ملٹری مائنڈ سیٹ کیسے کام کرتا ہے ۔۔۔۔طارق احمد

یہ جاننے کے لیے کہ ملٹری مائنڈ سیٹ کیسے کام کرتا ہے۔ ہمارے لیے یہ سمجھنا اور جاننا ضروری ہے کہ ایک ملٹری مائنڈ سیٹ ہے کیا، یہ کیسے وجود میں آیا اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں کیا تبدیلی یا ڈویلپمنٹ ہو رہی ہے۔ اسی سے اس کی ورکنگ بھی سمجھ آ جائے گی۔ یہ بتاتا چلوں کہ  ملٹری مائنڈ سیٹ کے کوئی  خاص قوائد یا فارمولے  نہیں ہیں۔ یہ ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے۔ جس کے تحت یہ مائنڈ سیٹ تشکیل پاتا ہے۔ پاکستان کی فوج کا ملٹری مائنڈ سیٹ مندرجہ ذیل خصوصیات پر مشتمل ہے۔ جو اس مخصوص  ذہنی کیفیت کو ترتیب دیتا ہے۔

1۔ تفاخر
فوج کا ہر افسر اور جوان نہ صرف خود پر بلکہ اپنے ادارے پر بے بہا فخر محسوس کرتا ہے  اور اس فخر کی بنیاد اس سوچ پر ہے کہ وہ اور اس کا ادارہ نہ صرف اپنی ہیت اور ورکنگ میں بہترین ہے  بلکہ باقی تمام سویلین اداروں سے بلند اور اعلی مقام پر ہے  اور اپنے ملک کے لیے سب سے زیادہ خدمات سرانجام دے رہا ہے۔

2۔ مستعد
یہ احساس کہ ہم مستعد ، چوکس اور جاگ رہے ہیں ۔ اور کسی بھی ناگہانی ضرورت، مصیبت ، مشکل اور قومی خدمت کے موقع پر فوری طور پر حاضر ہیں ۔ یہ مستعدی یا فعالیت ادارے اور ملک کے بہترین مفاد میں ہے۔

3۔ منظم
یہ کہ ہم منظم ہیں ۔ ایک ٹیم کی مانند کام کرتے ہیں ۔ حکم بجا لیتے ہیں ۔ اھداف اور ٹاسکس کو وقت پر مکمل کر لیتے ہیں ۔

4۔ ایماندار
ہم دیانت دار ہیں ۔ فرض شناس ہیں ۔ ایمان دار ہیں ۔ ہم کرپٹ نہیں ۔ ہمارا اپنا ایک سخت ترین احتسابی نظام ہے  اور ہم محنتی اور جفا کش ہیں ۔ کام ، دام اور نام دیانتداری اور میرٹ سے کماتے ہیں ۔

5۔ مورال
فوج کا مورال بلند رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ تاکہ افسر اور جوان یکسوئی  ، اخلاقی بلندی اور تفاخر کے احساسات سے جڑے رہیں ۔ اور دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر دم تیار رہیں ۔ میڈیا اور پبلک فورمز پر فوج کے معاملات کو زیر بحث نہ لانے اور اسے قومی مفاد کے خلاف قرار دینے کے پیچھے یہی تفاخر اور مورال ایک وجہ ہیں ۔

6۔ عزت اور احترام
ملٹری مائنڈ سیٹ میں عزت ، احترام، آنر کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اور اس پر کوئی  کمپرومائز نہیں ۔

7۔ ڈسپلن
اس کے بغیر ملٹری مائنڈ سیٹ نامکمل ہے۔ اس کا دوسرا حصہ یہ ہے  کہ سویلینز اس خاصیت سے یکسر عاری اور محروم ہیں ۔

8۔ پروفیشنلزم
یعنی ہم ہر کام میں پیشہ واریت کو مقدم رکھتے ہیں ۔ کوئی  ذاتی پسند، نا پسند نہیں ۔

9۔ صبر ، برداشت اور لگن
یہ خصوصیات ملٹری مائنڈ سیٹ کو جلا بخشتی ہیں ۔ اور جسمانی مشقت کو روحانی کور مہیا کرتی ہیں ۔

10۔ سویلین کرپشن
من حیث الادارہ یہ احساس یا یقین عام سپاہی سے جنرل تک کو ہے۔ سویلینز کرپٹ ہیں اور ان پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔

11۔ سویلین نااہلیت
ملٹری مائنڈ سیٹ اس پر بھی متفق ہے۔ بلکہ اس میں سویلین سکیورٹی رسک بھی شامل کر لیں ۔

12۔ مذہبیت
مذہبیت ملٹری مائنڈ سیٹ کو قرون اولی کے اسلامی ہیروز اور اسلام سے جوڑتی ہے۔ اور جہاد کا فلسفہ مہیا کرتی ہے۔ اس مذہبیت نے قوم پرستی کے احساس کے ساتھ مل کر ملٹری مائنڈ سیٹ کو سخت گیر، کٹر اور بے لچک بنایا ہے۔

13۔ بالادستی
ملٹری مائنڈ سیٹ کی اوپر بیان کردہ تمام خصوصیات احساس برتری اور بالادستی کے تصور میں ڈھل جاتی ہیں ۔ ملٹری مائنڈ سیٹ محسوس کرتا ہے کہ  اسے سویلینز پر برتری اور بالادستی حاصل ہے  اور وہ ملک و قوم کے مفاد اور تحفظ کے لیے نہ صرف بہتر سوچ سکتا ہے، کام کر سکتا ہے بلکہ ضرورت پڑنے پر اقتدار پر براہ راست یا بلواسطہ قبضہ بھی کر سکتا ہے۔ مارشل لاز ، صدارتی نظام ، اقتدار میں شیئرنگ، کنٹرولڈ ڈیمو کریسی یا کٹھ پتلیوں کے ذریعے حکومت کرنا اسی احساس برتری کا نتیجہ ہے۔

ملٹری مائنڈ سیٹ کی ڈویلپمنٹ!
ملٹری مائنڈ سیٹ کی ڈویلپمنٹ یا گروتھ میں پانچ محرکات بہت اہم رہے ہیں ۔

1۔ سویلینز پر بالادستی
اس کا اوپر ذکر ہو گیا ۔
2۔ ملک کو آرمی کی ضرورت ہے۔

مضبوط فوج کے بغیر ملک قائم نہیں رہتے۔ خاص طور پر پاکستان جس خطے میں موجود ھے۔ اور جن دشمنوں میں گھرا ھے۔ ایک مضبوط اور طاقت ور فوج قومی ضرورت ھے۔
3۔ بھارت
بھارت کے ساتھ دشمنی، خدشات، خطرات ، تحفظات اور ممکنات اس ملٹری مائنڈ سیٹ کی بنیاد رہا ہے۔

4۔ جنگجوؤں کی سر زمین
پاکستان اور خاص طور پر شمالی علاقے اور بالائ پنجاب جنگجو قوموں کی قدرتی آماجگاہ ہیں ۔ مذہبیت یا جہادیت کے ساتھ مل کر یہ قدرتی سپلائی ہمیں وہ جنگجو مہیا کرتی ہے۔ جن سے  ہم ہندوستان پر بالادستی حاصل کر سکتے ہیں ۔ کشمیر کی تینوں جنگوں اور طالبان کی تخلیق میں قبائلی شمولیت اسی تصور کا نتیجہ تھی۔ اور جسے ابھی حال تک اپنا اثاثہ تسلیم کیا جاتا رہا ہے۔

5۔ بین الاقوامی خوف
لیبیا ، عراق ، شام اور افغانستان کی سول وارز میں بین الاقوامی سازشوں اور مفادات نے پاک ملٹری مائنڈ سیٹ کا یہ خوف مزید گہرا کر دیا ہے۔ کہ وہ اگلا ٹارگٹ ہو سکتے ہیں ۔ چنانچہ ایک ایٹمی طاقت کی حامل مضبوط فوج اور بھی ضروری ہو گئی  ہے۔

ملٹری مائنڈ سیٹ میں تبدیلی!
پچھلے دس سال میں اس ملٹری مائنڈ سیٹ میں چار تبدیلیاں نوٹ کی گئی  ہیں ۔ ان تبدیلیوں کو حالات کا جبر کہہ لیں ، مثبت گروتھ سمجھ لیں  یا وقت کی ضرورت مان لیں ۔

1۔ جمہوریت ایک ضرورت ہے۔
مکمل نہ سہی لیکن نظر آنے کی حد تک ضرور
اس تبدیلی کے تحت دو جمہوری حکومتوں کو چلنے دیا گیا اور مدت پوری کرنے دی گئی ۔ ملٹری مائنڈ سیٹ کو بہت دیر سے احساس ہوا۔ جنگوں کے معاملات تبدیل ہو چکے ہیں ۔ اب دشمن سرحدوں پر نہیں ہر جگہ ہر فیلڈ میں موجود ہے۔ فورتھ جنریشن وار کا یہی تصور ہے۔ پاک فوج اقتدار اور سیاست کے چکروں میں پڑی رہی اور بہت دیر سے مگر پھر بھی نامکمل خیال آیا۔ چھ محرکات اہم ثابت ہوئے ۔
اول۔ مشرف حکومت کی ناکامی
دوئم۔ بین الاقوامی سطح پر فوجی حکومت کی نا قبولیت سوئم۔ نچلی سطح تک حکومت چلانے میں ناکامی
چہارم۔ اقتدار میں شامل سیاسی پارٹیوں کی بوجہ ناکامی اور فوج پر الزام ۔
پنجم۔ فوج کی سویلینز کے ساتھ انٹر ایکشن اور سویلین موقف سمجھنے کی کوشش،
ششم ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ

2۔ دوسری تبدیلی ۔ تزویراتی گہرائی  ختم اور اندرون ملک فوکس ، یہ جنرل کیانی کی ڈاکٹرائن تھی۔

3۔ تیسری تبدیلی میڈیا کے حوالے سے آئی  ۔ یہ سمجھا گیا کہ  طالبان کی طرح  ہمارا اپنا لایا میڈیا بھی بہت طاقتور ہو گیا ہے اور ہاتھ سے نکل کر دشمنی پر اتر آیا ہے۔ چنانچہ اس کا مکو ٹھپنا ضروری ہے۔ یہ موجودہ ملٹری ڈاکٹرائن کا حصہ ہے۔ جسمانی اور معاشی ہر حربہ زیر استعمال ہے۔

4۔ چوتھی تبدیلی معاشی ضرورت اور دفاع کے لیے پیسے  کے حوالے سے آئی  ۔ جو ایک جمہوری حکومت میں زیادہ ممکن ہے۔ اور بین الاقوامی خوف سے نکلنے کے لیے اور ایک مضبوط فوج کے لیے پیسہ بہت ضروری ہے۔ نواز شریف اور اسحاق ڈار کے ساتھ یہی بنیادی ایشو تھا۔ عمران حکومت نے سعودی بیل آوٹ پیکیج پر جس طرح خوشی منائی  ہے۔ اس کے پیچھے بھی یہی خوف تھا۔ کہ اگر معاشی اور مالی حالت فوری طور پر درست نہ ہوئی  تو حکومت خطرے میں پڑ چکی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

ملٹری مائنڈ سیٹ کو سمجھنا ، اس کی ڈویلپمنٹ اور تبدیلی کو جاننا ایک دلچسپ چیپٹر ہے۔ لیکن بدقسمتی سے معلوم یہ ہو رہا  ہے۔ کہ باوجود ان چند مخصوص تبدیلیوں کے ملٹری مائنڈ سیٹ آج بھی پچاس کی دہائی  میں کھڑا ہے۔ تب بھی حکومت چلتی تھی وزیراعظم تبدیل ہو جاتا تھا۔ وہی احساس برتری آج بھی موجود ہے اور مضبوط فوج اور پیسے کی ضرورت تب بھی تھی۔ آج بھی ہے۔ میڈیا تب بھی یونہی زیر عتاب تھا۔ اور عدلیہ کا کردار بھی یہی تھا۔ ضرورت اس امر کی ہے۔ جمہوریت کو آزاد کیا جائے۔ اسے سانس لینے کی جگہ دی جائے  تاکہ یہ ترقی کر سکے۔ جمہوریت ترقی کرے گی۔ تو معاشیات ترقی کرے گی۔ معاشیات ترقی کرے گی تو دفاعی ضرورت بہتر طریقے سے پوری ہو گی۔ اس کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز ، عسکری اور سویلینز، مل کر بیٹھیں ۔ اور آئین کے تحت اپنے کردار ادا کریں ۔ وقت ثابت کر رہا  ہے جمہوریت اور معاشیات کو کنٹرول کرنے سے نقصان ہوا۔ آپ بے شک اس کی ذمہ داری سیاستدانوں کی کرپشن پر ڈالتے رہیں ۔ لیکن یقین کریں اس سے ملک و قوم کو نہ پہلے فائدہ ہوا نہ آئندہ ہو گا۔

Facebook Comments

طارق احمد
طارق احمد ماہر تعلیم اور سینیئر کالم نویس ہیں۔ آپ آجکل برطانیہ میں مقیم ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply