جانے والی کوریج آپ کی عظمت کا ایک اور مضبوط ثبوت ہے۔ آپ کے اعزاز میں ہونے والی تقاریب اس بات کی گواہی تھیں کے لوگ آپ کے ساتھ چلنا چاہتے تھے، ہاں ایک بات ضرور ہے کہ اگر کامریڈ جام ساقی سرخ جھنڈے کی سیاست سے جڑے رہتے، جیل سے رہا ہونے کے بعدان کی اپنی صحت ان کا ساتھ دیتی تو آج ملک میں محنت کشوں کی سیاست کسی فیصلہ کن موڑ پر ہوتی۔کامریڈ جام ساقی جس پر بہت سے حلقوں کے سوال ہیں، اور ہونے چاہیے۔ سوالات سماجی سائنس کی بنیاد ہیں، کامریڈ جام ساقی اپنی جدوجہد کے مختلف ادوار پورے کرکے ہمیشہ کے لیئے دھرتی مان کی آغوش میں سو چکے ہیں۔ہمیں اپنے حصے کی شمع باقی جلانی ہے۔آئیے آج ان کے بغیر منائے جانے والے جنم دن پر انہیں ان کی طویل جدجہد پر اختلاف کو الگ رکھ کر یاد کریں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply