بدن (63) ۔ سوجن/وہاراامباکر

جب جسم اپنا دفاع کر رہا ہوتا ہے تو اس جنگ کی حرارت کا ایک نتیجہ سوجن ہے۔ زخم کے قریب خون کی رگیں پھیل جاتی ہیں تا کہ زیادہ خون اس جگہ تک پہنچ سکے۔ اور خون کے ساتھ سفید خلیوں کی صورت میں فوج کو کمک بھی۔ یہ حملہ آوروں سے نپٹ سکیں اور اس کا نتیجہ اس حصے کے پھول جانے کی صورت میں نکلتا ہے۔ اس کی وجہ سے قریب کے اعصاب پر پریشر پڑتا ہے جسے ہم یہاں پر ہونے والی کسک کے طور پر محسوس کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سرخ خلیوں کے برعکس سفید خلیے دورانِ خون کے نظام کو چھوڑ کر قریبی ٹشو میں گھس سکتے ہیں، جیسے کوئی فوج جنگل میں گشت کر رہی ہو۔ جب انہیں کوئی گھس بیٹھیا مل جائے تو یہ کیمیائی حملہ کر دیتے ہیں جو سائیٹوکائن ہیں۔ اور یہ آپ کو نڈھال کر دیتا ہے۔ بیماری میں ہونے والی نقاہت انفیکشن کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ یہ آپ کے بدن کا اپنا دفاع کرنے کی وجہ سے ہے۔ اور زخم سے نکلنے والی پیپ محض مردہ سفید خلیات ہیں جو آپ کو بچانے کے لئے اپنی جان گنوا بیٹھے۔
سوجن ایک نازک شے ہے۔ زیادہ ہو جائے تو یہ قریبی ٹشو کو گزند پہنچا دیتی ہے اور غیرضروری تکلیف کا باعث بنتی ہے۔ اگر کم ہو جائے تو یہ انفیکشن روکنے میں ناکام ہو جاتی ہے۔ غلط سوجن کئی بیماریوں کا باعث ہے۔ کئی بار امیون سسٹم اتنا فعال ہو جاتا ہے کہ یہ اندھا دھند اپنے میزائل فائر کرنے لگتا ہے۔ یہ سائٹوکائن طوفان ہے۔ اور یہ آپ کو مار دیتا ہے۔ ایسا کئی وبائی امراض میں دیکھنے میں آتا ہے (کووڈ ۱۹ کی اموات بھی اسی وجہ سے ہوئی ہیں)۔ لیکن سخت الرجی والے ری ایکشن میں بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، کچھ لوگوں میں شہد کی مکھی کے کاٹنے سے بھی ایسا ہو سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امیون سسٹم میں خلیاتی سطح پر جو کچھ ہوتا ہے اس کی ہمیں زیادہ اچھی سمجھ نہیں ہے۔ برائسن بتاتے ہیں کہ امیونولوجی کی لیبارٹری کے دورے میں کئی پوسٹ ڈاکٹریٹ سکالرز کمپیوٹر سکرین پر ایک ہائی ریزولیوشن تصویر بغور دیکھ رہے تھے۔ ان میں سے ایک نے بتایا کہ ایک چیز انہوں نے ابھی دریافت کی ہے۔ یہ خلیے کی سطح پر بننے والا پروٹین کے چھلے ہیں جو یہاں بکھرے ہوئے ہیں جیسے روشندان ہوں۔ اس لیبارٹری سے باہر انہیں کسی نے نہیں دیکھا۔
تحقیق کرنے والے سکالر کہتے ہیں، “یہ تو ظاہر ہے کہ یہ کسی وجہ سے ہی بنے ہیں لیکن ہمیں معلوم نہیں کہ وجہ کیا ہے۔ یہ اہم ہو سکتی ہے، یا پھر بالکل ہی غیراہم ہو سکتی ہے۔ ہمیں اس کا پتا لگانے میں چار سے پانچ سال لگ جائیں گے۔ اور یہی تو چیز ہے جو سائنس کو بیک وقت بہت دلچسپ بھی بناتی ہے اور مشکل بھی”۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply