14 اگست گذر گئی

عروبہ طاہر
ہر سال 14 اگست کے دن کو ہم جشن آزادی کے نام سے مناتے ہیں، جشن کے لفظی معنی کسی چیز کی خوشی منانے کے ہیں، اور آزادی کا مطلب۔۔ اس پر ہمیں سوچنا پڑے گا کہ آزادی کا مطلب کیا ہے؟ اپنی ایک دوست سے میں نے پوچھا آزادی کا مطلب کیا ہے؟ اس کا جواب تھا آزادی کا مطلب ہے کہ انسان کھل کر جی سکے!قائد اعظم کے نزدیک آزادی کا مطلب کیا تھا یہ اندازہ ان کے 11 اگست 1947 کو کراچی میں آئین ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس کےتاریخی خطاب سے لگایا جا سکتا ہے۔ جس میں انہوں نےپاکستان کے بارے میں اپنے تصورات کے بنیادی نکات پیش کیے۔ مذہبی آزادی کے موضوع پر انہوں نے کہا۔
مملکت پاکستان میں آپ اپنے مندروں میں جانے کے لیے آزاد ہیں آپ اپنی مساجد اور کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے آزاد ہیں آپ کا تعلق خواہ کسی بھی مذہب ،عقیدے یا ذات سے ہو اس کا ریاست کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہم سب ایک مملکت کے برابر کے شہری ہیں۔
مگر افسوس کے ساتھ 70 برس گزر جانے کے باجود خوف کی فضا آج بھی قائم ہے، تقسیم کے وقت جب ہندوستان سے نکلے تھے ، تب بلوائیوں کا خوف تھا، آج جب ہمارے پیارے اپنے گھر سے نکلتے ہیں تو یہ خوف ہوتا ہے کہ وہ گھر واپس آ بھی سکیں گے یا نہیں!ہماری آزادی کی تعریف کبھی کبھی خود ہماری بھی سمجھ نہیں آتی، ہماری چھ سال کی بچی کو زیادتی کا نشانہ بنا کر اس کی نسیں کاٹ کر پھینکنے والا مجرم قانون کی گرفت سے آزاد ہے، ہمارے لوگ سڑکوں پر قانون کا مذاق اُرانے کے لیے آزاد ہیں، ہمارے احباب اکثر سڑک کنارے لُٹ جاتے ہیں ، کیونکہ انہیں لوٹنے والا آزاد ہے!
بم دھماکوں میں معصوم لوگوں کی جانے لینے والے اپنی ٹوٹی ہوئی کمر کے ساتھ آزاد ہیں، کسی بھی سرکاری ادارے میں اپنا کام نکلوانے کے لیے رشوت دینے اور لینے کے لیے ہم آزاد ہیں!
ہم آزاد ہیں کہ 14 اگست والے دن جشن کے نام پر ہلڑ بازی کو فروغ دے سکیں، ہم آزاد ہیں کیونکہ ہمارے نوجوان اپنی موٹر سائیکلوں کے سائیلنسر نکلوا کر آزادی سے ون ویلنگ کے کرتب د کھاتے ہیں ! موٹر سائیکل کے سائلنسر یہ چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ ہم آزاد ہیں!ہر سال ہم جشن آزادی مناتے ہیں ، اپنی سڑکوں اور گلیوں کو سجاتے ہیں، بڑی محنت سے ایک اسٹیج تیار کرتے ہیں اور جب سب کچھ تیار ہو جاتا ہے تو بد نظمی سے ہر چیز کو برباد کر دیتے ہیں، ہم سب مل کر 14 اگست والے روز دو ماہ کے برابر کچرا، اپنے اطراف میں چھوڑ دیتے ہیں۔
ہم سب آزادی کے نام پر اپنی خواتین پر آوازیں کستے ہیں ، ان کی بے حرمتی کرتے ہیں، 14 اگست کے دن ہم ایک خوف کے عالم میں گذارتے ہیں کہ کہیں کچھ ہو نا جائے! اکثر لوگ اسی ہلڑ بازی کی وجہ سے باہر نہیں نکلتے! خواتین کی اکثریت اس روز باہر نہیں نکلتی، جشن آزادی گذر جانے کے بعد کہتے ہیں کہ اب باہر نکلا جا سکتا ہے، ہم آزاد ہیں 14 اگست گذر گئی، اب ٹریفک جام نہیں ملے گا کوئی کان کے نزدیک باجا نہیں بجائے گا! کیونکے آزادی کا دن گُزر گیا!
نوٹ:عروبہ طاہر طالب علم ہیں اور سماجی مسائل پرلکھنا پسند کرتی ہیں۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply