• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • زمزمہ – قلم کی نوک پر رکھوں گا اس جہان کو میں۔۔۔سعدیہ سلیم بٹ/حصہ دوم

زمزمہ – قلم کی نوک پر رکھوں گا اس جہان کو میں۔۔۔سعدیہ سلیم بٹ/حصہ دوم

خواب بُننے کی عمر:
ہم اس دور کے بچے ہیں جب اماں ابا سیدھے سادھے تھے اور ان کا رعب بھی ہوتا تھا۔ ہمیں اپنے بچپن میں سرخی پاؤڈر کی بھی اجازت نہیں تھی۔ انٹر تک ایڑی والا جوتا بھی ممنوع تھا۔ گریجویشن میں امی نے اجازت دے دی کہ صرف چیپ اسٹک کا متبادل استعمال کر سکتے وہ بھی ایسے رنگوں میں جو شوخ نہ ہوں۔ ہم اچھے وقتوں کی اولادیں ہیں۔ ہمیں ماں باپ کی ایسی باتیں ڈپریس نہیں کرتی تھی۔ حق حکمرانی ان کا تھا کہ ہم ان کے محتاج تھے۔ البتہ کبھی اگر سوال کرتے کہ امی آپ میک اپ کیوں نہیں استعمال کرنے دیتی تو جواب ملتا بچوں کی معصومیت مر جاتی ہے۔ انسان شادی شدہ لگتا ہے۔امی کا مقصد جو بھی تھا لیکن شادی کا پہلا تصور ہی ذہن میں گندا ہو گیا۔ یعنی کہ شادی ایسی چیز ہے جس کا معصومیت سے دور تک کا کوئی سروکار نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

شادی کے متعلق ہماری معلومات اپنے والدین تک محدود تھی۔ ہمارے بڑے راوی ہیں کہ تین سال کی عمر میں ایک شادی کی تقریب پر رخصتی کا منظر دیکھ کہ میں نے کہا تھا امی کیا میرا دلہا بھی کسی دن آ کے کہے گا چلو بیٹا گاڑی میں بیٹھ کے چلیں؟ خیر یہ تو وہ بات تھی جس کے راوی ہمارے بڑے ہیں۔ اپنا مشاہدہ تو بہت بھیانک تھا۔ ہم تو یہ جانتے تھے کہ جب لوگوں کی شادی ہو جائے تو امی کو صبح بچوں کو تیار کرنا ہوتا ہے۔ بابا کو اسکول چھوڑنے جانا ہوتا ہے۔ پھر امی نے تازہ لنچ کروانے آنا ہوتا ہے اسکول کیونکہ اس وقت استادوں کی ذمے داری پڑھانے کی تھی۔ پھر واپس جا کے امی نے صفائی کروانی ہوتی۔ کھانا بنانا ہوتا۔ اور پھر نہا دھو کے بچوں کو لینے  آنا۔ اس کے بعد بچوں کو نہلا دھلا کے کھانا دینا ہوتا۔ سلانا ہوتا۔ اس کے بعد ہوم ورک۔ پھر شام کی چائے۔ پھر رات کا کھانا اور اس دوران نہ جانے کیا کیا کچھ۔ شادی کا یہ پہلو بھی خراب تھا ہماری نظر میں۔
ایک بار گریجویشن کے دنوں کی بات ہے۔ بہار کے دن تھے اور
اوائل اپریل کے دن تب بہت خوشگوار ہوتے تھے۔ موسم نہایت رومان انگیز تھا اور اچانک ہی ایک خیال آیا کہ بندے کی شادی ہوئی ہو تو موسم ضائع تو نہ ہوں۔ اتنے میں نیچے سے آواز آئی کہ بیگم آج بارش کا موسم ہے۔ پکوڑے تل لیں۔ فوراً سے اپنے خیال سے توبہ کی اور شادی سے اللہ کی پناہ مانگی۔
لیکن ایسا نہیں ہے کہ زندگی میں ہر چیز نے شادی سے یا رومینس سے متنفر ہی کیا۔ ایک بات تو ہے ہمارے وقتوں میں ڈرامے بھی ایسے نہیں ہوتے تھے جن کا واحد مرکزی نکتہ نگاہ مرد و زن ہوں۔ ہم انگار وادی، لاگ، آنچ، عروسہ، تنہائیاں، دھواں، انکار، لنڈا بازار، آنگن ٹیڑھا، ہاف پلیٹ، تعلیم بالغان، جانگلوس، گیسٹ ہاؤس، کاجل گھر ، الفا براوو چارلی، سنہرے دن،جیسے ڈراموں کے دور کے بچے تھے۔ یہ سب ڈرامے اپنے اندر ایک مکمل تربیت گاہ تھے۔ ہاں ہمیں کسی نے بگاڑنے کی کوشش کی تو وہ خواتین ڈائجسٹ کے ناولز تھے۔
اسکول سے نکل کر نئے نئے کالج گئے تو کچھ چیزوں کا سواد ہی الگ تھا۔ میں نے تعلیمی دور کے گیارہویں سال میں پہلی بار جانا تھا بنک مارنا کیا ہوتا ہے۔ اسکول میں ایسا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ بنک مار کے کرنا تو کیا ہوتا تھا، بس کسی کونے میں بیٹھ کر ڈائجسٹ پڑھنے ہوتے تھے، جن کا گھر میں داخلہ قطعی ممنوع تھا۔ مزے کی بات یہ بھی ایک بار ڈائجسٹ گھر لیجا کے پتہ لگا کہ یہ چیز ہمارے گھر نہیں آسکتی۔ سو اس کے بعد یہ چیز کبھی گھر تو نہیں گئی، لیکن اس بیماری نے کم از کم ڈیڑھ سال برباد کروایا۔ اس کی وجہ سے کالج کی لائبریری کی شکل دیکھنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ بس رومینٹک ناولز کی لت ایسی پڑی کہ ڈیڑھ سال پڑھائی کی بجائے اس کام میں تباہ کر ڈالا اور پڑھائی ناقابل تلافی نقصان اٹھایا۔
ان ناولز میں کہانیاں کچھ الگ سی تھی۔ وہ ناولز کچے ذہنوں کی جنت تھے۔ ایک لڑکا، ایک لڑکی، سارے ناولز میں کچھ ایسا منظر نامہ ہوتا جیسے دنیا کا ہر لڑکا امیر ہے۔ نہیں ہے تو بہت جلد ہو جاتا ہے۔ اسے کسی لڑکی کی تلاش ہے۔ لڑکی کا شرمیلا اور انا پرست ہونا بہت ضروری ہے۔ لڑکا بھی انا پرست ہوتا ہے لیکن لڑکی کی انا سے ہار جاتا ہے۔ لڑکا اپنے ماں باپ کے خلاف نہیں جاتا لیکن جہاں ماں باپ غلط ثابت ہوں، لڑکا بغاوت کا علم بلند کر دیتا ہے۔ ایک ناول تو اس قدر عجیب پڑھا تھا کہ لڑکے صاحب لڑکی صاحبہ کی آنا توڑنے کے لیئے شادی کی رات انہیں آ کے کہتے ہیں میں نے تو تمہارے آنے سے پہلے طلاق نامہ بنوا کے رکھا تھا۔ دور کھڑے ہو کے وہ اس پر سائن کرتے ہیں اور اسے لڑکی کے سامنے جلا دیتے ہیں۔ پھر اس لڑکی کو کہتے ہیں اب میں نے اسے جلا دیا ہے، تم کیسے ثابت کرو گی میں نے تمہیں چھوڑا۔ پھر وہ ارادہ ظاہر کرتے ہیں میں تمہیں روند دوں گا۔ لڑکی عزت بچانے کے لیئے فورا پیروں میں گر جاتی ہے۔ تب لڑکے صاحب اسے تھوڑا تڑپا کے بتاتے ہیں کہ وہ تو خالی اسٹیمپ پیپر تھا۔ میں تو صرف تمہارا غرور ختم کرنا چاہتا تھا۔ تم میری عزت ہو۔ میں تو منتوں سے تمہیں پانے میں کامیاب ہوا ہوں۔
ناولز کی ہیروئن اور ہیرو میں کوئی کمی نہیں ہوتی تھی۔ دونوں اپنے اپنے ناول کے حساب سے جنت کی مخلوق سے صرف اس وجہ سے کم ہوتے کہ ابھی وہ زمین پر ہوتے تھے۔ اگر کمی ہوتی بھی تو صرف پیسے کی جسے یا تو وہ کردار دو سال میں پورا کر لیتے یا پھر سسرال والے اتنے اچھے مل جاتے جیسے کہ ابھی ابھی جنت سے رکشہ کروا کے بس وہ رشتہ لینے ہی آئے ہوں۔
ایسے ناولز نے ہمارا شاعری کا انتخاب کچھ ایسا کروا دیا:
********************************
میں جب بھی یاد کی شمعیں جلا کے رکھتی ہوں
یہ میری ضد ہے کہ آگے ہوا کے رکھتی ہوں
********************************
ہے بھروسہ ہم کو اپنی بے نیازی پر مگر
کسی نے رکھ دیا پیروں میں سر تو کیا ہو گا
********************************
ہم چھین لیں گے اک دن یہ شان بے نیازی
پھر مانگتے پھرو گے ہم سے غرور اپنا
********************************
میرا ایک پلس یہ ہے میں رازدان بہت اچھی ہوں۔ لڑکیوں کی عمومی طبیعت کے خلاف کسی راز کو پا کے میرے پیٹ میں مروڑ نہیں اٹھتے۔ اس پلس کی وجہ سے اس وقت اپنے جاننے والوں کی بچیوں اور باجیوں میں اپنی بڑی گڈول تھی۔ سب اپنے “قصے” بلا دھڑک سنا دیتی تھی۔ یہ قصے ناولز پر میر ایمان اور پختہ کر دیتے۔ مجھے یقین ہوتا جاتا کہ یہ ناولز سچ ہیں۔ اس وقت چونکہ وزن بے انتہاء زیادہ تھا تو ناول کی ہیروئن بننے کے لیئے میں نے ڈائیٹ بھی شروع کر دی۔ رنگ تو گورا تھا ہی۔ خود اعتمادی کوٹ کوٹ کے بھری تھی۔ ناولز کے بیشتر کرداروں کی طرح میں بھی لاڈلی اولاد تھی۔ پھر ماں باپ کی اکلوتی بیٹی بھی تھی۔ الغرض سب کچھ مکمل تھا۔ ایک وزن کا مسئلہ تھا۔ سو میں نے “قصوں” کی عمر سے پہلے حسین ہونے کی ٹھان لی۔
انٹر کے دو سال ختم ہوئے اور تعلیمی نتائج تباہ کن نکلے تو احساس ہوا کہ یہ کیا ہوا۔ ناول کی ہیروئن کو تو اچانک سے سب کچھ کمرہ امتحان میں بیٹھ کے یاد آ جاتا تھا۔ ایک ہم نکمے کہ جو نہیں آتا تھا اس کے خوف سے کمرہ امتحان میں جا کے وہ بھی بھول گئے جو آتا تھا۔ عورت تب تباہ کن ہوتی ہے جب اس کے پاس سوچنے والا دماغ اور بولنے والی زبان ہو۔ اوپر سے ہمارے گھر میں یہ رواج بھی نہیں تھا کہ نمبر کم آئیں تو بچی کی شادی کر دی جائے۔ الٹا گھر والے یہ کہتے پائے گئے لوگوں کو پتہ لگا تو کیا کہیں گے۔ اتنے کم نمبر آئے ہیں۔ لوگ کہیں گے شادی کر دو اس کا دل نہیں پڑھائی میں۔ کتنی ذلت ہو گی کہ ہماری بچی کا پڑھائی میں دل نہیں۔ ناک کٹوا دی ہماری۔
یہاں تک سلسلہ رک جاتا تو شاید میں خود کو سمجھا دیتی کہ ذرا سی اونچ نیچ ہو گئی ہے۔ یا پھر میرا ہیرو کسی کالج میں پڑھتا ہو گا اسی وجہ سے مجھے پڑھائی لازمی جاری رکھنی ہو گی۔ بھلا ناولز میں بھی تو یہی ہوتا ہے کہ ہیروئن کو جو بات ناگوار گزرے اسی میں سے رومینس کا پہلو نکل آتا ہے۔ لیکن شومئی قسمت یہ کہانی یہاں رکی نہیں۔ وہ “قصے” جن کی میں رازدان تھی، انٹر کے رزلٹ کے ساتھ ہی ان کا بھی رزلٹ آ گیا۔ میں نے کئی لڑکیوں کو پہلی بار روتے دیکھا۔ اور اتنا روتے دیکھا کہ دل اور خواب دونوں ٹوٹ گئے۔ بس وہ دن تھا کہ اپنا تو دل شادی سے اچاٹ ہی ہو گیا۔ اس کے آگے ایک نئی شروعات تھی۔ لیکن وہ کہانی اگلی بار۔

Facebook Comments

سعدیہ سلیم بٹ
کیہ جاناں میں کون او بلھیا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply